کورونا ازخودنو ٹس:لوگ پیسے سے کھیل رہے ہیں انسانوں کی کسی کو فکر نہیں ہے. چیف جسٹس

مشتبہ مریضوں کا سرکاری لیبارٹری سے ٹیسٹ مثبت اور نجی لیبارٹری سے منفی آتا ہے.سپریم کورٹ ڈیسٹوپاکستان آرمی کیا؟این ڈی ایم اے سارا سامان ایک ہی چینی کمپنی سے کیوں منگوا رہی ہے‘تمام طبی آلات اور ادویات پاکستان میں ہی تیار ہو سکتے ہیں. ریمارکس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 19 مئی 2020 16:30

کورونا ازخودنو ٹس:لوگ پیسے سے کھیل رہے ہیں انسانوں کی کسی کو فکر نہیں ..
 اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 مئی۔2020ء) چیف جسٹس گلزار احمد نے کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کورونا کے مشتبہ مریضوں کا سرکاری لیبارٹری سے ٹیسٹ مثبت اور نجی لیبارٹری سے منفی آتا ہے، یہاں سب لوگ پیسے سے کھیل رہے ہیں اورانسانوں کی کسی کو فکر نہیں ہے. چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کی کورونا وائرس ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) میجرجنرل افضل خان پیش ہوئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کورونا وائرس سے متعلق اخراجات پر وضاحت کے لیے چیئرمین این ڈی ایم اے عدالت میں موجود ہیں.

(جاری ہے)

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہماری تشویش اخراجات سے متعلق نہیں بلکہ سروسز کے معیار پر ہے کیونکہ کورونا کے مشتبہ مریضوں کا سرکاری لیبارٹری سے ٹیسٹ مثبت اور نجی لیبارٹری سے منفی آتا ہے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری کے ملازمین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، ہمارے ملازمین کا ٹیسٹ سرکاری لیب سے مثبت اور نجی لیب سے منفی آیا. چیف جسٹس نے کہا کہ کورونا کے مریضوں کو دنیا جہاں کی ادویات لگا دی جاتی ہیں، لاہور میں ایک شخص رو رہا تھا کہ اس کی بیوی کو کورونا نہیں لیکن ڈاکٹر چھوڑ نہیں رہے تھے‘حکومتی اقدامات پر مریضوں کی شکایات دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قرنطینہ مراکز میں واش رومز صاف نہیں ہوتے اور پانی بھی نہیں ہوتا جبکہ قرنطینہ مراکز میں 10،10 لوگ ایک ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں، سوشل میڈیا پر وہاں کی حالت زار پر ویڈیوزچل رہی ہیں.

چیف جسٹس نے کہا کہ قرنطینہ سینٹرز کے مشتبہ مریض ویڈیوز میں تارکین وطن کو کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں نہ آئیں انہوں نے کہا کہ ہم بہت غریب ملک ہیں، ہماری معیشت کا شمار افغانستان، یمن اور صومالیہ سے کیا جاتا ہے لیکن ہم پیسے سے کھیل رہے ہیں اور لوگوں کا احساس نہیں، نیشنل ہسپتال لاہور سے ایک آدمی کی ویڈیو دیکھی ہے وہ رو رہا ہے . انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو سلام پیش کرتے ہیں، لیکن اس عملے میں جو خراب لوگ ہیں وہ تشویش کی وجہ ہیں‘چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ایکسپو سینٹر اور اسلام آباد میں کئی قرنطینہ مراکز سے لوگوں کی ویڈیوز دیکھنے کو مل رہی ہیں، لوگ غصے میں کہہ رہے ہیں کہ باہر مر جاﺅ لیکن پاکستان نہ آﺅ، 10،10 لوگ قرنطینہ مراکزمیں ایک ساتھ بیٹھے ہیں یہ کیسا قرنطینہ ہے.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ان قرنطینہ سینٹرز میں کوئی صفائی کا خیال نہیں رکھا جارہا ہے، کئی سینٹرز میں پانی تک نہیں آتا ہے یہ تو حالات ہیں‘چیئرمین این ڈی ایم اے کو عدالت نے روسٹرم پر بلایا اور چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کی رپورٹ میں پی پی ایز بنانے والی ایک کمپنی کا ذکر ہے، ڈیسٹوپاکستان آرمی کیا ہے اور کیا یہ کسی پرائیویٹ شخص کہ کمپنی ہے، خصوصی جہاز بھیجوا کر اس کمپنی کی مشینری منگوائی گئی.

