حکومت نے چینی بحران سے متعلق انکوائری کمیشن کی رپورٹ جاری کر دی

پچھلے پانچ سالوں میں شوگر ملوں نے 22 ارب روپے کا ٹیکس دے کر 10 ارب روپے کے ری فنڈز لے لئے، ریگولیٹر چینی بحران کا ذمہ دار قرار، ریگولیٹر کی غفلت کے باعث چینی بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی، وفاقی کابینہ نے ریکوری کر کے پیسے عوام کو واپس کرنے اور نظام کو فعال اور اداروں کو متحرک کرنے کی منظوری دی ہے، شہباز شریف فیملی کی شوگر ملز میں ڈبل رپورٹنگ کے شواہد ملے، سندھ حکومت نے اومنی گروپ کو سبسڈی دے کر فائدہ پہنچایا، جے ڈی ڈبلیو گروپ نے غیر قانونی طور پر کرشنگ میں اضافہ کیا اور ڈبل بلنگ اور اوور انوائسنگ میں ملوث پائی گئی، آر وائی گروپ میں مونس الٰہی کے 34 فیصد شیئرز ہیں، مخدوم خسرو بختیار کی کوئی شوگر مل نہیں، کیسز نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی گئی ہے،وزیراعظم اور کابینہ نے شوگر بحران رپورٹ کو بغیر کسی تبدیلی کے پبلک کرنے کا فیصلہ کیا، وزیراعظم نے ہمیشہ کہا کہ کاروبار کرنے والے والا سیاست میں کاروبار کرے گا معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کی وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بریفنگ

جمعرات 21 مئی 2020 19:10

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 مئی2020ء) حکومت نے چینی بحران سے متعلق انکوائری کمیشن کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں شوگر ملوں نے 22 ارب روپے کا ٹیکس دے کر 10 ارب روپے کے ری فنڈز لے لئے، کمیشن نے چینی بحران کا ذمہ دار ریگولیٹر کو قرار دیا ہے، ریگولیٹر کی غفلت کے باعث چینی بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی۔

وفاقی کابینہ نے ریکوری کر کے پیسے عوام کو واپس کرنے اور نظام کو فعال اور اداروں کو متحرک کرنے کی منظوری دی ہے۔ شہباز شریف فیملی کی شوگر ملز میں ڈبل رپورٹنگ کے شواہد ملے ہیں،سندھ حکومت نے اومنی گروپ کو سبسڈی دے کر فائدہ پہنچایا، جے ڈی ڈبلیو گروپ نے غیر قانونی طور پر کرشنگ میں اضافہ کیا اور ڈبل بلنگ اور اوور انوائسنگ میں ملوث پائی گئی۔

(جاری ہے)

آر وائی گروپ میں مونس الٰہی کے 34 فیصد شیئرز ہیں۔ مخدوم خسرو بختیار کی کوئی شوگر مل نہیں ہے، کیسز نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی گئی ہے۔ کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں آنے والے دنوں میں ایکشن ہوگا۔ کمیشن نے سفارش کی ہے کہ ٹیکس چوری اور کسانوں کو کم ادائیگی کی رقم ادا کی جائے۔ جہاں جہاں بھی بے ضابطگی ہوئی ہے اس میں تحقیقات کے لئے سفارشات عید کے بعد وزیراعظم کو پیش کی جائیں گی۔

کابینہ نے دیگر شوگر ملوں کا بھی فرانزک آڈٹ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ابھی تک کسی کا نام ای سی ایل پر نہیں ڈالا گیا۔ وزیراعظم نے مفادات سے ٹکرائو سے متعلق قانون لانے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم نے مشیروں اور معاونین خصوصی کو اپنے اثاثے ظاہر کرنے کی ہدایت کی ہے، ادارے 20 ماہ میں خراب نہیں ہوئے، سابق حکمرانوں کے کاروباری مفادات تھے، انہوں نے غلط لوگ ان اداروں میں لگائے اور منظم طریقے سے انہیں تباہ کیا۔

