ماحولیاتی آلودگی سے پاکستان کو سالانہ 907 ملین ڈالر کا نقصان ہوتاہے

ملک کا صرف 2.19فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے جبکہ عالمی معیار کے مطابق یہ کم ازکم25فیصد ہونا چاہیے ایکوسسٹم خراب ہونے‘اور بارشوں کی کی کمی کی وجہ سے آنے والے دس سالوں میں لاہور پانی کے بغیر شہر ہوگا. ماحولیاتی آلوگی کے عالمی دن پر گروپ ایڈیٹر”اردوپوائنٹ“میاں محمد ندیم کا تحقیقی تجزیہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 5 جون 2020 14:32

ماحولیاتی آلودگی سے پاکستان کو سالانہ 907 ملین ڈالر کا نقصان ہوتاہے
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05 جون۔2020ء) کسی بھی ملک میں 25 فیصد جنگلات کا ہونا لازمی ہے مگر ہمارے ہاں درخت کی نہیں بلکہ اس کی لکڑی کی اہمیت زیادہ ہے، اس لیے ہمارے ہاں جنگلات آہستہ آہستہ ناپید ہو رہے ہیں کسی زمانے میں یہی جنگلات لاکھوں ایکڑ پر محیط تھے مگر اب صرف ہزاروں ایکڑ تک محدود ہو گئے ہیں. اگر درختوں کی کٹائی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو یہی جنگلات کچھ سو ایکڑ تک محدود ہو کر رہ جائیں گے ایک اندازے کے مطابق روس میں 48 فیصد، برازیل میں 58 فیصد، انڈونیشیا میں 47 فیصد، سوئیڈن میں 74 فیصد، اسپین میں 54 فیصد، جاپان میں 67 فیصد، کینیڈا میں 31 فیصد، امریکا میں 30 فیصد، بھارت میں 23 فیصد، بھوٹان میں 72 فیصد اور نیپال میں 39 فیصد جنگلات پائے جاتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں صرف 2.19 فیصد جنگلات ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کتنے ماحول دوست ہیں.  اس کے علاوہ مینگرووز کے جنگلات تقریباً 207000 ہیکٹرز پر ہیں۔

(جاری ہے)

سندھ میں یہ 600000 ہیکٹرز پر مشتمل ہیں، جبکہ محکمہ جنگلات اس وقت 241198 ہیکٹرز تک کچے کی زمین پر اپنا کنٹرول رکھتا ہے ہمارے ملک میں اب جس درخت کو زیادہ اگایا جا رہا ہے وہ کونوکارپس (Conocarpus) ہے یہ یہاں کا مقامی درخت نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق شمالی امریکا سے ہے، جسے محکمہ جنگلات نے درآمد کیا ہے جبکہ مقامی اشجار جن میں نیم، برگد، جامن، اور شیشم شامل ہیں، انہیں بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے.

قدرت کے تحفظ کی عالمی تنظیم آئی یو سی این کے مطابق یہ ایک نمکین درخت ہے، اس کا پتا جہاں بھی گرتا ہے وہاں سیم پیدا کرتا ہے، اسے لوگ دیہی علاقوں میں نہیں اگاتے، اور نہ ہی کوئی پرندہ اس میں گھونسلا بناتا ہے اس کے علاوہ یہ سانس کی الرجی کا بھی سبب بنتا ہے جس سے دمہ ہوتا ہے. زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر ضروری درخت ہے، اس کے بجائے نیم کو زیادہ سے زیادہ اگایا جائے، کیونکہ کونوکارپس دور سے تو ہرا بھرا دکھائی دیتا ہے مگر اس کا طویل مدتی کوئی فائدہ نہیں ہے یہ درخت جلد بڑھ جاتا ہے، اس لیے اسے زیادہ لگایا جاتا ہے مگر یہ ہمارے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا.

جنگ کے ایام میں بھی نبی کریمﷺ سپہ سالاروں کو جو ہدایات فرماتے تھے ان میں ایک درختوں کو نہ کاٹنے کا حکم بھی شامل ہے مگر ہمارے ہاں جس طرح درختوں کا قتل عام کیا گیا اس کی نظیرملنا مشکل ہے دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیاں جس تیزی سے وقوع پذیرہورہی ہیں ہم نے شعوری طور پر ان کی رفتار کو دوگنا کردیا ہے پنجاب اور سندھ میں موسم سرما سکڑکر صرف دوماہ پر محیط ہوکررہ گیا ہے شہروں کے معاملے میں بھی ہم نے انتہائی لاپروائی اور مجرمانہ غفلت برتی ہے ‘شہروں کوبڑھنے سے روکنے کی بجائے حکومت کے ماتحت ادارے اس کار ”خیر“میں نہ صرف شامل ہیں بلکہ پرائیو ٹ ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کو کئی حدود پار کرنے میں ان کی معاونت بھی کی ہے.

لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے)نے علامہ اقبال ٹاﺅن‘جوہرٹاﺅن اور سبزہ زار جیسی سکمیں بناکر لاکھوں ایکٹرزیرکاشت اراضی کو برباد کردیا ان زمینوں پر کھڑے لاکھوں درخت بھی ہوس زر کا ایندھن بن گئے ایل ڈی اے کے بعد نجی شعبہ میں لینڈڈویلپرزنے مانگا منڈی‘قصور‘کالاشاہ کاکو‘شرق پور‘بیدیاں روڈاوررائے ونڈتک وہ تباہی مچائی کہ سینکڑوں مربع کلومیٹرتک زرعی زمینیں اور درختوں کے ذخیرے فنا ہوگئے 1980کی دہائی تک دریائے راوی کے کناروں پر ”بیلے“ہوتے تھے جن کا آج نام ونشان بھی باقی نہیں بچا.

ایک طرف ماحولیات اور جنگلات کے حوالے سے حکومتیں کوئی مربوط پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہیں تو دوسری جانب عوام میں شعور کی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے درختوں کو بیدردی سے کاٹا گیا آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم کنکریٹ کے جنگل میں کھڑے ہوکر سو چ رہے ہیں ہے کہ حل کیا نکالا جائے؟ابھی بھی ہم ”ڈیمج کنٹرول“کرنے کے لیے اقدامات کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے ہمیں سو فیصد عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا.

حکومت کے ماتحت اداروں سمیت تمام لینڈڈویلپرزکو پابند بنایا جائے کہ ہر دوگھروں کے درمیان جگہ پر ایک درخت لازم لگایا جائے اور یہاں درخت سے مراد ہمارے روایتی درخت نیم، برگد، جامن، اور شیشم وغیرہ ہیں اگر ہوسکے تو ملک کی تمام شہری حکومتوں کے ماتحت اداروں اور نجی ڈویلپرزاپنے بائی لازمیں اسے شامل کریں اور اگر گھروں کے مالکان درخت نہ لگائیں تو انہیں بھاری جرمانے کیئے جائیں اگر کورونا کے لیے راتوں رات خصوصی آرڈینس جاری کیے جاسکتے ہیں تو ماحولیات کے لیے خصوصی قانون سازی اور کورونا ایس او پیزکی طرزپر سختی سے عمل درآمد کیوں نہیں کروایا جاسکتا؟ اس ماحولیاتی ایمرجنسی کو صرف زیرتکمیل یا مستقبل میں بننے والی ہاﺅسنگ سکمیوں تک ہی محدود نہ رکھا جائے بلکہ موجودہ سکیموں پر بھی اس کا اطلاق کیا جائے ہاﺅسنگ سکیموں کے چھوٹے ‘بڑے پارکوں میں آرائشی پودوں کی بجائے روایتی درخت لگائے جائیں جبکہ موجودہ پارکوں سے آرائشی پودوں کو مکمل طور پر ختم کرکے وہاں درخت لگائے جائیں.

فیکٹریوں اور کارخانوں کو پابند کیا جائے کہ وہ صنعتی فضلے کو ندی ‘نالوں میں ڈالنے کی بجائے عالمی معیار کے مطابق کارخانوں سے خارج ہونے والے پانی میں سے صنعتی فضلے کو الگ کرنے کے لیے فلٹرنگ پلانٹس لگائیں کیونکہ ملک بھر میں عمومی طور پر اس کا خیال نہیں رکھا جاتا اور پانی میںشامل زہریلے موادنہ صرف ماحول کو بلکہ زمین کو نقصان پہنچا رہے ہیں جس کی وجہ سے ہرسال ہزاروں ایکٹراراضی بنجرہورہی ہے.

