کورونا وائرس کی وباء کے تدارک کیلئے لاک ڈاؤن وباء سے زیادہ جانی نقصان کا باعث بن سکتاہے‘ لوگوں کوگھروں میں محدودرکھنے کا فیصلہ بہترین سائنسی بنیادوں کی بجائے افراتفری میں کیا گیا‘ لاک ڈاون کی وجہ سے کورونا کے مقابلے میں اموات کی شرح 10 سے 12 گنا زیادہ ہوسکتی ہے

سٹینفورڈ یونیورسٹی کے نوبل انعام یافتہ پروفیسرمائیکل لیوٹ کی برطانوی اخبارڈیلی میل میں رپورٹ

منگل 26 مئی 2020 13:40

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 مئی2020ء) سٹینفورڈ یونیورسٹی کے نوبل انعام یافتہ پروفیسرمائیکل لیوٹ نے کہاہے کہ کورونا وائرس کی وباء کے تدارک کیلئے لاک ڈاؤن وباء سے زیادہ جانی نقصان کا باعث بن سکتاہے۔یہ بات انہوں نے برطانوی اخبارڈیلی میل میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہی ہے ،نوبل انعام یافتہ سائنسدان جنہوں نے عالمگیروباء سے ابتدائی نقصان کا درست اندازہ لگایاتھا، نے کہاہے کہ لوگوں کوگھروں میں محدودرکھنے کا فیصلہ بہترین سائنسی بنیادوں کی بجائے افراتفری میں کیاگیاہے۔

انہوں نے کہاکہ لاک ڈاون کی وجہ سے کورونا کے مقابلے میں اموات کی شرح 10 سے 12 گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں ڈنمارک اورجرمنی کا حوالہ دیا ہے، ڈنمارک میں سکول اورشاپنگ مالز کھولنے کے بعد نقصان کی شرح میں کمی ہوئی جبکہ جرمنی میں لاک ڈاون کے باوجود یہ شرح برقراررہی ہے۔

(جاری ہے)

پروفیسرلیوٹ نے ٹیلی گراف کوبتایا کہ ان کے خیال میں لاک ڈاؤن سے کوئی زندگی نہیں بچی ہے، میرے خیال سے اس سے زیادہ جانیں ضائع ہوگئی۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ لاک ڈاون نے سڑکوں کے حادثات میں ہونے والے نقصان سے بچایا ہے تاہم اس کے سماجی نقصانات جیسے گھریلوں تشدد، طلاق، کثرت شراب نوشی اوردیگر منٖفی اثرات بہت زیادہ ہے، اس کے علاوہ وہ لوگ جو دیگربیماریوں میں مبتلاء تھے اور لاک ڈاون کے دوران ان کاعلاج نہ ہوسکا، وہ نقصان بہت زیادہ تھا۔ انہوں نے کہاکہ وہ سمجھتے ہیں کہ لیڈرز اورلوگ گھبراہٹ اورافراتفری کا شکارہوئے، اس معاملہ میں مباحثہ کا بہت زیادہ فقدان رہاہے۔انہوں نے کہاکہ دوماہ تک کورونا وائرس کے بارے میں ماہرین کی پیشن گوئیاں غلط ثابت ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ لاک ڈاون کی بجائے لوگوں کو کام جاری رکھتے ہوئے ماسک پہننے ، دیگرحفاظتی تدابیراختیارکرنے اورسماجی دوری کی ترغیب دینا چاہئیے۔