روزانہ فضائی سفر کرنے والاشخص 19ہزار سال میں کسی حادثے کا شکار ہوسکتا ہے

دنیا بھر کی محفوظ اور غیر محفوظ ایئر لائنز کی درجہ بندی میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز بھی شامل ہے ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات کا ملنا ہماری ایوی ایشن انڈسٹری کی بقا اور آئندہ حادثات سے بچنے کے لیے ناگزیر ہیں. ایڈیٹر”اردوپوائنٹ“میاں ندیم کی تحقیقی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 30 مئی 2020 21:41

روزانہ فضائی سفر کرنے والاشخص 19ہزار سال میں کسی حادثے کا شکار ہوسکتا ..
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30 مئی۔2020ء) لاہور سے کراچی جانے والی پی آئی اے پرواز PK-8303 کوپیش آنے والے بدترین حادثے کی تحقیقات جاری ہیں اور ایئربس کمپنی کی فرانس سے آنے والی ٹیم اپنی جائے حادثہ اور ایئرپورٹ کا معائنہ کرکے جہازکا ”بلیک باکس“لے کر واپس روانہ ہوچکی ہے بلیک باکس کے کوڈزکو ڈی کوڈ کرنے کے لیے کئی ماہ کا وقت لگ سکتا ہے.

بلیک باکس کے ڈی کوڈ ہونے کے بعد کمپنی کی جانب سے رپورٹ مرتب کی جائے گی جس میں جہازکو پیش آنے حادثے کی تفصیلات شامل کی جائیں گی اس میں پی آئی اے ‘انٹرنیشنل ایوی ایشن آرگنائزیشن‘انٹرنیشنل ائیرٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن ‘پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی ‘نیشنل انشورنش کمپنی لمیٹڈ (این آئی سی ایل) جوکہ مارش کمپنی انشورنس کی بروکر ہے سمیت آئرلینڈ کی کمپنی سیلیسٹیکل ایوی ایشن ٹریڈنگ 34 لمیٹڈ بھی شامل ہے تحقیقات میں معاونت کرے گی ‘بدقسمت جہاز آئرلینڈ سیلیسٹیکل ایوی ایشن ٹریڈنگ 34 لمیٹڈ کی ملکیت تھا جسے پی آئی اے لیزپر لے کر چلارہی تھی.

اس المناک سانحے میں 98 قیمتی جانیں لقمہءاجل بنیں‘حادثے کو کئی روز گزر چکے ہیں، بہت سی آرا اور تنقید سامنے آرہی ہے بحث و مباحثے کا ایک طوفان ہے جو ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر چھایا ہوا ہے لیکن ان سب میں مگرچینلزپر بیٹھے ”ماہرین“ بنیادی سوالات پر بات کرنے سے گریزاں ہیں یا انہیں علم نہیں طیارے کی تیکنیکی حالت؟ایئر پورٹ کے قریب بلند وبالا تعمیرات کی قانونی حیثیت؟اور پائلٹس کی ذہنی اور جسمانی فٹنس اور تربیت کا نظام؟ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات کا ملنا ہماری ایوی ایشن انڈسٹری کی بقا اور آئندہ حادثات سے بچنے کے لیے ناگزیر ہیں.

دنیا میں ہوائی سفر کس حد تک محفوظ ہے، اس حوالے سے میساچیوسٹس انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ڈاکٹر آرنلڈ بارنیٹ کی تحقیق کے اعداد و شمار پیش کیے جاسکتے ہیں ڈاکٹر آرنلڈ نے1975سے1994تک دستیاب فلائٹ ڈیٹا اور ہونے والے حادثات پر باریک بینی سے تحقیق کی ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر ہوائی حادثے خال خال ہی رونما ہوتے ہیں مثلاً اگر ایک آدمی روزانہ ہوائی سفر کرے تو 19 ہزار سالوں کے بعد وہ کسی حادثے کا شکار ہوسکتا ہے‘اس تحقیق کے مطابق گاڑی سے سفر کے مقابلے میں جہاز کا سفر 19 گنا زیادہ محفوظ ہے ہوائی سفر کو اس حد تک محفوظ بنانے میں آپ ٹیکنالوجی کے کردار کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔

(جاری ہے)

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فلائٹ چاہے جتنی بھی ہموار ہو آپ اس کی بنیاد پر لینڈنگ کے محفوظ یا غیر محفوظ ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتے لینڈنگ اور ٹیک آف ایک الگ ہی اہمیت کے حامل عوامل ہیں.

