کراچی چیمبرکی تمام کاروباری اداروں،صنعتوں کی بقا کے لیے ریلیف پیکیج کی اپیل

اگر بروقت ریلیف نہ دیا توکئی کاروبار دیوالیہ ہو جائیں گے، معیشت ڈوب جائے گی،سراج تیلی

جمعرات 4 جون 2020 21:47

کراچی چیمبرکی تمام کاروباری اداروں،صنعتوں کی بقا کے لیے ریلیف پیکیج ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 جون2020ء) بزنس مین گروپ کے چیئرمین ( بی ایم جی ) و سابق صدر کے سی سی آئی سراج قاسم تیلی اور صدر کے سی سی آئی آغا شہاب احمد خان نے وزیراعظم عمران خان، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، مشیر برائے تجارت و سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد اور وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر سے اپیل کی ہے کہ گنے چُنے شعبوں کو ریلیف دینے کی حکمت عملی کے بجائے جس سے مقامی معیشت اور درمیانی و کم آمدنی والے افراد کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا حکومت معیشت کے تمام تر شعبوںکو بلا تفریق ریلیف دے ۔

ایک بیان میں سراج تیلی اور آغا شہاب نے زور دیتے ہوئے کہاکہ کورونا کی وبا کے باعث کاروباری اداروں اور صنعتوں کو خطیر نقصانات کا سامنا ہے اور وہ اپنے کاروبار کی بقا کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

کورونا کی وبا نے کسی بھی کاروبار یا صنعت کو نہیں بخشا لہٰذا ضروری ہے کہ چھوٹے یا بڑے کاروبار کو بلائے طاق رکھ کر تجارت وصنعت کے تمام شعبوں کو ریلیف دینے کا اعلان کیا جائے تاکہ کاروباری ادارے غیرمعمولی بحران اور معاشی دھچکوں سے بچ سکیں۔

انہوں نے کہاکہ اسٹیٹ بینک کا اعلان کردہ ریلیف پیکیج بنیادی طور پر برآمدی سیکٹر یا مخصوص اور درمیانے درجے کے آجروں تک محدود ہے جبکہ ایس ایم ایز اور تقریباً تمام گھریلو صنعتوں اور اکثریت کاروباری اداروں کو اس پیکیج سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔بیشتر کاروباری اداروں اور صنعت کو موجودہ حالات میں اپنی بقا کو قائم رکھنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے اور اگر انہیں بروقت ریلیف نہ دیا گیا تو خدشہ ہے وہ دیوالیہ پن کا اعلان کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

سراج تیلی نے کہاکہ چونکہ پورے کھیل کا انحصار صرف بقاپر ہے لہٰذا حکومت کو وقت ضائع کئے بغیر فوری طور پر ریلیف فراہم کرنا چاہیے بصورت دیگر کاروباری ادارے دیوالیہ ہو جائیں گے اور اس کے نتیجے میں معیشت ڈوب جائے گی۔کارباری اداروں کی بقا کے لیے انہیں ابھی سپورٹ کیا جائے اور حکومت ان سے بعد میں بھی کما سکتی ہے۔کے سی سی آئی کے صدر آغا شہاب نے کہاکہ حکومت کی جانب سے گنے چُنے شعبوں کو ریلیف دینے کی حکمت عملی مقامی صنعت و تجارت کے لیے امتیازی سلوک کے مترادف ہے جو نہ تو کاروبار اور نہ ہی معشیت کے مفاد میں ہے لہٰذا اسے فوری طور پر روکنا ہوگا اور ایک یا دو منتخب شعبوں کی بجائے بغیر وقت ضائع کئے تجارت وصنعت کے تمام شعبوں اور کیٹگریز سمیت سب کو ریلیف دینا ہوگا۔

