نئی امریکی بندشیں سابق پابندیوں کے غیر مؤثر ہونے کا ثبوت ہیں، ایران

امریکہ کی ایرانی حکام پر بار بار اور لاحاصل پابندیاں امریکی انتظامیہ کی کمزوری، مایوسی اور لاحاصل پابندیوں کی نشانی ہیں، ترجمان وزارت خارجہ

جمعرات 21 مئی 2020 21:37

نئی امریکی بندشیں سابق پابندیوں کے غیر مؤثر ہونے کا ثبوت ہیں، ایران
تہران (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 مئی2020ء) ایران نے امریکا کی جانب سے اپنے آفیشلز پر لگائی گئی پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پابندیاں امریکا کی سابق پابندیوں کے غیرمؤثر ہونے کا ثبوت ہیں۔ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے کہا کہ امریکا کی ایرانی حکام پر بار بار اور لاحاصل پابندیاں امریکی انتظامیہ کی کمزوری، مایوسی اور لاحاصل پابندیوں کی نشانی ہیں۔

یاد رہے کہ امریکا نے ایرانی وزیر داخلہ سمیت 7 اہم آفیشلز پر پابندیاں عائد کردی تھیں جہاں ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کی۔امریکی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ایرانی وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فضلی نے نومبر میں حکومت مخالف احتجاج میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو طاقت کے بھرپور استعمال کا حکم دیا جس سے 23 بچوں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے ایندھن کی قیمت میں اضافے کے خلاف ہزاروں افراد نے گزشتہ سال 15نومبر کو ایران کی سڑکوں پر احتجاج کیا تھا۔یہ احتجاج بعدازاں سیاسی شکل اختیار کر گیا تھا اور مظاہرین نے سینئر ایرانی قائدین اور علما کے پوسٹر جلاتے ہوئے ان سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس مظاہرے کو ایران کے دشمنوں کی بڑی سازش قرار دیا تھا۔

جنوری میں اپوزیشن جماعت کی ایک ویب سائٹ کی جانب سے جاری اعدادو شمار میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مذکورہ مظاہروں میں طاقت کے استعمال کے نتیجے میں کم از کم 631 افراد ہلاک ہو گئے تھے البتہ ایمنسٹی کے مطابق مظاہرین پر تشدد میں مرنے والوں کی تعداد تقریباً 300 تھی۔ایران نے ان دونوں اعدادوشمار کو مسترد کردیا تھا اور عدلیہ نے مظاہرے میں شریک متعدد افراد کو طویل عرصے کے لیے جیل کی سزا سنا دی تھی۔

اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کی جانب سے ایران سے پابندیاں ہٹانے کے مطالبات کے باوجود امریکا نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کردی ہیں۔امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا تھا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے تجارتی اور معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں۔البتہ معاہدے کے دیگر عالمی فریقین برطانیہ، جرمنی، فرانس، روس اور چین نے ایران سے معاہدہ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

گزشتہ سال 21 ستمبر کو امریکا نے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملوں کی ذمہ داری براہ راست ایران پر عائد کرتے ہوئے ایران کے مرکزی بینک، نیشنل ڈیولپمنٹ فنڈ اور مالیاتی کمپنی اعتماد تجارت پارس پر پابندی لگانے کا اعلان کردیا تھا تاہم دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی تھی جب امریکی ڈرون حملے میں ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد تہران نے امریکا کو سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔ایران نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں عراق میں امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے 2 فوجی اڈوں پر 15 بیلسٹک میزائل داغے جسے متعدد فوجی زخمی ہو گئے تھے۔