لاک ڈاؤن سے صارفین کی عادات، ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے: میاں زاہد حسین

کاروباری برادری کو نئے رجحانات کے مطابق ایڈجسٹ کرنا ہو گا،سندھ سمیت پورے پاکستان میں صنعتوں اور تمام کاروباروں کو کھو لا جائے

Umer Jamshaid عمر جمشید بدھ 27 مئی 2020 16:22

لاک ڈاؤن سے صارفین کی عادات، ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے: میاں زاہد حسین
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 27 مئی2020ء) ایف پی سی سی آئی بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئرمین ،پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں پہلی بار لاک ڈاؤن کا تجربہ کیا گیا ہے جس کے بعد صارفین کی عادات اورترجیحات میں تبدیلی آئی ہے اور کاروباری برادری کو نئے رجحانات کے مطابق ایڈجسٹ کرنا ہو گا۔

میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں عوام تقریباً دو ماہ تک لاک ڈاؤن برداشت کر چکی ہے اور اس میں مزید توسیع کا امکان ہے تا ہم ضرورت اس چیز کی ہے کہ ایس او پیزکی پابندی کے ساتھ تمام ما رکیٹوں ، کاروباروں،دفتروں، بینکو ں اور چھوٹی بڑی صنعتوں کومکمل طور پر24گھنٹے اوقات کا ر کی بنیاد پرکھولا جائے تا کہ عوام کی معاشی مشکلات دور ہوں اور حکومت کو ریونیو کی کمی کا جو سامنا ہے اس کا تدارک ہو سکے۔

(جاری ہے)

پاکستانیوں کو بھوک سے مرنے یا بیماری سے مرنے کی بجائے ایک ذمہ دار قوم کی طرح ایس او پیزکی پابندی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران زیادہ ترکاروبار بند رہے جبکہ عوام کو زبردست مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس سے انھیں بچت کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے۔لاک ڈاؤن کے دوران زیادہ ترافراد نے صرف اہم ضروریات زندگی پر اخراجات کئے اور لاک ڈاؤن کے مستقل طور پر ختم ہونے کے بعد بھی عوام پہلی جیسی شاپنگ اور فضول خرچی نہیں کرے گی بلکہ برے وقت کے لئے بچت کو ترجیح دیگی جس سے بہت سے کاروبار متاثر ہونگے۔

انھوں نے کہا کہ سرمایہ کار جان لیں کہ اب اشیاء اور خدمات کی وہ مانگ نہیں رہے گی جو کبھی ہوا کرتی تھی کیونکہ مستقبل کے اندیشے عوام کو بچت کی جانب راغب رکھیں گے۔کارخانہ داروں کو ضروری ساز و سامان کے لئے ایک سے زیادہ ذرائع اختیار کرنا ہونگے اور کاروبار جاری رکھنے کے لئے آن لائن بزنس میں مہارت حاصل کرنا ہو گی۔پاکستان زیادہ تر اشیاء چین سے درآمد کرتا ہے جس میں زپ اور بٹن تک شامل ہیں جبکہ مقامی فارما سیکٹر مکمل طور پر بھارت پر انحصار کرتا ہے جس پر اب غور کرنا ہو گا جبکہ حکومت کو خام مال کی مقامی طور پر تیاری کو اپنی پالیسیوں میں ترجیح دینا ہو گی ۔

پاکستان کے بہت سے ایکسپورٹ آرڈر اس لئے کینسل ہو گئے کہ چین سے بروقت سامان نہیں پہنچا جس سے ملکی ساکھ اور آمدنی پر ضرب پڑی ہے۔لاک ڈاؤن سے درجنوں چھوٹے کاروبار، سیاحت، ہوٹل، ریسٹورنٹ، شادی ہال اور انٹرٹینمنٹ کا بزنس تباہ ہو کر رہ گیا ہے اور ان میں سے اکثریت دوبارہ اپنا کاروبار چلانے کے قابل نہیں رہی ہے جبکہ بڑا کاروبار کرنے والوں کو بھی مسائل کا سامنا کرنا ہو گا کیونکہ مغربی ممالک اندیشوں کے پیش نظربرآمدات کی جانچ پڑتال کے قوانین کو زیادہ سخت کر دینگے جس سے نمٹنا چیلنج ہو گا۔

آنے والے دنوں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی اہمیت تیزی سے بڑھے گی، ادائیگیوں کا نظام خود کار ہوتا جائے گا، صحت کے شعبہ کی اہمیت، مانیٹرنگ اور مانگ میں اضافہ ہو جائے گا اور جو کمپنیاں ٹیکنالوجی کے معاملے میں سستی کریں گی وہ اپنے پیر پر کلہاڑی ماریں گی۔