حیدرآباد میں شدید گرمی ، بیشتر علاقوں میں بجلی کے بریک ڈاؤن کے ساتھ لوڈشیڈنگ بھی جاری ، پانی کے بحران نے شہریوں کی اذیت میں اضافہ کردیا

جمعہ 29 مئی 2020 22:44

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 مئی2020ء) حیدرآباد میں جمعہ کو بھی شدید گرمی رہی، بیشتر علاقوں میں بجلی کے بریک ڈاؤن کے ساتھ لوڈشیڈنگ بھی جاری رہی، پانی کے بحران سے شہریوں کی اذیت میں مزید اضافہ ہو گیا۔

(جاری ہے)

سندھ کے بیشتر اضلاع میں درجہ حرارت غیرمعمولی حد تک پہنچ گیا ہے، حیدرآباد میں بھی جمعہ کو درجہ حرارت 43 سینٹی گریڈ رہا،حیدرآباد میں بجلی کی معمول کی لوڈشیڈنگ بھی 6 سے 8 گھنٹے تک ہو رہی ہے، لوڈ شیڈنگ کا عمومی دورانیہ ایک گھنٹہ کا ہے لیکن کافی علاقوں میں دو گھنٹے کا بھی ہے، اس وقت تمام نجی سرکاری بڑے چھوٹے تعلیمی ادارے مکمل طور پر بند ہیں، سرکاری دفاتر صرف 20 فیصد کھل رہے ہیں جبکہ 60 فیصد سے زیادہ مارکیٹیں بازار اور کاروباری مراکز بھی بند ہیں، جمعہ کو بہت کم کاروبار کھلے اس کے باوجود لوڈ شیڈنگ بڑھ رہی ہے اور آنکھ مچولی بھی جاری رہتی ہے، جمعرات کو لطیف آباد میں رات 2 بجے اچانک بجلی بند ہو گئی تھی اور کئی علاقوں میں صبح 8 بجے تک معطل رہی رہی، جبکہ جمعہ کو بھی حیدرآباد سٹی، لطیف آباد اور قاسم آباد میں بعض علاقوں میں 8 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہوئی جبکہ کم لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی 6 گھنٹے سے زائد ہے، ٹرانسفارمر جلنے، تار ٹوٹنے اور فنی خرابی کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جن کے نتیجے میں طویل بریک ڈاؤن ہو رہا ہے، جن علاقوں میں ٹرانسفارمر جل جاتے ہیں وہاں کئی دن تک بجلی معطل رہتی ہے، حیسکو اہلکاروں کی طرف سے شہریوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ 30 سے 50 ہزار روپے چندہ جمع کر کے دیں تا کہ پرائیویٹ طور پر ٹرانسفارمر کی مرمت کرائی جائے جبکہ ٹرانسفارمر کی مرمت کرانا حیسکو کی ذمہ داری ہے لیکن گنجان عام آبادیوں میں بار بار مرمت شدہ ٹرانسفارمر لگائے جاتے ہیں کئی تو لگاتے ہی دھماکے سے اڑ جاتے ہیں، حیسکو ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جن علاقوں سے صارفین کی اکثریت بجلی کے بل ادا نہیں کرتی وہاں زیادہ لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے مگر جن پلازوں،رہائشی و کمرشل عمارتوں میں حیسکو کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے کنڈے استعمال ہوتے ہیں وہاں کم ہی کبھی کوئی کاروائی ہوتی ہے، اس صورت میں بل ادا کرنے والے صارفین بھی سزا بھگتتے ہیں، بجلی کے طویل تعطل سے فراہمی آب کا نظام بھی بری برح متاثر ہو رہا ہے کیونکہ مالی بحران کا شکار ایچ ڈی اے اور واسا کے پاس سسٹم کو چلانے کے لئے متبادل انتظام نہیں ہے، فراہمی آب کے سسٹم سے دور کے علاقوں میں پانی کی عمومی طور پر بھی قلت رہتی ہے جو شدید گرمی میں بڑھ گئی ہے، اندازے کے مطابق شہر کی 40 فیصد آبادی ٹینکر مافیا اور کین مافیا کے رحم و کرم پر ہے، واسا کی طرف سے فراہم کیا جانے والا پانی بظاہر فلٹر واٹر بتایا جاتا ہے لیکن خصوصاً پھلیلی پریٹ آباد اور لطیف آباد کو نہروں سے اور ڈاؤن اسٹریم سے مضر صحت انی فراہم کیا جاتا ہے، 40 فیصد آبادی کو بھی نام نہاد فلٹر پانی نہیں ملتا، پانی کے سنگین بحران سے شہری سخت اذیت میں ہیں۔