100روز میں 8لاکھ افراد کا قتل‘روانڈا نسل کشی کا مرکزی ملزم 26برس بعد گرفتار

1994 میں 100 روز تک جاری رہنے والے نسل کش فسادات میں ہوتو قبیلے کے شدت پسندوں نے تتسی قبیلے کی8 لاکھ افراد کو قتل کر دیا تھا

بدھ 27 مئی 2020 12:18

100روز میں 8لاکھ افراد کا قتل‘روانڈا نسل کشی کا مرکزی ملزم 26برس بعد گرفتار
پیرس(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 مئی2020ء) روانڈا میں نسل کشی کے الزام میں سب سے زیادہ مطلوب ملزم فلیسین کابوگا کو26برس بعد فرانس میں گرفتارکرلیا گیا‘فرانس کے حکام نے اس اپارٹمنٹ کا پتہ چلایا جہاں پر وہ رہائش پذیر تھے اور انھیں ایک صبح پانچ بجے ایک آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا۔ گرفتاری کے بعد فلیسین کابوگا نے بتایا تھا کہ وہ اپنے بچوں کی معاونت سے اتنے عرصے تک قانون کی گرفت میں آنے سے بچے رہے تھے۔

فلیسین کابوگا کے پاس ایک افریقی ملک کا پاسپورٹ تھا۔ اس افریقی ملک کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔فرانس کی سپیشل پولیس کے سربراہ کرنل ایرک ایمروکس کے مطابق کورونا وائرس کی وبا نے فلیسین کابوگا کی گرفتاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔کینیا کی پولیس نے 19 جولائی 1997 میں جب روانڈا میں نسل کشی کے سات ملزمان کو گرفتار کیا، فلیسین کابوگا مبینہ طور پر ایک اعلیٰ پولیس اہلکار کی مدد سے پولیس کے چھاپے سے کچھ دیر پہلے ہی وہاں سے فرار ہو گئے تھے۔

(جاری ہے)

فلیسین کابوگا کے پانچ بچے ہیں جن میں سیدو بیٹیاں روانڈا کے اٴْس صدر کی بہویں تھیں جن کے طیارے کی تباہی کی وجہ سے روانڈا میں نسل کشی شروع ہوئی تھی۔ روانڈا میں سنہ 1994 میں 100 روز تک جاری رہنے والے نسل کٴْش فسادات میں ہوتو قبیلے کے شدت پسندوں نے تتسی قبیلے کے تقریباً آٹھ لاکھ افراد کو قتل کر دیا تھا۔ فلیسین کابوگا کا تعلق ہوتو قبیلے سے ہے اور انھوں نے چائے کے کاروبار سے دولت کمائی۔

ہوتو قبیلے سے تعلق رکھنے والی ملیشیا اقلیتی قبیلے تتسی سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ اپنے سیاسی مخالفوں کو قومیت کی تفریق کیے بغیر نشانہ بنا رہے تھے۔ امریکہ نے فلیسین کابوگا کی گرفتاری میں مدد دینے والے کے لیے پچاس لاکھ ڈالر کے انعام کا اعلان کر رکھا تھا۔مشرقی افریقہ کے ملک روانڈا میں نسل کشی میں ملوث ملیشیا کی مالی معاونت کے الزامات کا سامنا کرنے والے فلیسین کابوگا افریقہ اور یورپ میں اپنے مضبوط روابط کی وجہ سے 26 برس تک عالمی عدالت انصاف میں اپنے خلاف مقدمات کی کارروائی اور گرفتاری سے بچے رہے۔

84 سالہ کابوگا طویل عرصے تک ’انٹرنیشنل کریمنل ٹرائبیونل‘ کے ہاتھ نہ آئے اور اب جب بالآخر وہ رواں ماہ پیرس کے مضافات سے گرفتار ہوئے ہیں تو معلوم ہوا کہ ان کے خلاف مقدمات کی سماعت کرنے والا ٹرائبیونل ہی ختم ہو چکا ہے۔انٹرنیشنل کریمنل ٹرائبیونل نے کابوگا پر نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں فرد جرم عائد کر رکھی تھی۔

فرانس میں ان کی گرفتاری اقوام متحدہ کے جنگی جرائم کے پراسیکیوٹر سرگئی بریمرٹز کی کوششوں سے ممکن ہوئی جنھوں نے ان کے خلاف تحقیقات شروع کر رکھی تھیں۔ پراسیکیوٹر سرگئی بریمرٹز ایسے جنگی جرائم کے مقدمات کو دیکھتے ہیں جن کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہو پایا ہے۔کابوگا اب پیرس کی سنٹرل جیل لاسانتے میں قید ہیں اور اس وقت تک وہیں رہیں گے جب تک انھیں آئی آر ایم سی ٹی کے حوالے نہیں کر دیا جاتا۔

نسل کشی میں بچ جانے والوں کی ایسوسی ایشن’ ’روانڈا وڈوز‘‘ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ قانونی ضابطوں پر عمل درآمد سے انصاف کی فراہمی میں تعطل پیدا نہیں ہو گا۔کابوگا کی گرفتاری کے بعد رونڈا وڈوز کی لیڈر ولیری مکابائیر کا کہنا ہے کہ نسل کشی میں بچ جانے والا ہر شخص خوش ہے کہ کابوگا گرفتار ہوئے ہیں، ہر کوئی اس خبر کا منتظر تھا۔ یہ اچھی بات ہے کہ اب اسے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔کابوگا کے وکلا کا کہنا ہے کہ ان کے موکل چاہیں گے کہ اٴْن کے مقدمے کی سماعت فرانس میں ہی ہو۔پراسیکیوٹر بریمرٹز کا کہنا ہے کہ مسٹر کابوگا کو آئی آر ایم سی ٹی کے حوالے کرنے میں چند مہینے لگ سکتے ہیں اور ان کا ٹرائل شروع میں ایک سال سے زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