اربنائزیشن کی یہ وباءکراچی اور لاہور جیسے شہروں سے نکل کر اب ملتان‘فیصل آباد‘سرگودھا‘ساہیوال‘سکھر‘حیدرآباد وغیرہ میں بھی پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے ہمارا ایکو سسٹم بڑی تیزی متاثرہورہا ہے. اگر آپ لاہور میں رہتے ہیں تو گلہری دکھانے کے لیے آپ کو بچوں کو لیکر باغ جناح یا کسی دوسرے بڑے پارک میں جانا ہوگا‘اسی طرح بہت سارے چرند پرند بھی ناپیدہورہے ہیں کیونکہ درختوں کی اندھا دھند کٹائی سے ان کے گھونسلوں کی جگہیں ہی نہیں بچیں ایک درخت صرف انسانوں کے لیے آکسیجن پیدا کرنے کا ہی کام نہیں کرتا بلکہ سینکڑوں پرندوں کو مسکن بھی فراہم کرتا ہے دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے تازہ اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ 2011 سے 2015 کے دوران پانچ سال دنیا کے گرم ترین سال رہے ہیں.

رپورٹ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ درجہ حرارت کے اضافے میں انسانی سرگرمی کا بہت دخل رہا ہے مطالعے میں یہ پایا گیا ہے کہ فوسل کے جلنے سے شدید گرمی میں اضافے کے امکانات دس گنا یا اس سے زیادہ بڑھ گئے ہیں گرمی میں اضافے کے سبب مشرقی افریقی ممالک میں ان پانچ برسوں کے دوران اڑھائی لاکھ سے زیادہ اضافی اموات ہوئی ہیں جبکہ بھارت اور پاکستان میں گرمی کی لہروں میں 4100 سے زیادہ افراد کی موت ہوئی ہے رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ حرارت کے طویل مدتی اوسط میں 0.57 سینٹی گریڈ کا اضافہ رہا ہے یعنی یہ اضافہ 1961 سے 1990 کے درمیان درجہ حرارت کے اوسط سے زیادہ ہے.

افریقہ کے علاوہ یہ پانچ سال تمام براعظموں کے لیے گرم ترین سال رہے ہیں ان پانچ سالوں کے دوران یورپ کا درجہ حرارت معمول سے ایک سیلسیئس زیاد رہا ہے یہی حال ایشیا کے روسی فیڈریشن علاقے اور سہارا اور خطہ عرب کے زیادہ تر علاقوں، جنوبی افریقہ کے بعض حصوں، امریکہ کے جنوب مغربی علاقوں اور برازیل کے اندرونی حصوں کا رہا ہے جبکہ روس کے آرکٹک ساحل پر یہ اوسط سے تین ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا ہے.

ڈبلیو ایم او کے سیکرٹری جنرل پیٹری ٹالس نے کہا پیرس معاہدے کا ہدف عالمی حدت میں اضافے کو دو ڈگری سینٹی کے نیچے رکھنا ہے اور اس صنعتی دور سے ڈیڑھ سینٹی گریڈ زیادہ رکھنے کی کوشش کرنا ہے رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اوسط درجہ حرارت پہلے ہی ایک ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے. پاکستان کے حوالے سے خوش آئندبات یہ ہے کہ پاکستان ابھی تک ماحولیاتی تبدیلیوں سے دوچار دنیا کے دس بڑے ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہے جس کی وجہ حکومت کے بعض اقدامات ہیں جن سے ماحولیات تبدیلیوں کی رفتار کو کم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کیئے گئے اقدامات شامل ہیںپاکستان ابھی تک عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں سے دوچار ممالک کی فہرست میں 11ویں نمبر پر ہے تاہم یہ بات تشویشناک ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ 907 ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، جو سالانہ جی ڈی پی کا 0.0974 حصہ بنتا ہے.

آنے والے سالوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے دوچار ہونے والے اولین ممالک میں ہنڈراس، میانمار اور ہیٹی بھی شامل ہوں گے، ماحولیاتی تبدیلیوں کا سب سے برا اثر افریقی خطے پر ہوگا، جہاں کے 4 ممالک موزمبیق پہلے، ملاوی دوسرے، گھانا اور مڈغاسکر اس فہرست کا حصہ ہو ں گے گلوبل کلائیمیٹ رسک انڈیکس کی رپورٹ مرتب کرنے والے سونکی کریفٹ کے مطابق گزشتہ 20 سال سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنے والے ممالک میں اکثریت ترقی پذیر ممالک ہیں کیوں کہ یہ ممالک ترقی اور کاروبار کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں پر بہت کم توجہ دیتے ہیں.

انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر نامی عالمی ادارے کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ پاکستان میں مسلسل قدرتی آفات آتی رہتی ہیں، گزشتہ 20سال سے پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے شکار 10 بڑے ممالک میں شمار رہا ہے ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کی آبادی سیلابوں اور گلیشیئرز پگھلنے کی وجہ سے متاثر ہوگی اور اس کا اثر زرعی پیداور پر بھی ہوگا پچھلے 20 سالوں کے دوران پاکستان میں 133 قدرتی آفات آ چکی ہیںکیوں کہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت سے ایسے خطے میں موجود ہے، جہاں آفات آتی رہتی ہیں.

