بیرون ملک پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لانے کا فیصلہ کیا ہے، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا حکومتیں ایس او پیز کے ساتھ سیاحت کا شعبہ کھولیں گی،

ہم یورپ اور چین جیسے لاک ڈائون کے متحمل نہیں ہو سکتے، میں جیسا لاک ڈائون چاہتا تھا ویسا نہیں ہوا، ہمارے ملک میں 25 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے ہیں، کورونا وائرس کی صورتحال کے اثرات ہماری معیشت پر بھی پڑے ہیں، ٹیکس وصولی میں 30 فیصد کمی ہوئی ہے، برآمدات اور ترسیلات زر بھی کم ہو گئی ہیں، سرمایہ کاری بھی رک گئی ہے، آنے والے دنوں میں کورونا نے مزید بڑھنا ہے اور شرح اموات میں بھی اضافہ ہو گا، کورونا وائرس کے اثرات سے بچنے کے لئے ایس او پیز اور احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہئے، ویکسین کی تیاری تک ہمیں کورونا وائرس کے ساتھ رہنا ہو گا وزیراعظم عمران خان کی قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو

پیر 1 جون 2020 23:02

اسلام آباد۔یکم جون (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 01 جون2020ء) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بیرون ملک پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لانے کا فیصلہ کیا ہے، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا حکومتیں ایس او پیز کے ساتھ سیاحت کا شعبہ کھولیں گی، ہم یورپ اور چین جیسے لاک ڈائون کے متحمل نہیں ہو سکتے، میں جیسا لاک ڈائون چاہتا تھا ویسا نہیں ہوا، ہمارے ملک میں 25 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے ہیں، کورونا وائرس کی صورتحال کے اثرات ہماری معیشت پر بھی پڑے ہیں، ٹیکس وصولی میں 30 فیصد کمی ہوئی ہے، برآمدات اور ترسیلات زر بھی کم ہو گئی ہیں، سرمایہ کاری بھی رک گئی ہے، آنے والے دنوں میں کورونا نے مزید بڑھنا ہے اور شرح اموات میں بھی اضافہ ہو گا، کورونا وائرس کے اثرات سے بچنے کے لئے ایس او پیز اور احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے، ویکسین کی تیاری تک ہمیں کورونا وائرس کے ساتھ رہنا ہو گا۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر میں روزانہ کی بنیاد پر اجلاس ہو رہے ہیں، کورونا کی پاکستان میں موجودگی کے فوراً بعد این سی سی کا اجلاس طلب کیا، پاکستان کے حالات چین اور یورپ سے یکسر مختلف ہیں۔پاکستان میں 5کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ان افراد کے اہل خانہ کو بھی ساتھ ملائیں تو یہ 12 سے 15 کروڑ لوگ بن جاتے ہیں، اڑھائی کروڑ ایسے افراد ہیں جو اگر خود نہ کمائیں تو گھر والوں کو کھانا نہیں کھلا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری یہ سوچ تھی کہ لاک ڈائون اگر کیا اور لوگ اکٹھے نہ ہوئے تو کورونا وائرس کا پھیلائو کم ہو سکتا ہے، مکمل لاک ڈائون اس کا علاج نہیں ہے، لوگوں کے زیادہ جمع ہونے سے یہ تیزی سے پھیلتا ہے، سماجی فاصلہ برقرار رکھنے سے بھی کمی آ سکتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ امریکہ، یورپ اور اٹلی میں کورونا وائرس کی وجہ سے ڈاکٹروں اور نرسوں پر دبائو بڑھا، لاک ڈائون کا مقصد یہ تھا کہ کورونا وائرس کا پھیلائو کم سے کم ہو لیکن دیہاڑی دار طبقے کا بھی ہمیں خیال تھا کہ ان کا کیا بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ تحقیق