نواز شریف کی لندن کے ریستوران میں تصویر ہمارے نظام کا منہ چڑارہی ہے.فواد چوہدری

وفاقی وزیر نے ٹوئٹر پر تصویر شیئر کی جس میں سابق اپنی بہو اور پوتی کے ہمراہ دیکھے جا سکتے ہیں

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 30 مئی 2020 15:23

نواز شریف کی لندن کے ریستوران میں تصویر ہمارے نظام کا منہ چڑارہی ہے.فواد ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30 مئی۔2020ء) وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اہل خانہ کے ساتھ منظر عام پر آنے والی تصویر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کی تصویر ہمارے نظام کا منہ چڑارہی ہے. سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر فواد چوہدری نے ایک تصویر شیئر کی جس میں میاں نواز شریف لندن میں اپنی بہو اور پوتی کے ہمراہ دیکھے جا سکتے ہیں تصویر کے ساتھ فواد چوہدری نے تحریر کیا کہ یہ تصویر ہمارے نظام انصاف، قانون، انتظامیہ اور عدالتی نظام کا منہ چڑا رہی ہے.

(جاری ہے)

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے یہ بھی لکھا کہ تصویریں بتاتی ہیں کہ آخر عوام احتساب کے نظام پر کتنا اعتماد کر سکتے ہیں یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی لندن میں سرگرمیوں اور اہل خانہ کے ساتھ وقت گزاری پر تنقید کی ہو‘قبل ازیں انہوں نے نواز شریف کی اہل خانہ اور پارٹی لیڈران کے ہمراہ لندن کے ریستوران میں لی گئی تصویر پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کھاﺅ پیو بیماری کا علاج انتہائی انہماک سے جاری ہے اور سارے مریض بہتر محسوس کر رہے ہیں.

ریستوران میں لی گئی تصویر کے ساتھ فواد چوہدری نے مزید تحریر کیا تھا کہ یہ لندن کے اسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں ہونے والی ملاقات کے مناظر ہیں‘یادرہے کہ گزشتہ سال نومبر میںلاہور ایئر پورٹ کے حج ٹرمینل سے نوازشریف بذریعہ دوحہ قطر ایئرویز کی ایئر بس A-319-133LR / A7-MED کے ذریعے لندن روانہ ہوئے تھے‘ ایئر ایمبولینس میں کل 5 افراد روانہ گئے تھے جن میں نواز شریف، شہباز شریف، ڈاکٹر عدنان، عابد اللہ جان اور محمد عرفان شامل تھے.

واضح رہے کہ نواز شریف کی صحت کی تشویش ناک حالت سے لے کر بیرونِ ملک روانگی کے تقریباً ایک ماہ کے عرصے کے دوران متعدد نشیب و فراز سامنے آئے‘21 اکتوبر کو نیب کی تحویل میں چوہدری شوگر ملز کیس کی تفتیش کا سامنا کرنے والے نواز شریف کو صحت کی تشویشناک صورتحال کے باعث لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں یہ بات سامنے آئی کہ ان کی خون کی رپورٹس تسلی بخش نہیں ان کے پلیٹلیٹس مسلسل کم ہورہے تھے.

سابق وزیر اعظم کے چیک اپ کے لیے ہسپتال میں 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس کی سربراہی ڈاکٹر محمود ایاز تھے بعدازاں اس بورڈ میں مزید ڈاکٹروں اور ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی کو بھی شامل کرلیا گیا تھا‘میڈیکل بورڈ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے مرض کی ابتدائی تشخیص کی تھی اور بتایا تھا کہ انہیں خلیات بنانے کے نظام خراب ہونے کا مرض لاحق ہے.

تاہم ڈاکٹر طاہر شمسی نے مزید تفصیلات فرہم کرتے ہوئے بتایا تھا کہ نواز شریف کی بیماری کی تشخیص ہوگئی ہے، ان کی بیماری کا نام ایکیوٹ امیون تھرمبو سائیٹوپینیا (آئی ٹی پی) ہے جو قابل علاج ہے اسی دوران نواز شریف کے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے 24 اکتوبر کو العزیزیہ ریفرنس میں ان کی طبی بنیادوں پر ان کی سزا معطلی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ جبکہ چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تھا.

لاہور ہائی کورٹ میں میڈیکل بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر محمود ایاز نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ سابق وزیراعظم کی حالت تشویشناک ہے جبکہ نیب نے بھی علاج کی صورت میں بیرونِ ملک روانگی سے متعلق مثبت رد عمل ظاہر کیا تھا جس پر عدالت نے ایک کروڑ روپے کے 2 ضمانت مچلکوں کے عوض ان کی ضمانت منظور کرلی تھی. اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی 26 اکتوبر کو العزیزیہ ریفرنس میں 3 روز کی ضمانت منظور کرلی تھی جس کی 29 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں ان کی سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کردیا گیا تھا جبکہ مزید مہلت کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی‘بعدازاں 5 نومبر کو صحت بہتر ہونے کے بعد نواز شریف کو سروسز ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی تھی تاہم وہ 6 نومبر کو اپنی رہائش گاہ جاتی امرا روانہ ہوئے جہاں انہیں گھر میں قیام آئی سی یو میں رکھا گیا تھا.

عدالتوں سے ریلیف ملنے کے بعد سابق وزیراعظم کا نام سفری پابندی کی فہرست ای سی ایل سے نکالنے کا معاملہ درپیش تھا جس کے لیے شہباز شریف نے 8 نومبر کو وزارت داخلہ کو درخواست دی تھی جس نے نیب کی رضامندی طلب کی تھی نیب نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے کے لیے میڈیکل رپورٹ طلب کی تاکہ نواز شریف کی صحت سے متعلق انہیں بیرون جانے کی اجازت دینے یا نہ دینے سے متعلق فیصلہ کیا جاسکے.

انتظامی تاخیر کے سبب حکومت نے ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جس کے باعث بیرونِ ملک روانگی کے تمام تر انتظامات ہونے کے باوجود نواز شریف 10 نومبر کو لندن روانہ نہیں ہوسکے تھے‘بعدازاں 11 نومبر کو وزارت داخلہ کے پاس تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی اور اسی دن نوٹس جاری کیا گیا، 12 تاریخ کو کابینہ کو بریفنگ دی اور انہیں ساری تفصیلات سے آگاہ کیا.

جس کے بعد حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دینے کا اعلان کیا جس کے تحت روانگی سے قبل انہیں 7 ارب روپے کے ضمانتی بانڈز جمع کروانے تھے‘تاہم حکومت کی جانب سے عائد کی گئی شرط پر بیرون ملک سفر کی پیشکش کو قائد مسلم لیگ (ن) نے مسترد کردیا تھا. جس پرشہباز شریف نے 14 نومبر کو نوازشریف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی‘درخواست میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ حکومت کی جانب سے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرائط رکھی جا رہی ہیں، عدالت وفاقی حکومت کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے.

بعدازاں اگلے ہی سماعت میں عدالت نے شہباز شریف سے سابق وزیراعظم کی واپسی سے متعلق تحریری حلف نامہ طلب کیا اور اس کی بنیاد پر نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی‘مزید عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ علاج کے لیے مزید وقت درکا ہوا تو درخواست گزار عدالت سے دوبارہ رجوع کرسکتا ہے اور میڈیکل رپورٹس کی روشنی میں توسیع دی جاسکتی ہے.