پاکستان اپنے جنگلات کے وجہ سے دنیا میں اہمیت کا حامل ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں قدرتی وسائل کی کوئی قدر نہیں ہے باقی دنیا میں لوگ درخت صرف اور صرف چند ایک مقاصد کے لیے کاٹتے ہیں، اور ان کی جگہ فوراً نئے درخت بھی اگاتے ہیں تاکہ قدرتی سبزہ مکمل طور پر ختم نہ ہوجائے مگر پاکستان میں، خاص کر ہمارے علاقے سوات کوہستان میں، نایاب درختوں کی کٹائی نہ صرف مقامی طور پر ایندھن کے لیے، بلکہ پیسے کمانے کے لیے بھی کی جاتی ہے اور یہ کام زیادہ تر علاقے کے بااثر لوگ ہی کرتے رہتے ہیں.

ٹمبر مافیا ہر سال کروڑوں روپے مالیت کے درخت کاٹ کر اس سے اربوں روپے کا منافع حاصل کرتی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے شمالی علاقوں کا قدرتی حسن متاثر ہو رہا ہے یہاں موجود صدیوں پرانے درخت پیسے کی ہوس میں کاٹے جا چکے ہیں، جبکہ مزید کی کٹائی بھی زور و شور سے جاری ہے ٹمبر مافیا کے اس مذموم دھندے میں مقامی انتظامیہ کے بھی کچھ حلقے ملوث ہیں جو نہ کٹائی روکتے ہیں، اور نہ ہی لکڑی کی علاقے سے باہر اسمگلنگ نتیجہ یہ ہے کہ درختوں کے کٹنے کی وجہ سے یہاں پائے جانے والے انواع و اقسام کے جانور بھی بے گھر ہوتے جا رہے ہیں.

ہمارے پہاڑی اور سرد علاقوں میں قیمتی درختوں کی دشمن نہ صرف ٹمبر مافیا ہے، بلکہ سردیوں میں یہاں کے لوگ ہر سال ہزاروں قیمتی درختوں کو کاٹ کر جلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اب ظاہر ہے جب ان علاقوں میں سردیوں کے دوران گیس اور بجلی نہیں ہوتی، تو پھر یہاں کے لوگوں کے پاس زندہ رہنے کے لیے لکڑیاں جلانے کے علاوہ کیا چارہ ہے؟ سردیوں کے موسم میں اگر آپ کالام یا اس سے اگے کے علاقوں میں جائیں تو آپ حیران ہوں گے کہ یہاں کس رفتار سے درخت کاٹے جاتے ہیں کیونکہ سردیاں گزارنے کے لیے ہر گھر کو کم ازکم ایک ٹرک لکڑی درکار ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ ان علاقوں سے درخت کم ہوتے جا رہے ہیں.

اگر ہمارے علاقوں میں اسی طرح جلانے کی لکڑی کے لیے درختوں کی کٹائی جاری رہی تو کچھ ہی سالوں میں ہم درخت کے نام سے ہی ناواقف ہوجائیں گے ‘یہاں تک وفاقی دارالحکومت اسلام آبادکے گرد گھنے جنگل ہوتے تھے جہا ں آج جنگلات اور پورے پورے پہاڑوں کو کاٹ کر رہائشی کالونیاں اور فام ہاﺅسز بنائے گئے اعلی عدلیہ نے کئی حکم جاری کیئے ہیں مگر طاقتور مافیازکے سامنے حکومتیں‘عدلیہ اور سرکاری مشنری ناکام نظر آتی ہے.

ماحولیاتی اعتبار سے بہتری کے لیے جہاں حکومتوں کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیں وہیں یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے کہ اپنے علاقے اور گھر کے ارد گرد لگائے گئے درختوں کی حفاظت ہم خود کریں ‘ ہماری ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو قیمتی درخت کاٹنے سے روکیں؟ دیہی پس منظررکھنے والے ہماری نسل کے لوگوں کو یاد ہوگا کہ بیس برس پہلے تک جب کنکریٹ کے پہاڑکھڑے کرنے کا چلن اتنا عام نہیں ہوا تھا ہر گھر کے آنگن سے لے کر گاو¿ں کی بیٹھک‘تکیے‘ اور بہتے ہوئے کھالوں کے کناروں پر درخت نظرآتے تھے.

