کورونا کے باعث دُبئی کی ہوٹل انڈسٹری بُرے حالوں کو پہنچ گئی

30 فیصد ہوٹل ملازمین کی نوکریاں مستقل طور پر ختم ہونے کاخدشہ پیدا ہو گیا

Muhammad Irfan محمد عرفان جمعہ 22 مئی 2020 13:51

کورونا کے باعث دُبئی کی ہوٹل انڈسٹری بُرے حالوں کو پہنچ گئی
دُبئی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 22مئی 2020ء) کورونا کی وبا کے باعث لاک ڈاؤن نے امارات کی معاشی سرگرمیاں تباہ کر دی ہیں جس کی زد میں دُبئی کے ہزاروں ہوٹلز بھی آئے ہیں۔ ان ہوٹلز کی کمائی کا بڑا دارومدار سیاحت پر ہوتا ہے، جو کہ فضائی سفر پر پابندیوں کی وجہ سے بالکل ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے۔ اس معاشی بحران کی وجہ سے دُبئی کے ہزاروں ہوٹل ملازمین کی نوکریاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔

امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر سیاحتی اور کاروباری سرگرمیاں شروع نہ ہوئیں تو دُبئی کے ایک تہائی ملازمین مستقبل قریب میں نوکریوں سے فارغ ہو جائیں گے۔ ہوٹلز کی آمدنی نہ ہونے کے باعث انتظامیہ کی جانب سے ہزاروں ملازمین کو پہلے ہی بغیر تنخواہ چھُٹیاں دے دی گئی ہیں، اگر صورت حال میں سُدھار نہ آیا تو ان ملازمین کو مستقل طور پر فارغ کیا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

ایس ٹی آر گلوبل کے مشرق وسطی اور افریقہ کے ڈائریکٹر ، فلپ وولر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ تقریبا 43 ہزارہوٹل کے کمرے ، جو کل گنتی کا تقریبا ً ایک تہائی حصہ ہے، شاید ستمبر تک بند رہیں گے۔اس صنعت میں تقریبا چالیس ہزار فراد کام کرتے ہیں۔کوئی بھی مالک اپنے ملازمین کو بغیر منافع کمائے تنخواہیں ادا نہیں کر سکتا۔ دُبئی کے ہوٹلز میں ایک لاکھ بیس ہزار کمرے ہیں اور ایک ایسی منڈی جہاں مارکیٹ کئی سالوں سے دنیا کے اعلی مقام پر ہے۔

دوسری جانب کرونا وبائی مرض کی وجہ سے دبئی 2020 کی بین الاقوامی نمائش ایک سال ملتوی کردی گئی۔دبئی میں اپریل کے آغاز سے تقریبا لوگوں کی آمد 23 فیصد تھی،جو کہ اب بالکل ختم ہو چکی ہے۔ابوظبی میں حکومت نے ہوٹلز کے پچاس فیصد کمرے طبی عملے اور قرنطینہ کیلئے لیز پر لئے جس کی وجہ سے ہوٹلز مکمل نقصان سے بچ گئے ہیں۔واضح رہے کہ خلیج ٹائمز کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دبئی سینکڑوں ریسٹورنٹس مالکان نے صورتِ حال سے مایوس ہو کر اپنے ریسٹورنٹس کو فروخت کرنے کے سائن بورڈ لگا دیئے ہیں، کیونکہ ان کا اندازہ ہے کہ کورونا کی وبا کے باعث اگلے چند مہینوں میں بھی ریستوران کا کاروبار بُری طرح متاثر ہو گا۔

مالکان کی جانب سے ریسٹورنٹس کا لائسنس بھی فروخت کیا جا رہا ہے، یہاں تک کہ ساز و سامان اور فرنیچر بھی انتہائی کم داموں پر فروخت کرنے کی پیش کش کی جا رہی ہے تاکہ پریشان حال مالکان کو تھوڑی بہت رقم ہی حاصل ہو جائے۔ ریسٹورنٹ کے کاروبار سے جُڑے ایک شخص نے بتایا کہ زیادہ تر ریسٹورنٹس کرائے کی جگہ پر بنائے گئے ہیں، جن کے مالکان ریسٹورنٹس والوں کوبدترین معاشی صورت حال میں بھی کرایہ معاف کرنے کو تیار نہیں، حتیٰ کہ وہ پُورا پورا کرایہ لینے پر تُلے ہوئے ہیں، جب کہ ریسٹورنٹس کئی ہفتوں سے بند ہونے کے باعث مالی خسارے کا شکار ہیں۔

صرف وہ ریسٹورنٹس جو حکومت کی پراپرٹی پر قائم ہیں، انہیں تین ماہ کے لیے کرایہ معاف کیا گیا ہے یا کرائے میں چھُوٹ دی جا رہی ہے۔ تاہم نجی شعبے کی زمینوں پر بنے ریسٹورنٹس کے زیادہ تر مالکان کرائے میں کوئی رعایت برتنے کو تیار نہیں ہیں۔ جس کے باعث فوڈ اینڈ بیوریج انڈسٹری تباہی کی جانب جا رہی ہے۔ دُبئی میں فوڈ اور بیوریج کے 11 ہزار رجسٹرڈ آؤٹ لیٹس ہیں،موجودہ صورت حال میں یہی لگتا ہے کہ اگلے چند ماہ میں 40 سے 50 فیصد آؤٹ لیٹس ختم ہو سکتے ہیں۔

اس وقت بھی سینکڑوں ریسٹورنٹس مالکان نے اپنا کاروبار بالکل ختم کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ دوبارہ کاروبار چلانے کے لیے ان کے پاس کوئی رقم نہیں بچی۔ اس لیے انہوں نے کاروبار ختم کر دیا ہے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد متحدہ عرب امارات میں صرف 30 فیصد ریسٹورنٹس دوبارہ کھُلے ہیں، ان میں سے بھی زیادہ تر مالز میں واقع ہیں۔ مگر ان ریسٹورنٹس پر بھی پابندی لگائی گئی ہے کہ وہ ایک وقت میں اپنے احاطے میں کُل گنجائش کی بجائے صرف 30 فیصد گاہکوں کو اندر داخل ہونے کی اجازت دیں گے۔ریسٹورنٹ مالکان کے مطابق سماجی دُوری کے ضوابط کم گاہکوں کو ریسٹورنٹ میں داخل کرنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں، جتنا بڑا مسئلہ جگہ کے مالکان کی جانب سے بھاری کرائے کا مطالبہ ہے۔