امریکی ریاست مینسوٹا میں سیاہ فام شہری کے قتل پر 4 پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی

پولیس افسر نے جارج فلائیڈ کے ہاتھ پیچھے کر کے ہتھ کھڑی لگا دی تھی اور اسے زمین پر منہ کے بل گرا کر اس کی گردن پر گھٹنا رکھ کر دباتا رہا تھا جس کے باعث اس کی موت ہو گئی

Kamran Haider Ashar کامران حیدر اشعر جمعرات 28 مئی 2020 04:55

امریکی ریاست مینسوٹا میں سیاہ فام شہری کے قتل پر 4 پولیس اہلکاروں کے ..
مینسوٹا (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 28 مئی 2020ء) امریکی ریاست مینسوٹا میں سیاہ فام شہری کے قتل پر 4 پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی۔ پولیس افسر نے جارج فلائیڈ کے ہاتھ پیچھے کر کے ہتھ کھڑی لگا دی تھی اور اسے زمین پر منہ کے بل گرا کر اس کی گردن پر گھٹنا رکھ کر دباتا رہا تھا جس کے باعث اس کی موت ہو گئی۔ تفصیلات کے مطابق امریکی شہر منیاپولس میں سوموار کے روز ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک سیاہ فام امریکی کی پولیس اہلکار کے ہاتھوں موت ہو گئی۔

جارج فلائیڈ نامی سیاہ فام شخص کی موت کے بعد 4 پولیس افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی ریاست منیسوٹا کے شہر منیاپولس میں ایک سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی موت پر 4 پولیس افسران کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

پولیس افسران کے خلاف کارروائی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد عمل میں لائی گئی جس میں ایک سفید فام پولیس اہل کار کو جارج فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا دبا کر بیٹھے دیکھا گیا جب کہ سیاہ فام شخص اس وقت غیر مسلح تھا۔

یہ افسوس ناک واقعہ پیر کے روز پیش آیا تھا، پولیس افسر نے جارج فلائیڈ کے ہاتھ پیچھے کر کے ہتھ کھڑی لگا دی تھی اور اسے زمین پر منہ کے بل گرا کر اس کی گردن پر گھٹنا رکھ کر دباتا رہا، اس دوران سیاہ فام شخص تکلیف کے عالم میں پولیس اہلکار کو اٹھنے کے لیے بھی کہتا رہا کہ وہ سانس نہیں لے پا رہا۔ ویڈیو کسی راہ گیر نے بنائی تھی، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، اس میں سیاہ فام شخص کی آواز سنائی دیتی ہے، وہ بار بار درخواست کرتا ہے "پلیز، میں سانس نہیں لے پا رہا، میں سانس نہیں لے پا رہا۔

" اس منظر نامے کے چند ہی منٹ بعد جارج فلائیڈ کی آنکھیں بند ہو گئیں اور اس کی مسلسل سنائی دینے والی آواز بھی خاموش ہو گئی۔ تاہم پولیس افسر نے اپنا گھٹنا اس کی گردن سے نہیں ہٹایا، راہ گیر بھی چلاتے رہے کہ وہ حرکت نہیں کر رہا ہے، اسے مدد کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر ایک اور پولیس افسر پاس کھڑے ہو کر لوگوں کو دیکھتا رہا۔ بعد ازاں جارج فلائیڈ کو اسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکا اور مر گیا۔

منیاپولس پولیس چیف میداریا ارادوندو نے ایک نیوز کانفرنس میں پولیس اہل کاروں کے نام نہ بتاتے ہوئے کہا کہ مذکورہ افسران کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ ریاست کی بیورو آف کریمنل اپریہنشن اور ایف بی آئی نے الگ الگ اس واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ خبر ایجنسی کے مطابق جارج فلائیڈ کی فیملی کے وکیل بین کرمپ کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہوا وہ طاقت کا نہایت غلط، بہت زیادہ اور غیر انسانی استعمال تھا، جس نے ایک انسانی جان لے لی، ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے برعکس پولیس اسے قید کر کے پوچھ گچھ کر سکتی تھی۔

 
 
وکیل نے منیاپولس پولیس ڈیپارٹمنٹ سے سوال کیا کہ آخر کتنی سفید و سیاہ فام جانیں مزید درکار ہوں گی اس نسلی امتیاز اور سیاہ فاموں کی ناقدری کے خاتمے کے لیے۔ دریں اثنا منیاپولس کے میئر جیکب فرے نے اپنے بیان میں کہا کہ پولیس افسران کو فارغ کرنے کا فیصلہ ہمارے شہر کے لیے بالکل درست ہے، ہم اپنی اقدار بیان کر چکے ہیں، اب ہمیں ان کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔ خبر ایجنسی کے مطابق ہولیس اہلکاروں پر قتل کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں۔