پر پتہ چلا کہ اڑھائی کروڑ افراد دیہاڑی دار ہیں، مکمل اور سخت لاک ڈاؤن کی صورت میں دیہاڑی دار اور غریب افراد زیادہ متاثر ہوتے، جزوی لاک ڈاؤن کا مقصد وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنا تھا، امیر اور غریب افراد کے لیے لاک ڈاؤن کے اثرات مختلف ہیں کیونکہ ملک میں آبادی کا ایک بڑا حصہ کچی آبادیوں میں رہتا ہے اور کراچی میں 30 فیصد کچی آبادیاں ہیں، وہاں اس کے اثرات مختلف ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف امیر لوگ لاک ڈائون کے لئے شور مچا رہے تھے اور دوسری طرف غریب طبقہ تھا جو محلوں میں رہتا ہے، ان میں چھابڑی والے، ٹیکسی والے اور رکشہ ڈرائیور اور دیہاڑی دار شامل ہیں، ہم نے وائرس کا پھیلائو روکنے کے ساتھ ساتھ بھوک و افلاس کو بھی روکنا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ویکسین کے بننے تک کورونا وائرس کا خاتمہ ممکن نہیں لگ رہا، ہمیں کورونا وائرس کے ساتھ ہی رہنا ہو گا، کورونا وائرس سے متاثر غریب افراد اور معیشت کیلئے 8ارب ڈالر کا پیکج دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم یورپ اور چین جیسے لاک ڈائون کے متحمل نہیں ہو سکتے، میں جیسا لاک ڈائون چاہتا تھا ویسا نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے خود فیصلے کر رہے تھے، ڈاکٹرز اور امیر طبقے کا موقف کچھ مختلف تھا، غریب لوگوں کی آواز کوئی سامنے آ رہی تھی، بدقسمتی سے جس طرح کا لاک ڈائون ہوا اس سے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو نقصان ہوا، ہم نے یونیورسٹیاں، سکول اور شادی ہال بند کر دیتے لیکن کاروبار کبھی نہ روکتے کیونکہ ہم نے صورتحال میں توازن پیدا کرنا تھا، جب تک ویکسین نہیں بنے گی کورونا وائرس کا خاتمہ نہیں ہو گا اس کے ساتھ ہی ہم نے رہنا ہے، امریکہ میں ایک لاکھ لوگ کورونا سے مر چکے ہیں اور اب انہوں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ لاک ڈائون اگر ختم نہ کیا تو معیشت کو نقصان ہو گا حالانکہ انہوں نے تین ہزار ارب ڈالر کورونا کا پھیلائو روکنے اور معیشت کے استحکام کے لئے دیئے ہیں، ہم آٹھ ارب ڈالر دے چکے ہیں اور مزید بھی مدد کرنا چاہتے ہیں، امیر ترین ممالک نے بھی لاک ڈائون کھولنے کا فیصلہ کیا ہے حالانکہ یہ سب کو معلوم ہے کہ لاک ڈائون کھلے گا تو یہ وائرس دوبارہ پھیلے گا جس طرح کہ سنگاپور اور جنوبی کوریا میں ہوا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ آنے والے دنوں میں کورونا نے مزید بڑھنا ہے اور افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ شرح اموات میں بھی اضافہ ہو گا تاہم عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور ایس او پیز پر عمل کریں اگر اس طرح نہیں کریں گے تو اپنا نقصان ہو گا اور وائرس پھیلے گا، اس سلسلے میں ایس او پیز ہم دے رہے ہیں، ایک نیگٹیو لسٹ بھی بنائی ہے جدھر خطرہ زیادہ ہے وہاں پر لاک ڈائون کریں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ سیاحت کے شعبے کو اس لئے بھی کھولنا چاہیے کہ اس سے وابستہ افراد کی گرمیوں کے تین چار مہینوں میں آمدنی ہوتی ہے اور اگر لاک ڈائون میں یہ عرصہ گزر گیا تو ان لوگوں کے پاس سردیوں کے لئے کچھ نہیں ہو گا۔ گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا حکومتیں ایس او پیز بنا کرسیاحتی شعبہ کھولیں گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر غربت سے بچنا ہے اور کورونا وائرس کا پھیلائو روکنا ہے تو ہمیں ذمہ دار قوم کے طور پر اپنا فریضہ انجام دینا ہو گا، اس طرح ہسپتالوں پر بھی دبائو نہیں پڑے گا اور معاشرہ بھی کورونا کے اثرات سے محفوظ رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے بھی سخت لاک ڈائون کیا تو غریب افراد کے لئے مسائل پیدا ہوئے، شرح اموات میں بھی اضافہ ہوا، ممبئی کے ہسپتال مریضوں سے بھر گئے جس کے بعد بھارت بھی لاک ڈائون کھولنے پر مجبور ہو گیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ملک اور غریب عوام کی خاطر ایس او پیز پر عمل کرنا چاہیے، ہم نے دس لاکھ کی ٹائیگر فورس بنائی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ لوگوں میں کورونا وائرس سے متعلق لوگوں میں شعور بیدار کرے۔ انہوں نے کہا کہ ذیابیطس، بلند فشار خون والے مریض اور بزرگوں کو کورونا سے زیادہ خطرہ ہے، ابھی بھی شہروں میں 50 فیصد سے زائد وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں اور کہیں اس سے زیادہ بھی ہیں، اس سلسلے میں ہم اپنی تعداد بڑھا رہے ہیں اور وینٹی لیٹرز کی تعداد بھی بڑھائی جائے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ ڈاکٹرزاور طبی عملے کو درپیش مشکلات کا مکمل احساس ہے، ڈاکٹرز اور طبی عملے کے ساتھ الگ سے ملاقات کروں گا، ووہان میں ڈاکٹروں اور نرسوں نے قربانیاں دیں، پہلے سے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی فکر ہے، اٹلی کے وزیراعظم سے بھی بات ہوئی ہے، انہوں نے بھی اپنے طبی عملے کی قربانیوں کی ذکر کیا کیونکہ یہ لوگ فرنٹ لائن پر جہاد کرنے والے ہیں، لاک ڈائون کے حوالے سے بھی ان کے موقف کا علم ہے اور ہم اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کیسے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی مدد کریں، ہم نے نچلے طبقے کی مالی معاونت کی ہے لیکن اور مزید بھی کریں گے لیکن ہمارے حالات ایسے نہیں ہیں کہ اس طرح مستقل طور پر کرتے رہیں، کورونا وائرس کی صورتحال کے اثرات ہماری معیشت پر بھی پڑے ہیں، ٹیکس وصولی میں 30 فیصد کمی ہوئی ہے، برآمدات اور ترسیلات زر بھی کم ہو گئی ہے، سرمایہ کاری بھی رک گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل سے بھی مکمل آگاہ ہوں، ابتداء میں پاکستان میں 80 فیصد کورونا کیسز بیرون ملک سے آئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ صوبوں کو خدشہ تھا کہ باہر سے آنے والے پاکستانیوں سے وائرس مزید پھیلے گا، آج فیصلہ کیا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو واپس لائیں گے، واپس آنے والے پاکستانیوں کا صرف کورونا ٹیسٹ ہو گا اور جن کا ٹیسٹ پازٹیو آیا، وہ گھروں پر قرنطینہ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ دنوں میں بیرون ملک پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لانے کے لئے پروازوں کی تعداد بڑھائیں گے۔ عوام سے کہیں گے کہ وہ احتیاطی تدابیر اور ایس او پیز پر عمل کریں جس سے ہمیں ہسپتالوں پر دبائو کم کرنے اور وائرس کا پھیلائو روکنے میں مدد ملے گی، جن شرائط پر کاروبار کھولا جا رہا ہے ان پر عمل کرنا چاہیے، وفاقی وزیر اسد عمر (آج) منگل کو این سی او سی کے اجلاس کے بعد مزید تفصیلات بیان کریں گے اور روزانہ کی بنیاد پر بھی معلومات عوام کو فراہم کی جائیں گی۔