کرونا بحران نے منصفانہ اقتصادی نظام کی اہمیت کو واضح کر دیا ہے: میاں زاہد حسین

موجودہ عالمی اقتصادی نظام استحصالی بنیادوں پر کام کر رہا ہے، ترقی یافتہ ممالک، عالمی اداروں کے اقدامات ناکافی ہیں

جمعہ 29 مئی 2020 16:15

کرونا بحران نے منصفانہ اقتصادی نظام کی اہمیت کو واضح کر دیا ہے: میاں ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 29 مئی2020ء) ایف پی سی سی آئی بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئرمین ،پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ کرونا وائرس اور اس کے نتیجے میں عوام کو درپیش مصائب نے عالمی سطح پر منصفانہ اور لوٹ کھسوٹ سے پاک اقتصادی نظام کی اہمیت کو واضح کر دیا ہے جس کی جانب پیش رفت ضروری ہے۔

ایک انتہائی محدود طبقہ موجودہ استحصالی نظام کے حق میں ہے جسے جاری رکھنا انسانیت کے لئے ضرر رساں ہے۔ میاں زاہد حسین نے ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر خرم اعجاز، قمر آنول، شاہد آنول ، ثاقب فیاض مگوں، شبیر منشاء ودیگر سے گفتگو میں کہا کہ انصاف پر مبنی اقتصادی نظام کے بغیر منصفانہ سماجی نظام ، غربت کے خاتمے اور عوام کی فلاح و بہبود کا تصور بھی محال ہے۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ موجودہ اقتصادی نظام محدود تعداد میں وسائل پر قابض افراد کو مواقع فراہم کر رہا ہے جبکہ عوام کی بڑی تعداد غربت سے نکلنے کا صرف خواب ہی دیکھ سکتی ہے۔ وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر غربت میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور کروڑوں افراد کا زندہ رہنا محال ہو گیا ہے جبکہ اس سلسلہ میں ترقی یافتہ ممالک اور عالمی اداروں کے اقدامات تسلی بخش نہیں ہیں۔

غریب ممالک کو قرضے دینے والے کمرشل قرض دہندگان کا رویہ سب سے زیادہ منفی ہے جو کسی کو ذرہ برابر رعایت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں جس کے خلاف مغربی ممالک میں بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں مگر وہ کسی کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ورلڈ بینک دنیا کی70 فیصد آبادی پر مشتمل 100 ممالک کو امداد اور سستے قرضوں کی صورت میں160 ارب ڈالر فراہم کر رہا ہے جبکہ آئی ایم ایف ، دیگر ادارے اور گروپ بھی کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں مگر وہ ضرورت سے بہت کم ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے اداروں کے قرضوں نے دنیا سے غربت کے خاتمے میں کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا ہے تاہم غریب ممالک کو مزید مقروض کر دیا گیا ہے۔عوام کے نام پر قرضے لینے والے ممالک نے اربوں ڈالر کے قرضے لے کر ضائع کر دئیے جس سے عوام کی حالت میں بہتری نہیں آئی بلکہ انکے مسائل مزید بڑھ گئے کیونکہ ان قرضوں کی ادائیگی میں کرپشن کی روک تھام کے لئے مناسب اقدامات نہیں کئے جاتے ہیں۔

عالمی اداروں سے قرضے لینے والے ممالک انکے بوجھ تلے دب کر اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لئے مختص کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور صحت ،تعلیم ،پینے کے صاف پانی اور دیگر شعبوں کے لئے ان کے پاس کچھ نہیں بچتا۔ ان حالات میں عالمی جی ڈی پی میں 5فیصد تک کی کمی اربوں افراد کے لئے ایک بھیانک خواب ثابت ہو گی۔