اشجار سے صرف انسانوں کا ناتا نہیں ہوتا، بلکہ یہ تو وہ وسیع دنیا ہے، جو کہ کیڑے مکوڑوں، جانوروں، اور پرندوں کی میراث ہے وقت گزرتا گیا، ہم جوان ہو گئے، درخت بھی جوان ہوگئے، آج درخت لگائے کم اور کاٹے زیادہ جاتے ہیں شہروں کے لوگوں میں شعور نہ ہونے کے برابر ہے کہ وہ چھوٹے آرائشی پودوں کو درختوں کا متبادل سمجھتے ہیں جوکہ غلط سوچ ہے. نیم، ببول، بید مشک اور دوسرے اشجار گاو¿ں‘شاہراﺅں کے کناروں کا حسن ہوا کرتے تھے مگر آج ہمیں سٹرکوں کے کنارے درخت نہیں کنکریٹ سے بنے پلازے نظرآتے ہیں انسان کی ہوس اور لالچ کو کوئی لگام نہیں دے سکتا، اس لیے اسے ہر لمحہ دولت جمع کرنے کی لالچ لگی رہتی ہے.

جنگلات کا کٹا ﺅ ماحول کے آلودہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے اگر جنگلات کے بے دریغ کٹاﺅ کو نہ روکا گیا تو اس دنیا میں بسنے والے تمام لوگوں کی زندگیوں کو موت کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے‘پاکستان میں صرف آزاد کشمیر میں تقریباً 40 فیصد رقبے پرجنگلات موجود ہیں، یہاں سب سے قیمتی درخت وادی نیلم میں پائے جاتے ہیں ان میں دیودار، کائل، فر، بلوط، اخروٹ، چیڑھ اور دیگر کئی اقسام کے قیمتی درخت شامل ہیں.

آزاد کشمیر کے سالانہ بجٹ کا تقریباً 60 فیصد حصہ ان ہی جنگلات سے حاصل ہوتا ہے یہاں سے حاصل ہونے والے پھل، قیمتی جڑی بوٹیاں، ادویاتی پودے، شہد اور دیگر اجناس سے سالانہ کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے جنگلات ماحول کو ٹھنڈا اور خوشگوار بنانے، آکسیجن کی زیادہ مقدار فراہم کرنے اور عمارتی لکڑی حاصل کرنے کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ یہاں انواع و اقسام کے پرندے، جانور اور حشرات الارض بھی پرورش پاتے ہیں.

جنگلات میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیاں، پھل پھول، شہد اور دیگر اشیا انسان کی بہت سی ضروریات پوری کرتی ہیں دنیا بھر میں اس بات کا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ تیز رفتار ترقی کے ساتھ آلودگی کا جو زہر آہستہ آہستہ کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اس سے انسانی زندگی کو سب سے زیادہ خطرہ ہے اور اس کے لئے سب سے اہم عنصر درختوں اور پودوں کی کٹائی ہے،درخت جتنے زیادہ ہوں گے وہاں کی آب و ہوا اتنی ہی صاف و شفاف ہو گی.

قدرت نے ان میں جو اوصاف رکھے ہیں اس کی بدولت یہ فضائی آلودگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں اور جیسے جیسے دنیا ترقی کر رہی ہے ماہرین اس بات کا برملا اعتراف کررہے ہیں کہ صحت مند ماحول کے لئے درخت کی اہمیت بڑھتی چلی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ جن شہروں میں زیادہ آبادی کے ساتھ فیکٹریوں کی بھی بہتات ہے اور وہاں درخت کم ہیں ان علاقوں کے مکینوں کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے اور جن علاقوں میں درختوں کی بہتات ہے وہاں نہ صرف ماحول خوشگوار ہوتا ہے بلکہ اس کے مثبت اثرات انسانی زندگیوں پر بھی پڑتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج درختوں کی اہمیت کے پیش نظر دنیا بھر میں درخت اور پودوں کو لگانے کی مہم چلائی جاتی ہے اور عوام کو اس کی اہمیت سے آگاہ کیا جاتا ہے.

ایک اور رپورٹ میں خوفناک انکشاف کیا گیا ہے کہ ایکو سسٹم میں گڑبڑ ہونے سے بارشیں کم ہوگئی ہے جن کی وجہ سے لاہور جیسے بڑے شہر میں پانی کی قلت جیسے مسائل پیدا ہونے شروع ہوگئے ہیں ماہرین کا کہنا ہے لاہور کا واٹر ٹیبل جس خطرناک حد تک نیچے گیا ہے اس سے اندازے لگائے جارہے ہیں کہ آنے والے دس سالوں میں لاہور پانی کے بغیر شہر ہوگا.