جمال خاشقجی کے بیٹوں نے اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کر دیا

ہم، شہید جمال خاشقجی کے بیٹے، اپنے باپ کے قاتلوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں۔ مقتول صحافی کے بیٹے صلاح خاشقجی کا ٹوئیٹ

Kamran Haider Ashar کامران حیدر اشعر جمعہ 22 مئی 2020 07:23

جمال خاشقجی کے بیٹوں نے اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کر دیا
الریاض (اردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 22 مئی 2020ء) جمال خاشقجی کے بیٹوں نے اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کر دیا۔ یہ اعلان مقتول جمال خاشقجی کے بیٹے نے ٹوئیٹر پر جاری ایک پیغام میں کیا۔ تفصیلات کے مطابق امریکی اخبار کے لیے کام کرے والے معروف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بیٹوں نے اپنے والد کے قاتلوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے۔ مقتول صحافی کے بیٹے کا اپنے ٹوئیٹر پیغام میں کہنا ہے کہ "ہم، شہید جمال خاشقجی کے بیٹے، اپنے باپ کے قاتلوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں۔

" یاد رہے کہ امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز کے لیے کام کرنے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی سعودی عرب کی پالیسیوں پر شدید تنقید کرنے کی وجہ سے جانے جاتے تھے جنہیں 2 اکتوبر 2018ء کو استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل کر دیا گیا تھا جس کا سعودی حکام کی جانب سے اعتراف بھی کر لیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

 

خبر ایجنسی کے مطابق مقتول صحافی کے بیٹے صلاح خاشقجی کی جانب سے قانونی طور پر کوئی ایسی دستاویز نہیں دکھائی گئی جس میں انہوں نے اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کر دیا ہو، تاہم انہوں نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے جاری ایک پیغام میں کہا ہے کہ انہوں نے اپنے شہید باپ کے قاتلوں کو معاف کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ رواں سال مارچ کے مہنے میں ترکی نے مقتول صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں 20 سعودی شہریوں پر فردِ جرم عائد کر دی تھی۔ جن افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی ان میں شہزادہ محمد بن سلمان کے 2 قریبی ساتھی بھی شامل تھے جبکہ ان تمام افراد کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے گئے تھے، لیکن چونکہ کوئی بھی شخص ترکی میں موجود نہ تھا اس لیے کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

 
جن سعودی شہریوں پر فردِ جرم عائد کی گئی ان میں سعودی شاہی عدالت کے سابق مشیر سعود القحطانی اور سابق ڈپٹی ہیڈ انٹلیجنس احمد العسیری بھی شامل تھے، ان افراد پر مقتول کو اذیت پہنچانے اور دوسروں کو قتل کے لیے اکسانے کا الزام تھا۔ علاوہ ازیں جمال خاشقجی قتل کیس میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر بھی اُنگلیاں اُٹھتی رہی ہیں۔

یہاں تک کہ امریکی خفیہ اداروں نے یہ تک دعویٰ کیا تھا کہ شہزادہ محمد بن سلمان کے مبینہ حکم پر ہی سعودی صحافی جمال خاشقجی کو قتل کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی امریکہ میں مقیم ہو چکے تھے اور اپنی تحریروں میں سعودی قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ جمال خاشقجی ترکی میں سیر و سیاحت کی غرض سے آئے تھے۔ 
وہاں پر انہوں نے اپنے کسی ذاتی کام کے سلسلے میں وہاں پر واقع سعودی سفارت خانے کا رُخ کیا جس کے بعد اُن کی گمشدگی کی اطلاعات سامنے آئیں۔

اس کے بعد ہونے والی تحقیقات میں پتا چلا کہ سفارت خانے میں موجود مختلف سعودی سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے اُنہیں بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد اُن کی موت واقع ہو گئی تھی۔ اس حوالے سے سعودی عدالت نے پانچ افراد کو جمال خاشقجی کے قتل کا براہِ راست ذمہ دار بھی ٹھہریا اور اُنہیں سزائے موت سُنا دی جبکہ 3 افراد کو اعانتِ جُرم اور جُرم سے متعلق حقائق چھُپانے کے جُرم میں 24، 24 سال قید کی سزا سُنائی گئی تھی اور تین افراد کو جُرم میں ملوث نہ پائے جانے پر بری کر دیا گیا تھا۔