چیف جسٹس نے کہا کہ سب لوگ صرف پیسے سے کھیل رہے ہیں کسی کو انسانوں کی فکر نہیں، پاکستان کے پاس خرچ کرنے کے لیے لامحدود رقم نہیں ہے، این ڈی ایم اے سارا سامان چین سے منگوا رہی ہے اور چین سے ایک ہی پارٹی این ڈی ایم اے کو سامان بھیج رہی ہے انہوں نے کہا کہ مقامی سطح پر سامان کی تیاری کے لیے ایک ہی مشین منگوائی گئی، یہ ڈیسٹو پاکستان آرمی کیا چیز ہے، ڈیسٹو کسی فوجی افسر کی نجی کمپنی ہوگی، سرکاری نہیں جس پر چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ ڈیسٹواسی کمپنی ایس پی ڈی کی ذیلی کمپنی ہے.

چیف جسٹس نے کہا کہ تمام طبی آلات پاکستان میں ہی تیار ہو سکتے ہیں، وقت آ رہا ہے کہ ادویات سمیت کچھ بھی باہر سے نہیں ملے گا اس لیے پاکستان کو ہر چیز میں خود مختار ہونا ہوگا، اسٹیل مل چل پڑے تو جہاز اور ٹینک بھی یہاں بن سکتے انہوں نے کہا کہ تمام پی آئی ڈی سی فیکٹریاں اب بند ہوچکی ہیں، اسٹیل مل کو سیاسی وجوہات پر چلنے نہیں دیا جاتا. چیف جسٹس نے کہا کہ مسئلہ ملکی پیداوار کا ہے تاکہ سرمایہ بنے اور نوکریاں ملیں، پاکستان میں ہر کمپنی اور ادارہ بند ہو رہا ہے، ہم صومالیہ کی طرف جارہے ہیں لیکن بادشاہوں کی طرح رہ رہے ہیں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم وینٹی لیٹرز بنانے کے قابل ہو چکے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں سب کچھ سیاسی طور پر ہورہا ہے.

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی ساری توجہ شہروں پر ہے دیہاتوں میں کوئی نہیں جا رہا ہے، کورونا وائرس کے لیے دیہاتوں میں آ ج بھی لوگ دم کروا رہے ہیں، حاجی سینٹرزکو قرنطینہ مرکز بنانے کے لیے 56 کروڑ خرچ کر دیے گئے لیکن قرنطینہ سینٹر تو نہ بن سکا جبکہ قرنطینہ میں جانے والا پیسے دیے بغیرباہر نہیں نکل سکتا. چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ 20 اپریل سے ہم نے ملکی پیداوار میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے اوراس وقت ملک میں ماہانہ ایک ملین کٹس تیار کی جا رہی ہیں انہوں نے کہا کہ ضرورت سے زائد کٹس کو برآمد کرنے کی طرف جا رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے لوگ چین سے آ خری معیار کی چیز بنواتے ہیں جبکہ امریکا سمیت دیگر ممالک میں چیزوں کی خریداری کا ایک معیار رکھا جاتا ہے.

چیف جسٹس نے کہا کہ تھرڈ کلاس چیزیں باہر سے منگوائی جاتی ہیں، جیسے عسکری پارک میں اسکریپ شدہ جھولا لگایا گیا تھا، پاکستان میں اکثر مال اسکریپ شدہ ہی بھیجا جاتا ہے‘ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو آگاہ کیاکہ لاک ڈاﺅن پہلے جیسا موثر نہیں رہا، بیوٹی سیلون اور نائی کی دکانیں بھی کھل رہی ہیں. چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو کہا کہ یہ ہماری وجہ سے نہیں کھل رہے بلکہ آپ کے انسپکٹر پیسے لے کر اجازت دے رہے ہیں جبکہ عدالت نے سندھ حکومت کو کچھ نہیں کہاانہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے تمام سرکاری دفاتر کھول دیے ہیں، سب رجسٹرار کا آفس آپ نے کھول دیا ہے، بڑی کرپشن کا ادارہ سب رجسٹرار آفس ہے، کرپشن کے تمام اجلاس سب رجسٹرار آفس میں ہوتے ہیں.

