پی آئی اے طیارہ حادثہ کے غیر جانبدار اور شفاف نتائج کے حصول کے لئے تحقیقاتی عمل میں پی آئی اے ، سول ایوی ایشن اور کسی بھی فریق ادارے یا فرد کو شامل نہیں کیا جائے گا، عوام خود ساختہ ماہرین کی رائے اور محدود معلومات کی بنیاد پر حادثے کی وجہ کا تعین کرنے اور اضطراب پھیلانے سے گریز کریں، حادثے پر سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے بیان بازی سے گریز کیا جائے، وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان کا بیان

منگل 26 مئی 2020 22:00

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 مئی2020ء) وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے کہا ہے کہ کراچی میں پی آئی اے طیارہ حادثہ کے غیر جانبدار اور شفاف نتائج کے حصول کے لئے تحقیقاتی عمل میں پی آئی اے ، سول ایوی ایشن اور کسی بھی فریق ادارے یا فرد کو شامل نہیں کیا جائے گا، عوام خود ساختہ ماہرین کی رائے اور محدود معلومات کی بنیاد پر حادثے کی وجہ کا تعین کرنے اور اضطراب پھیلانے سے گریز کریں، پی آئی اے، سول ایوی ایشن اور دیگر متعلقہ اداروں کا نتحقیقاتی عمل میں قطعاً کوئی کردار نہیں ہوگا، حادثے پر سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے بیان بازی سے گریز کیا جائے، متعلقہ اداروں کو چوبیس گھنٹوں کے اندر تمام شہیدوں کے جسد خاکی تلاش کرنے کیلئے خاص ہدایات جاری کی تھیں، اس اہم ہدف کو پی آئی اے سکاؤٹس، رضاکاران، فوج ، پاک فضائیہ، پولیس، رینجرز کے جوانوں اور علاقہ مکینوں کی مدد سے اسی رات 12 بجے تک مکمل کیاگیا ۔

(جاری ہے)

منگل کویہاں جاری بیان میں وفاقی وزیرنے کہا کہ ان کی ہدایت کے مطابق تحقیقات کے جلد از جلد آغاز کیلئے طیارے کا بلیک باکس 24 گھنٹے کے اندر تلاش کر کے تحقیقاتی ٹیم کے حوالے کر دیا گیا جبکہ کاک پٹ وائس ریکارڈر کی تلاش ابھی بھی جاری ہے اور جیسے ہی ملے گا اس کو بھی تحقیقاتی ٹیم کے حوالے کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ جلد از جلد میتیوں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔

طیارہ حادثے میں کل 97 قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا جن میں سے 41 میتیں شناخت کے بعد ورثا کے حوالے کر دی گئی ہیں، 56 میتوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کا عمل جاری ہے جس کے لئے میڈیکل ریکارڈ اور لواحقین کے نمونے حاصل کر کے شناخت کا عمل مکمل کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پی آئی اے تمام میتیوں کو ان کے گھروں تک پہنچانے کی ذمہ داری نبھا رہی ہے اور اس سلسلے میں لواحقین کو 10 لاکھ روپے تدفین کی مد میں پی آئی اے کے افسران گھروں میں جا کر ادا کر رہے ہیں۔

