دُبئی والوں نے ایک بار پھرغیر مُلکیوں کے دل جیت لئے

پولیس نے پارک میں سونے والے درجنوں بے روزگار افراد کو ایئرکنڈیشنڈ رہائش گاہ فراہم کر دی

Muhammad Irfan محمد عرفان بدھ 3 جون 2020 18:24

دُبئی والوں نے ایک بار پھرغیر مُلکیوں کے دل جیت لئے
دُبئی( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 3 جون 2020ء) متحدہ عرب امارت دُنیا بھر کے سیاحوں اور روزگار کے متلاشی افراد کے لیے ایک مثالی مملکت ہے۔ اسی وجہ سے تارکین وطن امارات سے اپنے وطن سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں۔ یہاں رہنے والوں کی آرام اور آسائش کا بہترین خیال رکھا جاتا ہے۔ دُبئی کے حکمران اور پولیس بھی مقامی اور غیر ملکیوں کی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں۔

دُبئی پولیس کی جانب سے ستوا کے علاقے کے ایک پارک میں ٹھکانہ بنانے والے 50افراد کو ائیر کندیشنڈ رہائش گاہ میں منتقل کر دیا۔ پولیس کی جانب سے خلیج ٹائمز کو بتایا گیا کہ ستوا میں افریقی ملک گھانا کے 50 کے قریب افراد نے ٹھکانہ بنا رکھا تھا۔ یہ لوگ کورونا وائرس کی وبا کے بعد ملازمتوں سے محروم ہو گئے تھے، جس کے بعد کرایہ ادا نہ کرنے کے باعث انہیں رہائش گاہوں سے نکال دیا گیا۔

(جاری ہے)

حالات اور بھُوک کے ستائے ان افریقیوں نے ستوا کے ایک پارک میں پناہ لے لی۔ پولیس کو کسی شخص نے تارکین وطن پر پڑنے والی بھاری مصیبت سے آگاہ کیا تو انہیں ایئر کنڈیشنڈ خیموں میں منتقل کر دیا گیا، جہاں یہ تب تک رہ سکتے ہیں جب تک ان کی وطن واپسی کا بندوبست نہیں ہو جاتا۔ اب یہ بے گھر لوگ سکون کی نیند سو سکیں گے، جو کہ اس سخت گرمی کے موسم میں کُھلے مقام پر پناہ لینے کے باعث ان کے لیے ممکن نہ تھا۔

پولیس ترجمان کے مطابق ان تارکین کو جبل علی کے قریب ٹینٹوں میں ٹھہرایا گیا۔ ان بے سہارا افراد کے ملک کے سفارت خانے سے رابطہ کیا گیا ہے جو ان کی وطن واپسی کے انتظامات کر رہا ہے۔ ان افراد کو امارات میں مقیم لوگوں کی جانب سے کھانا بھی فراہم کیا جا رہا ہے جبکہ ایک رضاکار گروپ کی جانب سے انہیں روزمرہ ضرورت کا سامان مہیا کر دیا گیا ہے۔ ان غیر ملکیوں نے دُبئی پولیس اور حکومت کی جانب سے انہیں مصیبت سے نکالنے اور رہائش اور کھانا فراہم کرنے پر بہت شکریہ ادا کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ کچھ روز قبل ایک رضا کار خاتون اسماء نے بتایا تھاکہ اسے ایک غیر ملکی خاتون نے کال کر کے بتایا کہ اس کی سہیلی اور اس کا خاوند کورونا وائرس کا شکار ہو کر ہسپتال پہنچ گئے ہیں۔ جس کے باعث ان کے 6 بچے فلیٹ پر اکیلے رہ گئے ہیں اور بہت پریشان ہیں۔ ان لوگوں کا یہاں پر کوئی اور رشتہ دار بھی نہیں ہے۔ رضاکار اسماء نے پریشانی کے مارے بچوں کے گھر فون کیا تو اسے پتا چلا کہ بڑی بیٹی کی عمر 13 سال ہے جبکہ سب سے چھوٹا بیٹا صرف دو سال کا دودھ پیتا بچہ ہے۔

بچے پریشانی سے رو رہے تھے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ بچوں کے والدین کورونا سے متاثر ہونے کی وجہ سے ہسپتال گئے تھے، ان بچوں میں بھی کورونا کا شُبہ ہو سکتا تھا۔ اس وجہ سے کسی بھی رضاکار کا ان بچوں کے ساتھ رہنا محفوظ نہیں تھا۔ سو ہماری جانب سے ان بچوں سے تھوڑی تھوڑی دیر بعد فون پر رابطہ رکھا گیا، اس کے علاوہ بچوں کو آئی پیڈز بھی فراہم کیے گئے۔

ان بچوں کی حفاظت کے لیے پولیس کی ایک پٹرولنگ ٹیم مسلسل 24 گھنٹوں کے لیے رہائشی بلڈنگ کے باہر تعینات کر دی گئی۔ ہم نے ان بچوں کو حوصلہ دیا کہ وہ گھبرائیں نہیں ، پُرسکون رہیں۔ اپنے آپ کو اکیلا نہ سمجھیں، ہم ان کے ساتھ ہیں اور ان کا ہر وقت خیال رکھ رہے ہیں۔ ہماری جانب سے بچوں کو روزانہ تین وقت کا کھانا ایک ریسٹورنٹ سے خرید کر بھجوایا جاتا رہا۔

اس کے علاوہ ایک کوآپریٹو سٹور سے بھی ان کی ضرورت کا سامان وقتاً فوقتاً بھجوایا گیا۔ دن میں ان کی والدہ بھی ایک بار بچوں کو فون کر کے ان کی خیریت دریافت کرتی۔ بچوں نے ماں کو بتایا کہ ایک رضا کار اسماء ان کا بہت خیال رکھ رہی ہے اور ان سے کئی کئی گھنٹے رابطے میں رہتی ہے۔ یوں 17 دن تک والدین کے صحت یاب ہو کر گھر آنے تک ان بچوں کا خاص خیال رکھا گیا۔

اسماء کی یہ کہانی سُن کر ولی عہد بہت متاثر ہوئے۔ دوسری جانب بچوں کی ماں نے شارجہ نیوز کو بتایا ”ابوظبی پولیس نے 17 روز تک بچوں کو خوراک اور دیگر سامان پہنچایا۔ اس کے علاوہ مجھے بھی ایک نمبر دیا کہ بچوں کو کسی پریشانی کی صورت میں اس پررابطہ کر لیا جائے۔ یہاں تک کہ بچوں کو آئی پیڈز اور انٹرنیٹ کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔ اسماء مجھے کئی بار کال کرتی اور ہر بار بہت حوصلہ دیتی۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار جب میں اس سے فون پر بات کرتے وقت اپنے دو سال کے بچے کے بارے میں فکر مند ہو کر رونے لگی تو اسماء نے مجھے تسلی دے کر کہا ”گھبراؤ نہیں، تم شیخ زاید کے مُلک میں ہو۔“ بچوں کی ماں نے انٹرویو میں جذباتی ہو کر کہا ”میں اور میرا خاندان اس ملک کا قرض نہیں اُتار سکتے۔ ان لوگوں نے ہم سے پردیسیوں کی طرح نہیں، بلکہ اماراتیوں جیسا شاندار برتاؤ کیا ہے۔ “