چیف جسٹس نے کہا کہ عوامی خدمت کے لیے نہیں بلکہ سرکاری دفاتر کھولے ہیں‘اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورونا کیسز کا عروج ابھی نہیں آیا، پاکستان میں 46 ہزار مریض ہیں جبکہ دنیا میں 3 لاکھ اموات کورونا وائرس سے ہوئی ہیں اورپاکستان میں اموات ایک ہزار کے لگ بھگ ہیں. انہوں نے کہا کہ لوگ ہسپتالوں میں کسی دوسرے مرض کے علاج کے لیے جاتے ہیں تو کورونا ٹیسٹ کا کہہ دیا جاتا ہے، حکومت کوشش کررہی ہے کہ او پی ڈی کو مکمل کھولا جائے‘ حکومت کے لیے بڑا آسان ہے کہ لاک ڈاﺅن کردیں لیکن یہ بھی دیکھنا ہے کہ لوگ بھوک سے نہ مرجائیں‘اٹارنی جنرل نے کہا کہ تعلیم یافتہ لوگ بھی کورونا کے وجود پر سوال اٹھاتے ہیں، کورونا کے وجود پر کسی ڈاکٹر نے سوال نہیں اٹھایا.

انہوں نے کہا کہ فاقہ کشی سے لوگوں کو بچانے کے لیے عدالت نے راستہ کھولا لیکن کل یہ تاثر گیا کہ کورونا سنجیدہ مرض نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کورونا وائرس ایک سنجیدہ مسئلہ ہے‘اٹارنی جنرل نے کہا کہ جون کا مہینہ کورونا کے لیے انتہائی خطرناک ہے جبکہ لوگ ابھی سے سڑکوں پر نکل آئے ہیں. چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ معلوم ہوا ہے کہ بھارت سے بھی ادویات منگوائی جا رہی ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت نے بھارت سے ادویات منگوانے پر کارروائی کی ہے‘انہوں نے کہا کہ بھارت سے ادویات منگوانے کی انکوائری ہو رہی ہے اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹڈی دل کا بڑا ریلا ایتھوپیا سے پاکستان کی جانب بڑھ رہا ہے لیکن ٹڈی دل سے نمٹنے کے لیے قدامات کیے جا رہے ہیں.

چیف جسٹس نے کہا کہ ٹڈی دل کو قابو نہ کیا تو آئندہ سال فصلیں نہیں ہوں گی، پہلے بھی ٹڈی دل آتا تھا لیکن دو ہفتے میں اسے ختم کر دیا جاتا تھا انہوں نے کہا کہ فصلوں کے تحفظ کے لیے قائم ادارے کے پاس جہاز تھے جو ٹڈی دل سے نمٹتے تھے، چیئرمین این ڈی ایم اے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس وقت 20 میں سے صرف ایک جہاز فعال ہے. انہوں نے کہا کہ مزید ایک جہاز بھی خرید لیا ہے اور پاک فوج کے پانچ ہیلی کاپٹرز کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں، توقع ہے ڈی دل سے جلد نمٹ لیا جائے گاسپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ میں شامل جسٹس سردار طارق نے کہا کہ پنجاب اور اسلام آباد میں مالز حکومت کھول رہی تھی جبکہ عدالت نے حکم صرف سندھ کی حد تک دیا تھا.

انہوں نے کہا کہ باقی ملک میں مالز کھل رہے ہیں تو سندھ کے ساتھ تعصب نہیں ہونا چاہیے اس لیے عدالت کا گزشتہ روز کا حکم بالکل واضح ہے جسٹس سردار طارق نے کہا کہ مالز محدود جگہ پر ہوتے ہیں جہاں احتیاط ممکن ہے، راجا بازار، موتی بازار، طارق روڈ پر رش بہت زیادہ ہوتا ہے اس لیے مالز کھولنے کا الزام عدالت پر نہ لگائیں. اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے ہفتہ اتوار کے لاک ڈاﺅن پر حکم سے ممکن ہے حکومت مطمئن نہ ہو لیکن اس پر عمل کیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہفتہ اتوار کو کھولنے کا حکم صرف عید تک کے لیے دیا ہے‘چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری پورے پاکستان پر نظر ہے، آنکھ، کان اور منہ بند نہیں کرسکتے.

