صرف آر ٹی ایس کی وجہ سے انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی ، دوسرے طریقے بھی استعمال کے گئے ، سینیٹر تاج حیدر

جمعرات 14 مئی 2020 00:06

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 مئی2020ء) پاکستان پیپلزپارٹی کے سنٹرل الیکشن سیل کے انچارج سینیٹر تاج حیدر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صرف آر ٹی ایس کے خراب ہونے کی وجہ سے 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی بلکہ دھاندلی کی دیگر طریقے بھی 2018ء کے انتخابات میں استعمال کے گئے۔ انہوں نے کہا کہ 95فیصد پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ بوتھ سے آر ٹی ایس نے نہیں نکالا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک مرتبہ پھر 2018ء میں منظم دھاندلی پر پردہ ڈالنے کے لئے آر ٹی ایس کی ناکامی کو وجہ قرار دے رہا ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ آر ٹی ایس سسٹم وقت بچاتا ہے اور انتخابات کے عمل کو شفاف بناتا ہے لیکن آر ٹی ایس ہی سے انتخابات کو شفاف نہیں بنایا جاسکتا۔

(جاری ہے)

اگر ووٹوں کی گنتی پولنگ ایجنٹوں کے سامنے ہوتی اور پولنگ ایجنٹوں کو باہر نہیں نکالا جاتا اور فارم 45پر دستخط لئے جاتے تو دھاندلی کو کم کیا جا سکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جو قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے انتخابات لڑ رہے تھے وہاں صرف دو فارم 45پر ان کے پولنگ ایجنٹس کے دستخط لئے گئے۔ اس کے علاوہ کسی پولنگ ایجنٹ کے دستخط لئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن سنجیدگی سے وہ چاہتا ہے کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں تو اسے بہت ساری باتوں کا خیال رکھنا پڑے گا جیسا کہ مقامی اور بین الاقوامی انتخای مبصرین کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنا، امیدواروں پر پارٹی بدلنے کے لئے دبائو ڈالنا، میڈیا پر پابندیاں لگانا، مردم شماری اور حلقہ بندیوں میں فراڈ، مذہبی انتہاپسندوں کاکردار یہ وہ ساری باتیں ہیں جو پری پول کے زمرے میں آتی ہیں۔

اسی طرح پولنگ کی شرح کو سست کرنا، شکایات پر کوئی ایکشن نہ لینا اور پرائم منسٹر "سلیکٹ"" کی میڈیا کوریج، لیاری کے حلقہ انتخاب جہاں سے چیئرمین پی پی پی انتخاب لڑ رہے تھے وہاں ووٹوں کی گنتی میں فراڈ، تربت اور بلوچستان کے دیگر حلقہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں اور عدلیہ کے کردار جیسے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ووٹ کچرہ کنڈیوں میں بھی پائے گئے اور اسکول کے بچوں کی درازوں کے اندر بھی اور اس کا الزام آر ٹی ایس سسٹم میں خرابی کو نہیں دیا جا سکتا۔

الیکشن کمیشن کو اس پر بھی وجہ دینا ہوگی کئی دنوں تک نتائج میں تاخیر اور متعدد حلقہ انتخابات میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد جیت کے مارجن سے زیادہ تھی۔ سینیٹر تاج حیدر نے الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا کہ وہ ان تمام باتوں اور خامیوں پر توجہ دے اور قومی اور بین الاقوامی مبصرین کی رپورٹس پر بھی توجہ دے۔ ان مبصرین کو پولنگ اسٹیشن کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ن