حیدرآباد: محکمہ خوراک سندھ کی نا اہلیت،افسران کے تاخیری حربے مبینہ کرپشن کا بازار گرم

#4 سے 5 لاکھ بوری گندم اسٹاک کی گنجائش رکھنے والا حیدرآباد کا سب سے بڑا حالی روڈ فوڈ گرین گودام میں اب تک 35 سے 37 ہزار بوری گندم کا اسٹاک ممکن ہوسکا

ہفتہ 23 مئی 2020 22:52

ِحیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 مئی2020ء) محکمہ خوراک سندھ کی نا اہلیت۔افسران کے تاخیری حربے مبینہ کرپشن کا بازار گرم4 سے 5 لاکھ بوری گندم اسٹاک کی گنجائش رکھنے والا حیدرآباد کا سب سے بڑا حالی روڈ فوڈ گرین گودام میں اب تک 35 سے 37 ہزار بوری گندم کا اسٹاک ممکن ہوسکا ۔ ذرائع کے مطابق محکمہ۔خوراک سندھ کی جانب سے آبادگاروں سے گندم کی خریداری میں تاخیر کا ذخیرہ اندوزوں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے پیمانے پر خریداری کرکے گندم خفیہ مقامات پر چھپا دی ہے۔

تاہم۔سندھ کے مختلف اضلاع میں رینجرز اور ضلعی افسران کی مشترکہ اور کامیاب کاروائیوں میں غیر قانونی طور پر چھپا ء گء گندم کی لاکھوں بوریاں بازیاب کرائی گئی ہیں اور چھاپہ مار کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

(جاری ہے)

تاہم ذرائع کے مطابق ذخیرہ اندوزوں کی جانب سے چھپائی گئی گندم کی لاکھوں بوریوں کو بازیاب کراکر فوری طور پر سرکاری گوداموں میں منتقل کرنے میں محکمہ۔

خوراک سندھ کے کرپٹ اور راشی افسران مسلسل تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں اور بعد ازاں ذخیرہ اندوزوں سے مبینہ بھاری رشوت لیکر انہیں ریلیف دئیے جانے کی خبریں گردش کررہی ہیں۔جس کی ایک مثال گزشتہ دنوں ڈی ایف سی حیدرآباد رفیق شاہانی کی ایک نجی ٹی۔وی پر وائرل ہونے والی وڈیو ہے جس میں موصوف حیدرآباد کے ایک رولر فلور مل پر اسٹاک کی گئی 15 ہزار گندم کی بوریاں چھوڑنے پر مبینہ طور پر 3 لاکھ رشوت طلب کر رہے ہیں۔

وڈیو وائرل ہونے کے بعد محکمہ خوراک سندھ کے افسران نے اپنی خفعت مٹاتے ہوئے ڈی۔ایف۔سی حیدرآباد رفیق شاہانی کو ان کے عہدہ سے ہٹاکر ان کے خلاف محکمہ اینٹی کرپشن کو تحقیقات کرنے کا لیٹر لکھ دیا۔جس پر انکوائری جاری ہے۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ محکمہ خوراک سندھ کے افسران اپنی نااہلیت چھپانے اور گندم خریداری کا ہدف ہورا کرنے میں ناکامی سے بچنے کے لئیے گندم کے غیر ہیداواری ضلع حیدرآباد کے داخلی راستوں ہر گندم کی گاڑیاں روک کر انہیں زبردستی سرکاری گوداموں میں اتار رہے ہیں جس کی وجہ سے حیدرآباد اور کراچی کی اوپن مارکیٹ میں گندم کے نرخوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

اور اس صورتحال کے پیش نظر عوام مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ذرائع کے مطابق محکمہ خوراک سندھ کے افسران کی ناقص پالیسی اور گندم خریداری کے بعد ذخیرہ اندوزوں سے بازیاب کرائی جانے والی تمام کی تمام گندم کو سرکاری گوداموں میں منتقل کرنے میں دانستہ طور پر تاخیری حربے استعمال کرنے سے مستقبل میں ایک مرتبہ پھر گندم بحران سر اٹھا نے کے چانس بڑھتے جارہے ہیں ۔

ذرائع کے مطابق حیدرآباد کے سب سے بڑے سرکاری فوڈ گرین گودام حالی روڈ جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق 4 سے 5 لاکھ گندم کی بوریاں اسٹاک کرنے کی گنجائش موجود ہونے کے باوجود اطلاعات کے مطابق اب تک محض 35 سے 37 ہزار گندم کی بوریاں ہی اسٹاک کی جاسکیں ہیں۔اس صورتحال پر حیدرآباد کے عوامی حلقوں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔عوامی حلقوں نے ذخیرہ اندوزوں سے بازیاب کرائی گئی تمام کی تمام گندم فوری طور پر سرکاری گوداموں میں منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