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وضاحت کردیں کہ ہفتہ اور اتوار کا لاک ڈاﺅن عید تک ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 8 جون کو ہونے والی سماعت میں وضاحت کر دیں گے‘سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کورونا کے خطرات پر ماہرین کی ٹیم بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے پیش رفت رپورٹس مانگ لیں. چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری دفاتر کھول کر نجی ادارے بند کررہے ہیں، سندھ حکومت کے فیصلوں میں بڑا تضاد ہے ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت طبی ماہرین کی رائے کے برخلاف جارہی ہے ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ عدالت ہماری گزارشات بھی سن لے، عدالت ماہرین کی کمیٹی بنا کر رپورٹ طلب کرلے، لاک ڈاﺅن ختم ہوگیا ہے اب اس کا نتیجہ کیا ہوگا.

انہوں نے کہا کہ ہفتے میں دو دن لوگ مارکیٹ نہیں آئیں گے تو وبا کا پھیلاﺅزیادہ نہیں ہوگا سپریم کورٹ نے سینٹری ورکرز کو تنخواہیں اور حفاظتی سامان مہیا کرنے کا حکم دے دیا‘عدالت نے دلائل سننے کے بعد کہا کہ کورونا وائرس پاکستان میں وجود رکھتا ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان میں اموات ہوئی ہیں جبکہ کورونا وائرس کے مریضوں کا بڑے پیمانے پر علاج چل رہا ہے.

سپریم کورٹ نے کہا کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کافی وسائل چاہیے ہوں گے، حکومت کورونا وائرس کے خلاف نبرد آزما ہے اور اس سلسلے میں چیرمین این ڈی ایم اے کی رپورٹ بڑی مفید ہے‘سماعت کو سمیٹتے ہوئے عدالت نے کہا کہ پی پی ایز پاکستان میں تیار ہورہے ہیں اور وینٹی لیٹرز کی تیاری بھی شروع ہوچکی ہے. عدالت نے کہا کہ 1187 وینٹی لیٹر حکومت بیرون ملک سے منگوانے کا آرڈر دے چکی ہے اور300 وینٹی لیٹر آچکے ہیں عدالت نے نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے کورونا وائرس کے خلاف اقدامات پر پیش رفت رپورٹ طلب کی اور کورونا از خود نوٹس کیس کی سماعت 8 جون تک ملتوی کردی.

خیال رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے 10 اپریل کو ملک میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات پر ازخود نوٹس لیا تھاچیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کورونا وائرس سے متعلق ازخود نوٹس پر 13 اپریل کو پہلی سماعت کی تھی‘سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کورونا وائرس از خود نوٹس پر سماعت کے بعد تحریری حکم نامے میں مارکیٹیں اور کاروباری سرگرمیاں ہفتہ، اتوار کو بند کرنے کا فیصلہ کالعدم کردیا تھا.

تحریری حکم میں کہا گیا تھا کہ اگر کاروبار اور صنعتیں طویل عرصے تک بند رہیں تو ان کا دوبارہ بحال ہونا مشکوک ہوجائے گا‘عدالت نے کہا تھا کہ کاروبار اور صنعتیں بحال نہ ہونے سے لاکھووں ورکرز سڑکوں پر ہوں گے اور اتنی بڑی تباہی سے حکومت کے لیے ڈیل کرنا نا ممکن ہوجائے گا. تحریری حکم میں واضح طور پر نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے) کی پیش کردہ رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیاتھا عدالت نے تحریری حکم میں کہا تھا کہ نہیں سمجھ آتی اتنا پیسہ کیوں خرچ کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی عدالت نے کہا تھا کہ این ڈی ایم اے کی رپورٹ پر اٹارنی جنرل اور متعلقہ حکام کا موقف سننا چاہتے ہیں، جس پر چیئرمین این ڈی ایم اے عدالت میں پیش ہوئے.