شہری ہوابازی کے شعبے میں فلائٹ سیفٹی سسٹم میں بہت زیادہ ترقی کی بدولت دنیا بھر میں ہوائی حادثات کی شرح اب بہت کم ہوچکی ہے 1970ءکی دہائی میں ہر 10 لاکھ پروازوں میں سے 6.35 پروازیں حادثے کا شکار ہوجاتی تھیں، جب کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت 2019ءمیں یہ شرح گھٹ کر 0.51 فی 10 لاکھ رہ گئی. پاکستان میں سیفٹی انتظامات میں کوتاہیوں کی وجہ سے صورتحال مختلف ہے اگر صرف پچھلے 10 سالوں کا جائزہ لیا جائے تو ملک میں 2010 سے اب تک ان 10 سالوں میں 7 چھوٹے بڑے فضائی حادثات رونما ہوئے جن میں 400 سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں.

حادثات کی یہ شرح دنیا بھر میں ہونے والے فضائی حادثات کے مقابلے میں انتہائی فکر انگیز ہے اور اگر ان میں وہ حادثات بھی شمار کرلیے جائیں جن میں پرواز کسی حادثے سے بال بال بچی ہو تو یہ شرح اور خطرناک ہوجائے گی. مشہور امریکی ڈیٹا سائنسدان نیٹ سلور جو fivethirtyeight کے مدیر بھی ہیں، ان کی مہارت اور شہرت اعداد و شمار کی بنیاد پر تجزیہ کاری ہے ان سے کسی نے ایک بار پوچھا تھا کہ کیا حادثے کی شکار کسی ایئر لائن میں سفر کرنا چاہیے یا نہیں، ان کا دوٹوک جواب تھا نہیں انہوں نے اپنے اس مو¿قف کو دنیا بھر کی ایئر لائنز کی کارکردگی اور حادثات کے اعداد و شمار سے ثابت کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارے عموماً اپنی غلطیاں دہراتے ہیں.

نیٹ سلور نے اعداد و شمار کی بنیاد پر دنیا بھر کی محفوظ اور غیر محفوظ ایئر لائنز کی درجہ بندی کی ہے ان میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز بھی شامل ہے . پی آئی اے کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے انہوں نے 14، 14 برسوں کی 2 مخصوص مدتوں (1999ءسے 1985ءاور 2014ءسے 2000ء) کو منتخب کیا ہے اس عرصے کے دوران تمام حادثات اور بال بال بچنے والی پروازوں کا بھی باریک بینی سے تجزیہ کیا گیا اور اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ بالا ادوار میں پی آئی اے بدترین ایئرلائن ثابت ہوئی ہے پی آئی اے کے بعد دوسری بدترین ائیرلائن ایتھوپین ایئرلائن اور ان دونوں کے بعد روس کی ایئر فلوٹ کا نمبر آتا ہے نیٹ سلور کے مطابق سیفٹی اقدامات کے حوالے سے 56 دیگر ایئر لائنز میں پی آئی اے کا نمبر 54 ہے گویا اس کا شمار غیر محفوظ ایئر لائنوں میں آخری نمبروں پر ہے.

کراچی ایئرپورٹ کے نزدیک ملیر کے علاقے میں بلند وبالا دفتری عمارات، بڑے بڑے اسٹور، شادی ہالز، اسکول اور پیٹرول پمپس موجود ہیں اور جوکہ ایئرپورٹ سے محض چند منٹ کی مسافت پر موجود ہیں کیا ایئر پورٹ کے اتنے قریب آبادی یا بلند عمارات قانونی ہیں؟ اور سول ایوی ایشن کے قوانین کیا کہتے ہیں؟سول ایوی ایشن کے ایک ریٹائرڈ عہدیدار نے اپنی شناخت خفیہ رکھتے ہوئے بتایا کہ کسی بھی ایئر پورٹ سے 15 کلومیٹر کے اندر ہر قسم کی تعمیر سے پہلے ادارے سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے اس حوالے سے ایک جامع پالیسی نیشنل ایئر فیلڈ پالیسی 2013 موجود ہے جس کے تحت رن وے کے 900 میٹر کے علاقے میں کسی بھی قسم کی تعمیر نہیں ہوسکتی سوائے واچ ٹاور اور دیگر متعلقہ عمارات کے اسی طرح رن وے کے دونوں سروں پر مزید 8 کلو میٹر تک کا علاقہ خالی ہونا چاہیے تاکہ اگر طیارہ کسی وجہ سے رن وے پر نہ رک سکے تو یہ اضافی رقبہ اسے دستیاب ہو، اسے اوور رن علاقہ کہا جاتا ہے جبکہ کراچی ایئر پورٹ پر یہ علاقہ بہت محدود ہے.