سراج تیلی اور آغا شہاب نے 300یونٹس سے کم بجلی صارفین کو ریلیف دینے اور پیٹرولیم قیمتوں میں کمی کو سراہتے ہوئے کہاکہ تاجروصنعتکار برادری ان اقدامات کا خیرمقدم کرتی ہے لیکن یہ اب کافی نہیں اور اس کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو پیٹرولیم قیمتوں میں مزید کمی کا اعلان کرنا چاہیے نیز بجلی کے نرخ، سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس ، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور ودہولڈنگ ٹیکس میں بھی 50فیصد کمی کرنے کی ضرورت ہے جس سے پوری قوم کو فوری ریلیف ملے گا۔

انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ دنیا بھر کی طرح معیشت کو بچانے کے لیے اختیار کی گئی حکمت عملی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں بھی شرح سود کو 4 فیصد پر لایا جائے کیونکہ جہان بھر کے کئی ممالک میں یا تو شرح سود صفر ہو چکی ہے اورکہیں منفی بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ پالیسی ریٹ میں ٹکڑوں میں کمی معیشت کو متحرک کرنے کے لیے ناکافی ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کاروباری اداروں کو غیر معمولی بحران سے نکالنے کے لیے ایک ہی بار شرح سود کو کم کر کے 4فیصد پر لایاجائے۔

ان تمام اقدامات سے صنعتوں کو اپنی لاگت کم کرنے میں مدد ملے گی جو کہ وقت کی ضرورت ہے جسسے کیش فلو کی فراہمی اور نوکریاں بچانے میں مدد میں لگی کیونکہ نوکریوں سے فارغ کرنے کے عمل کا پہلے ہی آغاز ہو چکا ہے ۔انہوں نے کچھ کاروباری اداروں اور شعبوں کو ریلیف دیئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ حکومت ملک میں جاری نازک صورتحال میں ان شعبوں سے ریونیو کی شکل میںکچھ حاصل کرپائے گی کیونکہ موجودہ حالات میں چھوٹے تاجر سے لے کربڑے صنعتکار کو اپنی بقا قائم رکھنے کے حوالے سے خطرات لاحق ہیں لہٰذا حکومت محصولات کی طرف توجہ دینا بندکرے اور تمام سطحوں پر ریلیف فراہم کرے جو معیشت اور کاروبار کی بقا کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

انہوں نے کہ اس سال حکومت کو محصولات کو بھولنا ہوگا اور اپنے اخراجات کو کم کرنا ہوگا جو کاروبار کو مکمل تباہی سے بچانے اور عوام کو بے روزگاری، غربت، بھوک و افلاس سے بچانے کا واحد واستہ ہے۔حکومت کو اپنے امور چلانے کے لیے اخراجات کوکم کرتے ہوئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے جبکہ بچائے گئے فنڈز کو کاروباری اداروں کی مدد کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔

سراج تیلی اور آغا شہاب نے مزید تجاویز دیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ غیر دستاویزی معیشت سے وابستہ تمام افراد اور اداروں کو اس یقین دہانی کے ساتھ کسی بھی شعبے میںسرمایہ کاری کرنے کی اجازت دے کہ ان سے سرمائے کے ذرائع کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔اس سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہوگی، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور جی ڈی پی کی ترقی میں بھی نمایاں مدد ملے گی۔

موجودہ غیر معمولی حالات میں جب پوری دنیا کورونا وبا سے جنگ میں مصروف ہے حکومت کو ایف اے ٹی ایف، ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف یا جی 20کی جانب سے کسی قسم کے اعتراضات کا سامنا نہیں کرنے کا امکان نہیں کیونکہ موجودہ غیر معمولی حالات کے پیش نظر یہ تمام ادارے یقینی طور پر اپنی شرائط میں نرمی لائیں گے۔چیئرمین بی ایم جی اور صدر کے سی سی آئی نے امید ظاہر کی کہ حکومت زمینی حقائق اور تجارت و صنعتوں کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے کے سی سی آئی کی اپیل پر ضرور توجہ دے گی اور معیشت، کاروبار اور ہم وطنوںکو مزید کساد بازاری اورپوری آبادی پر پڑنے والے اثرات سے بچانے کے لیے تمام شعبوں کو ریلیف دینے کا اعلان کرے گی۔