دنیا بھر میں 10،000 سے زیادہ مختلف مقامات پر اسٹورز اور اس کے ساتھ 60 سالہ تجربہ ، ALDI کی کہانی بے مثال کامیابی کی داستان ہے

1913 میں اپنا پہلا اسٹور کھولنے کے بعد سے ، اس نے بین الاقوامی کاروباری مارکیٹ میں خود کو ایک سب سے مشہور اور اعزاز بخش خوردہ فروش کے طور پر قائم کیا ہے

Umer Jamshaid عمر جمشید جمعرات 28 مئی 2020 19:59

دنیا بھر میں 10،000 سے زیادہ مختلف مقامات پر اسٹورز اور اس کے ساتھ 60 سالہ ..
برسبین (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 28 مئی2020ء،نمائندہ خصوصی،خالد بھٹی) دنیا بھر میں 10،000 سے زیادہ مختلف مقامات پر اسٹورز اور اس کے ساتھ 60 سالہ تجربہ ، ALDI کی کہانی بے مثال کامیابی کی داستان ہے۔  1913 میں اپنا پہلا اسٹور کھولنے کے بعد سے ، اس نے بین الاقوامی کاروباری مارکیٹ میں خود کو ایک سب سے مشہور اور اعزاز بخش خوردہ فروش کے طور پر قائم کیا ہے۔


گذشتہ دنوں آسٹریلیا میں فیس بُک کے ذریعے چلائی جانیوالی جعلی ALDI واؤچر اسکیم پر پاکستان کے  اک ہونہار نوجوان خُرم ملک نے اک آرٹیکل لکھا ہے جس کو آسڑیلیا میں کافی پذیرائی ملی - واضح رہے کہ خُرم ملک آسٹریلیا میں کوئینز لینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی (QUT) کے سائبر کرائم مُحقق ہیں۔ وہ سائبر کرائم اور بینکاری فراڈ پر تحقیق کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اُن کے اُبھرتے ہوئے تحقیقی شعبوں میں سے ایک اوپن بینکنگ میں دھوکہ دہی کی روک تھام ہے۔ وہ آؤٹ کلاس اکاؤنٹنٹ اور ٹیکس ایڈوائزرز فرم میں بھی شراکت دار ہے۔خُرم ملک نے لکھا کہ
18 مئی 2020 کو ، سائبرکرائم میں ملوث افراد نے فیس بُک کے پلیٹ فارم کو استعمال کرکے جعلسازی کا منصوبہ بنایا ۔ اُنہوں نے فیس بُک پر ALDI کے کمپنی لوگو کے ساتھ ایک جعلی ALDI Australia پیج بنایا۔

انہوں نے جعلی ALDI واوچر پوسٹ تیار کی اور اِس پوسٹ کو فیس بُک کو معاوضہ ادا کرکے اسپانسر کردہ اشتہار کے طور پر چلا دیا۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی حاصل کی جاسکے۔ اِس پوسٹ کا عنوان(Aldi Voucher - 1per household ) رکھا گیا تھا۔اور وہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ اپنی 19 سالہ کامیابی کے جشن کو اپنے صارفین کے ساتھ منا رہے ہیں۔ یہ مجرم اتنے منظم ہیں کہ اُنھیں یہ معلوم ہو گیا کہ ALDI پچھلے 19 سالوں سے آسٹریلیا میں کام کررہی ہے۔

سارا مقصد معصوم گاہکوں یا عام عوام کو دھوکہ دینا ہے۔
لنک پر کلک کرنے سے آپ کو ایک گوگل فارم پر لے جایا جاتا ہے جہاں آپ کو کوئی معلومات نہیں ڈالنی پڑتی ہے اور آپ کو صرف یہ بتانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ آپ ماہانہ بنیاد پر کتنا خرچ کر رہے ہیں اور آپ کی جنس کیا ہے۔پہلے ہی مرحلے میں صارفین کے اعتماد کو جیتنے کے لیے یہ ایک مثبت علامت ہے کہ یہ کوئی فراڈنہیں ہے کیونکہ وہ کوئی ذاتی معلومات نہیں مانگ رہے ہیں۔


پہلا مرحلہ قابلِ فہم اور آسان ہے اور یہاں تک کوئی مسئلہ نہیں ہے اور کوئی بھی شخص حتیٰ کہ سائبر سیکیورٹی کا ماہر شخص بھی یہ فارم پُر کردے گا کیونکہ اِس میں وہ کوئی معلومات نہیں مانگ رہے ہیں اور نہ ہی یہ شک ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ اشتہارALDI کمپنی کے اصل فیس بُک پیج کی طرف سے آیا ہے یا نہیں۔ ایک بار جب آپ فارم جمع کرواتے ہیں تو وہ آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ مفت ALDI واؤچر حاصل کرنے کے اہل ہیں اور اس کو حاصل کرنے کے لیے آپ کو لنک پر کلک کرنے کی ضرورت ہے اور وہ لنک آپ کو ایک ایسی ویب سائٹ پر لے جاتا ہے جو آپ کے کمپیوٹر سسٹم پر میلویئر (Malware) انسٹال کرنے کی کوشش کرے گا۔

اگر آپ کے پاس اینٹی وائرس یا اَپ ڈیٹ شدہ سیکیورٹی نہیں ہے تو آپ بُری طرح پھنس گئے ہیں۔
حقیقتاَ، سائبر کرائم محقق کی حیثیت سے ، میں نے فارم پُر کیا لیکن لنک پر کلک نہیں کیا۔ تب میں اُس فیس بُک پیج پر واپس گیا اور کچھ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ پیج کل 18 مئی 2020 کو ایک دن قبل تشکیل دیا گیا تھا جو فراڈ کی ایک واضح علامت ہے۔ بہر حال ، مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے آسٹریلوی لوگوں نے لنک پر کلک کیا ہوگا اور ان میں سے سینکڑوں لوگوں نے اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ اسے انجانے میں شیئیر بھی کیا ہوگا۔

بغیر یہ جانتے ہوئے کہ یہ ایک فراڈ اور جعلسازی ہے۔ انٹرنیٹ پر بڑھتے ہوئے انحصار کے ساتھ ساتھ،اِس کے استعمال کے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے اور میں تجویز کروں گا کہ سائبر کرائم کو شکست دینے کے لئے آسٹریلوی باشندوں کو مناسب طریقے سے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
خُرم ملک آسٹریلیا میں کوئینز لینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی (QUT) کے سائبر کرائم مُحقق ہیں۔ وہ سائبر کرائم اور بینکاری فراڈ پر تحقیق کر رہے ہیں۔ اُن کے اُبھرتے ہوئے تحقیقی شعبوں میں سے ایک اوپن بینکنگ میں دھوکہ دہی کی روک تھام ہے۔ وہ آؤٹ کلاس اکاؤنٹنٹ اور ٹیکس ایڈوائزرز فرم میں بھی شراکت دار ہے۔