طیارے کی لینڈنگ اور ٹیک آف کے راستے کو یعنی رن وے کے اختتام کے بعد 2 ہزار 773 میٹر تک کے رقبے کو فنل ایریا کہتے ہیں اس علاقے میں کسی بھی قسم کی عمارت تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہوتی‘جب سول ایوی ایشن کے قوانین ایئر پورٹ کے اتنے قریب کسی تعمیراتی سرگرمی کی اجازت نہیں دیتے تو یہ آبادیاں یہاں کیسے آباد ہوگئیں، 3، 3 منزلہ عمارتیں تعمیر کرنے کی کس نے اجازت دی؟ یہی وہ وقت ہے جب یہ اور ان جیسے بہت سے سوالات کے جواب مل جانے چاہئیں.

پاک فضائیہ کے سابق افسراور غیرملکی نجی ایئرلائن کے پائلٹ نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دو تین ماہ سے جہاز گراﺅنڈ ہیں ان پر مختلف موسم گزرے ہیں جن کا اثر لازمی مشینوں پر پڑتا ہے پائلٹ بھی گھر پر بیٹھے ہوئے ہیں یہ بہت خطرناک صورتحال ہے ایسے میں جہازوں کو پرواز سے پہلے بہت زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے ایک ایک پرزے کا جائزہ لینا ہوتا ہے اس طویل عرصے میں تو جہازوں کے ایئر کنڈیشنرز کی کارکردگی بھی متاثر ہوجاتی ہے اس کے علاوہ پرواز سے پہلے پائلٹ کے بھی تمام جسمانی اور ذہنی ٹیسٹ ضروری ہیں.

انہوں نے کہا کہ بلیک باکس کی معلومات سے پہلے کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے مگر اس وقت جو باتیں کی جارہی ہیں کہ لینڈنگ کے وقت بلندی زیادہ تھی یا لینڈنگ کس طرح کرنی چاہیے تھی، یہ سب فضول باتیں ہیں ساری ذمہ داری مرنے والے پر تھوپنے کے لیے میدان ہموار کیا جارہا ہے اگر لینڈنگ گیئر نہیں کھلے تھے تو یہ کنٹرول ٹاور کی ذمہ داری تھی کہ وہ اسے د±وربین سے دیکھ کر پائلٹ کو آگاہ کرتا اور بلندی بھی اگر زیادہ تھی تو کنٹرولر منع کردیتا کہ آپ اتنی بلندی سے لینڈ نہیں کرسکتے ممکن ہے ایسا کہا بھی گیا ہو، مگر مکمل تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا شاید مناسب نہیں.

انہوں نے کہا کہ جہاں تک تعمیرات کی بات ہے تو ان تعمیرات کے غلط یا صحیح ہونے سے قطع نظر ان عمارات کے ہوتے ہوئے اس ایئر پورٹ پر ہزاروں جہاز چڑھتے اترتے ہیں کراچی ایئر پورٹ کے دونوں رن وے بھی عالمی معیار کے ہیں اصل بات جہاز کی چیکنگ اور دیکھ بھال کی ہے، اس حوالے سے عالمی معیارات پر عمل کرنا ہوگا جہاز کے پرزے اور دیگر آلات بہت مہنگے ہوتے ہیں اور ہمیں کام”چلانے“ کی عادت ہے.

انہوں نے کہا کہ مستقبل میں حادثات سے بچنے کے لیے شفاف تحقیقات ضروری ہیں جہاز اور انجن دونوں بہترین حالت میں ہوں اور چیکنگ کا نظام عالمی معیار کا ہو‘ ریڈار اور دیگر آلات معیاری ہوں خصوصاً مسافر بردار طیاروں میں اعلیٰ معیار کے ریڈار نصب ہونا ضروری ہیں اب تجربہ، معیار اور جہاز پر کوئی سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے. ایئر لائنز انڈسٹری کے اوپر بھی ایک ریگولیٹری اتھارٹی ہے جسے انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کہا جاتا ہے جن کا کام جہازوں کو چیک کرنا ہوتا ہے اس کے علاوہ International Air Transport Association بھی ایک ادارہ ہے کسی بھی ملک کی ایوی ایشن پابند ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی ایئر لائن کے جہازوں میں گڑبڑ محسوس کرے تو وہ نہ صرف خود ایکشن لیتی ہے بلکہ ان اداروں کو بھی تحریری طور پر آگاہ کرتی ہے.

پرانے جہازوں پر یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ شور بہت کرتے ہیں اس لیے بہت عرصے تک ”ہش کٹ“ لگا کر کام چلایا جاتا رہا ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ اسی لیے بین الاقوامی پروازیں ہمارے ایئرپورٹ سے رات کے آخری پہر اڑان بھرتی ہیں تاکہ بین الاقوامی ایئرپورٹس پر یہ دن کے وقت لینڈ کرسکیں کیونکہ وہاں کے لوگوں کو یہ گوارا نہیں ہے کہ رات کے وقت ہمارے جہازوں کا شور ان کے سکون میں خلل ڈالے.