جمعرات کو یہاں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں شوگر ملوں نے 22 ارب روپے کا ٹیکس دیا جس میں سے 10 ارب روپے ری فنڈ لئے گئے، اس طرح گزشتہ پانچ سالوں میں کل ٹیکس 10 ارب روپے دیا گیا، افغانستان کو برآمد کی جانے والی چینی کی ادائیگی ٹی ٹی کے ذریعے کی گئی، برآمدات کی مد میں 58 فیصد چینی افغانستان کو جاتی ہے، چینی کی قیمت میں ایک روپے اضافہ کر کے 5.2 ارب روپے منافع کمایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے اومنی گروپ کو سبسڈی دے کر منافع پہنچایا۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ پہلے کسی حکومت کی ہمت نہیں ہوئی کہ اس طرح کا تحقیقاتی کمیشن بنائے۔ چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کو دیکھ کر وزیراعظم نے انکوائری کمیٹی بنائی۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ وزیراعظم اور کابینہ نے شوگر بحران رپورٹ کو بغیر کسی تبدیلی کے پبلک کرنے کا فیصلہ کیا، وزیراعظم نے ہمیشہ کہا کہ کاروبار کرنے والے والا سیاست میں کاروبار کرے گا، واجد ضیا نے کابینہ کے سامنے چینی کمیشن کی رپورٹ پیش کی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح سے گنے کے کاشتکاروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ شوگر ملیں کاشتکاروں کو امدادی قیمت سے بھی کم دام دیتی ہیں، تقریباً تمام ملیں 15 سی30 فیصد گنے کی قیمت میں کٹوتی کرتی ہیں، کسان کو کچی پرچی پر ادائیگی کی جاتی ہے جو 140 روپے فی من ہے۔ انہوں نے کہا کہ شوگر ملیں لاگت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں، چینی کی سیل چیک کی گئی جس میں بے نامی ٹرانزیکشنز پائی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں شوگر ملوں کو 29 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ملوں کے اندر جو شواہد آئے ہیں اور جن چیزوں کو اجاگر کیا گیا ہے یہ سب چیزیں منسلک کی گئی ہیں کہ یہ کس قانون کے خلاف ہیں، ان تمام کی نشاندہی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام شواہدکی روشنی میں مختلف سفارشات دی گئی ہیں۔ تین قسم کی سفارشات ہیں۔

ریگولیٹری فریم ورک کی سفارشات ہیں، ریاست کے ادارے ہیں جن کا کام اسے ریگولیٹ کرنا ہے تاکہ یہ عوام کا استحصال نہ کر سکیں۔ کمیشن نے پیداواری لاگت کا بھی جائزہ لیا ہے اس میں 15 فیصد رعایت مل رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ریگولیٹری سفارشات میں بہت سی بنیادی باتیں بھی ہیں، یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اگر اتنا گھاٹے کا سودا ہے تو حکومت اس کو کیوں سبسڈائز کر رہی ہے۔

چینی کی پیداوار کو آن لائن کیا جانا چاہئے، بار کوڈ سسٹم ہونا چاہئے تاکہ اس بات کا پتہ لگایا جا سکے کہ چینی کی کتنی پیداوار ہوئی اور کتنی فروخت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے اس حوالے سے بڑے اہم فیصلے کئے، سب سے اہم فیصلہ یہ تھا کہ جیسے ہی یہ رپورٹ سامنے آئے اسے پبلک کیا جائے تاکہ عام آدمی کو پتہ چل سکے کہ اس کے ساتھ کتنی زیادتی ہوئی ہے۔

کمیشن نے یہ کیسز نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی ہے۔ کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں آنے والے دنوں میں ایکشن ہوگا، کابینہ نے نظام کو فعال اور اداروں کو متحرک کرنے کی منظوری دی ہے۔ وزیراعظم نے بھی ہدایت کی کہ اسے فوری طور پر پبلک کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نظام کو فعال بنا رہے ہیں، ایس ای سی پی کا بڑا کلیدی کردار ہے، ٹیکس کی مد میں واجبات جو چوری کئے گئے اور جس کے شواہد ملے ہیں وہ واپس ہو تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔

ریگولیٹری فریم ورک میں جب ہم کام شروع کریں گے تو اس میں سب سے زیادہ بہتری آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف فیملی کی شوگر ملز میں ڈبل رپورٹنگ کے شواہد ملے ہیں، کمیشن نے سفارش کی ہے کہ ٹیکس چوری اور کسانوں کو کم ادائیگی کی رقم ادا کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ جے ڈی ڈبلیو گروپ نے غیر قانونی طور پر کرشنگ میں اضافہ کیا، جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز ڈبل بلنگ اور اوور انوائسنگ میں ملوث پائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ آر وائی گروپ میں مونس الٰہی کے 34 فیصد شیئر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں بھی بے ضابطگی ہوئی ہے اس کی تحقیقات کے لئے سفارشات عید کے بعد وزیراعظم کو پیش کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ خسرو بختیار کے بھائی کی شوگر مل ہے، ان کی کوئی مل نہیں ہے، ان کے بھائی کے پاس کوئی سیاسی عہدہ نہیں ہے، خسرو بختیار کو عہدہ چھوڑنے کا نہیں کہہ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن نے چینی بحران کا ذمہ دار ریگولیٹر کو قرار دیا ہے، ریگولیٹر کی غلطی کی وجہ سے چینی کا بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی۔ کابینہ نے دیگر ملز کا بھی فرانزک آڈٹ کرنے کی ہدایت کی ہے اور ریکوری کر کے پیسے عوام کو واپس دینے کی ہدایت کی ہے۔ ابھی تک کسی کا نام ای سی ایل پر نہیں ڈالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے مفادات کے تصادم کا قانون لانے کی ہدایت کی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ آٹے کی سرکاری مد میں ہونے والی چوری کا نوٹس بھی لے رہے ہیں اور اس کی تحقیقات بھی کر رہے ہیں۔ آٹے کی مد میں کمیشن کی تین رپورٹیں آئیں، یہ تینوں رپورٹیں پی آئی ڈی کی ویب سائیٹ پر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ادویات والے معاملہ پر بھی انکوائری مجھے سونپی گئی ہے، انکوائری کر رہا ہوں کہ کیا جن ادویات کی درآمدات کی اجازت دی گئی وہی درآمد کی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہاشم جواں بخت نے وزارت خزانہ پنجاب میں سبسڈی دینے کی مخالفت کی تھی۔ مخدوم خسرو بختیار نے وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی سے خود معذرت کی کہ وہ اس وزارت سے الگ ہونا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے مفادات کے ٹکرائو سے متعلق فوری قانون بنانے کی ہدایت کی ہے اور تمام مشیروں اور معاونین خصوصی کو اپنے اثاثے ظاہر کرنے کی ہدایت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر شوگر مل میں ایف بی آر کا ایک انسپکٹر موجود ہوتا ہے۔ اگر ملی بھگت نہ ہو تو کسی قسم کی گڑ بڑ نہیں ہو سکتی۔ شاہد خاقان عباسی، عبدالرزاق دائود، وزیراعلیٰ پنجاب، خرم دستگیر، اسد عمر اور دیگر افراد بھی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا کہ رپورٹ سے اداروں کی نااہلی سامنے آئی ہے لیکن یہ ادارے 20 ماہ میں خراب نہیں ہوئے، سابق حکمرانوں کے کاروباری مفادات تھے اور انہوں نے غلط لوگ ان اداروں میں لگائے اور منظم طریقے سے انہیں تباہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے اور اس سلسلے میں سید فخر امام کو ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ زرعی شعبہ کی پیداوار بڑھانے کے لئے اقدامات تجویز کریں۔