غلام سرور خان نے کہا کہ حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زمین پر بے گھر ہونے والے افراد کو پی آئی اے کے ایئر پورٹ ہوٹل اور قصر ناز میں منتقل کیا گیا ہے۔ 36 لواحقین اور چار خاندان پی آئی اے کے ہوٹل میں مقیم ہیں جبکہ 7 خاندان قصرِ ناز میں مقیم ہیں۔ میری ہدایت پر لواحقین کو جائے حادثہ پر لانے اور جنازے میں شرکت کے لئے پی آئی اے نے اندرون ملک اور بیرون ملک سے ٹکٹ جاری کئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سی ای اوپی آئی اے ایئر مارشل ارشد ملک ذاتی طور پر زخمیوں کی عیادت کر کے ان کی دیکھ بھال کو یقینی بنا رہے ہیں۔ طیارہ گرنے کے بعد زمین پر متاثر ہونے والی تینوں خواتین کے لئے وزیر اعظم کی ہدایات پر حکومت نے ہر زخمی کے لئے 5 لاکھ کی امداد اور ان کے علاج معالجے کا خرچہ کسی بھی ہسپتال میں اٹھانے کی پیشکش بھی کی ہے۔ وفاقی وزیرنے کہاکہ حادثہ میں تباہ ہونے والے مکانات اور املاک کا سروے شروع کر دیا گیا ہے سروے مکمل ہونے کے بعد حکومت امدادی پیکج کا اعلان کرے گی۔

پی آئی اے کا ایمرجنسی ریسپانس سینٹر فعال اور متاثرہ خاندانوں کی معاونت اور دیکھ بھال میں مشغول ہے، سینٹر اس وقت تک کام کرتا رہے گا جب تک آخری میت لواحقین کے حوالے نہیں کر دی جاتی۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے تحقیقاتی ٹیم کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اپنی رپورٹ تین ماہ کے اندر حکومت کو جمع کرائیں۔ اس سلسلے میں ان کی معاونت کے لئے ایئر بس کی ٹیم سے رہنمائی بھی حاصل کر لی گئی ہے جنہوں نے جائے حادثہ پر اپنا کام شروع کر دیا ہے۔

غیر جانبدار اور شفاف نتائج کے حصول کے لئے تحقیقاتی عمل کے دوران پی آئی اے ، سول ایوی ایشن اور کسی بھی فریق ادارے یا فرد کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر ہوابازی نے عوام سے گزارش کی ہے کہ وہ خود ساختہ ماہرین کی رائے اور محدود معلومات کی بنیاد پر حادثے کی وجہ کا تعین کرنے اور اضطراب پھیلانے سے گریز کریں۔ تحقیقات ایک تکنیکی اور پیچیدہ نوعیت کاعمل ہے جس کا دارومدار بہت سارے عوامل اور عناصر پر ہوتا ہے۔

کسی تصویر ، ویڈیو یا وائس ریکارڈنگ کی بنیاد پر حادثے کی اصل وجہ کا تعین کرنا نا ممکن ہوتا ہے اس ضمن میں مستند ماہرین اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وفاقی وزیر ہوا بازی نے پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ پائلٹس ، انجینئرز اور شعبہ ہوا بازی سے منسلک تمام متعلقہ افراد کی پیشہ ورانہ تربیت، ترقی اور ان کی قابلیت کے معیار کے نظام کا ازسر نو جائز ہ لے اور اس میں اصلاحات کے عمل کو تیز کرے اور اپنی سفارشات حکومت کو پیش کرے۔

غلام سرورخان نے ایک سیاسی جماعت کی جانب سے جاری کردہ بیان پر کہاہے کہ بنا کسی مستند معلومات کے ایک انتہائی تکنیکی معاملہ پر متنازعہ اور غیر مستند نتائج اخذ کرنا انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور غیر اخلاقی رویہ کا مظہر ہے۔ تحقیقاتی عمل کی شفا فیت کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ٹیم مکمل طور پر خود مختار ہو اور کوئی بھی متعلقہ فرد یا ادارہ اس کا ممبر نہ ہونتا کہ اس عمل میں کسی قسم کی اثر اندازی نہ ہوسکے اور نہ ہی اس حادثے پر سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے بیان بازی کی جائے۔

یہ ایک حساس نوعیت کا معاملہ ہے جس کی وجوہات کا تعین صرف اور صرف تحقیقات کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پی آئی اے، سول ایوایشن اور دیگر متعلقہ اداروں کا اسنتحقیقاتی عمل میں قطعاً کوئی کردار نہیں ہوگا۔