اسی طرح پائلٹ کی ذہنی اور جسمانی فٹنس، تربیت اور پیشہ ورانہ طرزعمل کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھتے ہیں خصوصاً کسی بھی حادثے اور پائلٹ کے مرنے کے بعد ‘پائلٹ کی نوکری کا دورانیہ صرف کاک پٹ میں گزرے ہوئے لمحات نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ جہاز کی روانگی سے کئی گھنٹے پہلے تمام مراحل کی تکمیل کے لیے ایئر پورٹ پر موجود ہوتا ہے. پرواز سے قبل ڈاکٹر پائلٹ اور دیگر عملے کی باقاعدہ جسمانی اور ذہنی کارکردگی کا جائزہ لیتا ہے اور اگر اسے کوئی چیز معمول سے ہٹ کر لگے تو اسے پرواز میں سوار ہونے سے روک کر مزید ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا جاتا ہے اس مرحلے میں طبّی معائنہ، فلائٹ اعدادی تجزیہ، بریفنگ اور ایئر کرافٹ چیکنگ ہوتی ہے اس کے بعد پائلٹ کو فلائٹ ڈیٹا مہیا کیا جاتا ہے جس میں روٹ میپ، لینڈنگ چارٹ اور موسم کی پیش گوئی اور دیگر تفصیلات شامل ہوتی ہیں.

پاکستان میں ہونے والے فضائی حادثات میں عموماً پائلٹ ہی کو حادثات کا ذمہ دار ٹھہرانے کا رواج ہے کیونکہ حادثے میں جان گنوانے کے بعد وہ اپنا دفاع نہیں کرسکتا اس حوالے سے 2012ءمیں ایئر بلیو کے طیارے اور 2013ءمیں بھوجا ایئر لائن کے حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ کا سرسری جائزہ لیتے ہیں. رپورٹ کے مطابق اس حادثے کا ذمہ دار پائلٹ ہی ہے جو صورتحال کا صحیح ادراک نہ کرسکا 28 جولائی 2010ءکو ایئر بلیو فلائٹ ABQ-202 کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے خراب موسم میں حادثے کا شکار ہوئی تھی اس میں 152جانیں حادثے کی نذر ہوئیں 38 صفحات پر مشتمل اس تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کیبن کے اندر کپتان اور فلائیٹ آفیسر کے مابین ہم آہنگی کا فقدان تھا اور کپتان کا رویہ درشت تھا.

کپتان کو معلوم تھا کہ اسی دن پی آئی اے کی ایک اور پرواز PK-356 تین بار کی کوشش کے باوجود لینڈ نہیں کرسکی تھی خراب موسم کے باوجود پائلٹ جہاز کو اسلام آباد ہی میں اتارنے پر بضد تھا اس کوشش میں وہ ایک بار ”نو فلائی زون“ کے قریب بھی آگیا جس پر انہیں جہاز واپس موڑنے کی ہدایت کی گئی جہاز میں خطرات کی نشاندہی والا نظام ٹھیک کام کررہا تھا اور مارگلہ پہاڑوں سے ٹکرانے سے پہلے اس نظام نے 21 مرتبہ وارننگ دی اس کے باوجود پائلٹ اسی سمت میں سیدھا بڑھتا رہا شواہد کے مطابق فلائٹ آفیسر نے بھی 4 بار پائلٹ کو ٹوکا مگر اس نے نہیں سنا اور بالآخر جہاز مارگلہ پہاڑوں سے ٹکرا گیا.

20 اپریل 2012ءکو بھوجا ایئر لائن کا جہاز BHO-213، اسلام آباد ایئر پورٹ کے قریب حادثے کا شکار ہوا، جس میں 121 مسافر سوار تھے جو لقمہ اجل ہوئے‘اس کی رپورٹ بتاتی ہے کہ کپتان نے موسم بتانے والے سسٹم کا جائزہ لیا اور کہا کہ SquallLine پر تو شدید طوفانی بارشیں اور گرج چمک دکھا رہی ہے خطرات سے آگاہ کرنے والا نظام مسلسل وارننگ دے رہا تھا مگر کسی نے پرواہ نہیں .

ان دونوں حادثات کی رپورٹ (اگر یہ حقائق پر مبنی ہیں) کے مطابق کپتان اور فلائٹ آفیسر دونوں میں صورتحال کے صحیح ادراک اور خطرات کو بھانپنے اور درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں تھی‘ان رپورٹس میں حادثے کی ذمہ داری کاک پٹ کے عملے پر ڈالی گئی ہے جہاز کی دیکھ بھال کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ کاک پٹ کے عملے کے معیار، تربیت اور انتخاب کا طریقہ کار بھی جدید معیار کے مطابق ہو.