مشیر اطلاعات اجمل خان وزیر کا وزیر اعلی خیبر پختونخوا ہ محمود خان کی خصوصی ہدایت پر عید کے تیسرے دن حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کا خصوصی دورہ

کورونا وباء سے فرنٹ لائن پر لڑنے والے طبی عملے سے ملاقات،مشیر اطلاعات نے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے میڈیکل ڈائریکٹر و انچارج ڈاکٹر شہزاد اور دیگر میڈیکل سٹاف سے خصوصی ملاقات کرتے ہوئے کورونا وباء کے حوالے سے تازہ ترین صورتحال بارے دریافت کیا

منگل 26 مئی 2020 20:55

&پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 مئی2020ء) مشیر اطلاعات اجمل خان وزیر نے وزیر اعلی خیبر پختونخوا ہ محمود خان کی خصوصی ہدایت پر عید کے تیسرے دن حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کا خصوصی دورہ کیا ہے جبکہ کورونا وباء سے فرنٹ لائن پر لڑنے والے طبی عملے سے ملاقات کی ہے۔مشیر اطلاعات نے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے میڈیکل ڈائریکٹر و انچارج ڈاکٹر شہزاد اور دیگر میڈیکل سٹاف سے خصوصی ملاقات کرتے ہوئے کورونا وباء کے حوالے سے تازہ ترین صورتحال بارے دریافت کیا ۔

انہوں نے کہا کہ دورے کا مقصد حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے طبی عملے کی حوصلہ افزائی اور کاوشوں کو سراہنا ہے ۔ صوبے اور خصوصا حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ کرونا بیماری کے خلاف فرنٹ لائن پر جو جنگ لڑ رہی ہے وہ قابل ستائش ہے اجمل خان وزیر نے دورہ کے موقع پر مختلف وارڈز کا معائنہ کیا اور تما م طبی عملہ سے ملاقات کی ۔

(جاری ہے)

بعد ازاں انہوں نے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلی کی خصوصی ہدایت پر حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کی طبی عملے اور خصوصا پروفیسر ڈاکٹر جاوید جو کہ کرونا بیماری سے لڑتے لڑتے شہید ہوئے ہے سے اظہار یکجہتی کے لیے یہاں آیا ہوں انہوں نے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ دیگر صوبوں کے نسبت خیبر پختونخواہ کا ہیلتھ کیئر سسٹم کم وسائل کے باوجود جس طریقے سے اس وقت کرونا بیماری کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔

انہوں نے کہا کہ پورے صوبے میں پلازما سے علاج کا اقدام کا کریڈٹ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کو جاتا ہے جبکہ سب سے پہلے پلازما ڈونیٹ کرنے والے ڈاکٹرز بھی اسی ہسپتال کے ہے اس کے ساتھ ساتھ ہمارے صحافی بھائیوں نے بھی اسی ہسپتال میںکرونا سے متاثرہ مریضوں کیلئے پلازما عطیہ کیا ہے جس پر میں ڈاکٹرز اور صحافی بھائیوں کے اس جذبے کو تہہ دل سے سلام پیش کرتا ہوں ۔

انہوں نے پوری قوم اور خصوصا صوبے کے عوام اور وہ لوگ جو کرونا بیماری سے صحت یاب ہوئے ہے سے اپیل کی ہے کہ وہ بھی ڈاکٹرز اور صحافیوں کے جذبے کو اپناتے ہوئے کرونا کے مریضوں کی صحت یابی کے لیے آگے بڑھ کر اپنا پلازما عطیہ کرے تا کہ ہسپتالوں میں اس بیماری میں مبتلا مریضوں کی تعداد کو جلد از جلد کم کیا جاسکے ۔ اجمل خان وزیر نے کہا کہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں پلازما ٹرانسفیوژن کا پورا اور مکمل نظام انسٹال ہو چکا ہے انہوں نے کہا کہ قبائلی ضلع خیبر اور افغانستان سمیت پورے صوبے سے مریض پشاور کے ہسپتالوں میں زیر علاج ہے جبکہ ڈاکٹرز ، پیرامیڈیکس اور دیگر طبی عملہ اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مریضوں کا علاج معالجہ کررہے ہیں اور کرونا کے خلاف جنگ لڑنے میں مصروف عمل ہیں اس موقع پر انہوں نے پوری قوم اور خصوصی طور پر صوبے کی عوام سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ سماجی دوری اختیار کرے اورصوبائی حکومت کی وضع کردہ احتیاطی تدابیر پر من و عن عمل کرے ۔

انہوں نے انتباہ کیا ہے کہ اگر عوام نے سماجی دوری اور احتیاطی تدابیر نہ اپنائی تو مریضوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے اور اگر خدا نخواستہ تعداد بڑھ گئی تو ہسپتالوں اور طبی عملے پرمریضوں کا بوجھ بڑھ جائے گا جو کہ مشکل صورتحال کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی کی ہدایات کی روشنی میں صوبائی حکومت نے عید سادگی سے منانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس عید کو کراچی میں طیارہ حادثہ کے شہداء ، شہیدپروفیسر ڈاکٹر جاوید اور دیگر کرونا وباء کے شہداء کے نام کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کرونا کی بیماری کو شکست دینے کے لیے عوام سماجی دوری اور دیگر احتیاطی تدابیر پر عمل کرے اگر خدانخواستہ مریضوں کی تعداد بڑھتی ہے تو حکومت نے جو نرمیاں دی ہے اس پر دوبارہ سوچنا پڑے گا ۔ انہوں نے ڈاکٹرز و دیگر طبی عملے، ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹیریشن ، پولیس ، افواج پاکستان اور دیگر فرنٹ لائن پر لڑنے والے اہلکاروں کو بھی سلام پیش کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بحیثیت قوم ہم نے جس طرح زلزلوں سیلاب اور دہشت گردی کا مقابلہ کیا اسی طرح اللہ کے فضل سے کرونا بیماری کا بھی مقابلہ سماجی دوری اور دیگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ کرینگے۔ اس موقع پر مشیر اطلاعات نے 92 نیوز کے سینئر صحافی فخرالدین کے صحت کے حوالے سے بھی دریافت کیا واضح رہے کہ سینئر صحافی فخر الدین اس وقت حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کرونا کی بیماری میں مبتلا ہے جس کو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں پلازما ٹرانسفیوژن ہو چکا ہے ۔