مولانا فضل الرحمن کی بجٹ اجلاس کے دور ان محدود تعداد میں ارکان کی ایوان موجودگی کی شرط کی شدید مخالفت

ہم اسپیکر کے فیصلے اور تمام قواعد و ضوابط کو معطل کرنے کو قبول نہیں کریں گے ،اپوزیشن کو ایوان میں ہونا چاہئے ،فراڈ سے آنے والی حکومت کے ارکان کو نہیں، جس مرض سے بھی مریض فوت ہو جائے کرونا میں ڈال دیا جاتا ہے ،میت کو گھر والوں کے حوالے نہیں کیا جاتا اور بے حرمتی کی جارہی ہے ،جب بندہ مرجائے گا تو کرونا کیسے زندہ رہے گا ،مدارس کے حوالے سے اتحاد تنظیمات المدارس دینیہ حتمی فیصلہ کرے ہم عمل کریں گے ،مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کو ایس او پیز کے تحت کھولا جائے،سٹیل ملز کے ساڑھے نو ہزار لوگوں کو بے روزگار کیا جارہا ہے ،یہ حکومت کی نااہلی کی سب سے بڑی دلیل ہے، سربراہ جے یو آئی کی میڈیا سے گفتگو

بدھ 10 جون 2020 23:46

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 جون2020ء) جے یو آئی (ف) کے سربرا ہ مولانا فضل الرحمن نے بجٹ اجلاس کے دور ان محدود تعداد میں ارکان کی ایوان موجودگی کی شرط کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اسپیکر کے فیصلے اور تمام قواعد و ضوابط کو معطل کرنے کو قبول نہیں کریں گے ،اپوزیشن کو ایوان میں ہونا چاہئے ،فراڈ سے آنے والی حکومت کے ارکان کو نہیں، جس مرض سے بھی مریض فوت ہو جائے کرونا میں ڈال دیا جاتا ہے ،میت کو گھر والوں کے حوالے نہیں کیا جاتا اور بے حرمتی کی جارہی ہے ،جب بندہ مرجائے گا تو کرونا کیسے زندہ رہے گا ،مدارس کے حوالے سے اتحاد تنظیمات المدارس دینیہ حتمی فیصلہ کرے ہم عمل کریں گے ،مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کو ایس او پیز کے تحت کھولا جائے،سٹیل ملز کے ساڑھے نو ہزار لوگوں کو بے روزگار کیا جارہا ہے ،یہ حکومت کی نااہلی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

(جاری ہے)

بدھ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ جے یو آئی کی مرکزی مجلس عاملہ کا دوروزہ اجلاس ختم ہوگیا ہے ،کرونا کی وجہ سے ایک لمبے تعطل کے باعث پہلی پریس کانفرنس کررہا ہوں اور ہم محدود پیمانے پر اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کررہے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ اقتصادی پالیسیاں بین الاقوامی تعلقات بیروزگاری سمیت تمام حوالوں سے ملک دیوالیہ ہوچکا ،بجٹ بنانے میں مشکلات ہیں ۔

انہوںنے کہاکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ بجٹ اجلاس کے لئے تمام قواعد و ضوابط معطل کردیئے گئے ہیں ،ارکان کو محدود پیمانے پر ایوان میں بیٹھنے کی اجازت ہے ،کٹوتی تحریکوں پر ووٹنگ نہیں ہوگی ۔ انہوںنے کہاکہ اپوزیشن کو ایوان میں ہونا چاہئے ،فراڈ سے آنے والی حکومت کے ارکان کو نہیں۔ انہوںنے کہاکہ یہ سب بجٹ کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ہے ،ہم تمام قواعد و ضوابط کو معطل کرنے کو قبول نہیں کریں گے ،ہم سپیکر کے فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے ۔

انہوںنے کہاکہ ایک طرف فی مریض پچیس لاکھ خرچ کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے ،دوسری طرف عوام کو آٹھ دس ہزار روپے کے ٹیسٹ کرانا پڑ رہے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ کرونا کے حوالے سے خوف پیدا کیا جارہا ہے ،خوف تو آپکی قوت مدافعت ختم کررہا ہے ،کرونا سے اموات میں مبالغہ کیا جارہا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ جس مرض سے بھی مریض فوت ہورہے ہیں انہیں کرونا میں ڈال دیا جاتا ہے ،میت کو گھر والوں کے حوالے نہیں کیا جارہا ہے ،تدفین میں بے حرمتی کی جارہی ہے ۔

انہوںنے کہاکہ کوئی بھی جراثیم سونے سے سو جاتا ہے تو مریض کے مرجانے سے کیسے متحرک ہوجاتا ہے ،جب نیند زیادہ لی جاتی ہے تو کرونا بھی سو جاتا ہے جب بندہ مرجائے گا تو وہ کیسے زندہ رہے گا ،ڈاکٹرز بھی یہی کہہ رہے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ بیرون ملک پاکستانیوں کے مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ مساجد و مدارس نے ایس او پی پر عمل کیا حکومت اپنے ایس او پی عمل نہ کراسکی تو نزلہ علما پر گرا دیا ،علماکو گرفتار کیا گیا ،سرکاری اداروں کی چھٹیوں کا دورانیہ جون جولائی اگست کا ہے یہ پہلے بھی اسی دوران چھٹیاں کرتے ہیں ،مدارس کی چھٹیوں کے دورانیہ گزر گیا ہے ،ان کے پاس ایسے مواقع ہیں جو ریاست کو بھی قبول نہ ہوں ،اتحاد تنظیمات المدارس دینیہ حتمی فیصلہ کرے ہم عمل کریں گے ۔

انہوںنے کہاکہ عصری تعلیمی ادارے فیس لے چکے تعلیم نہ ہوئی تو لاکھوں بے روزگار ہوجائیں گے ،مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کو ایس او پیز کے تحت کھولا جائے۔ انہوںنے کہاکہ ملک بھر کے تاجران کے کرب کو بھی سنا جائے ،ہم تاجران کی حمایت کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ چمن بارڈر کو سیل کیا گیا ہے، افغانستان اور ایران کے ساتھ ہمارے کئی تجارتی راستے کھلے ہوئے ہیں ،تفتان اور طورخم کی طرح چمن بارڈر کو بھی کھولا جائے تاکہ تجارتی سرگرمیاں جاری رہ سکیں۔

سربرا ہ جے یو آئی نے کہاکہ سٹیل ملز کے ساڑھے نو ہزار لوگوں کو بے روزگار کیا جارہا ہے یہ حکومت کی نااہلی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ انہوںنے کہاکہ اس حکومت کا ایجنڈا ہی یہ ہے کسی طرح اسرائیل کو تسلیم کیا جائے،عمران کا ایجنڈا ہی یہ ہے کہ یہودی معیشت کا ایجنڈا نافذ کیا جائے مگر حریت پسند انسان یہود کی غلامی کے لیے تیار نہیں ہوگا ،صوفی محمد اور دیگر آئین کو نہ ماننے والوں کو غدار قرار دیا جاتا ہے ،قادیانی طبقہ جو آئین کا انکار کرتاہے، متفقہ طور قرارداد منظور کی گئی جو پہلی متفقہ قرارداد تھی ،حکومت حیلے بہانوں سے قادیانیت کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے ،شدید ترین دباؤ کے بعد حکومت نے اقلیتی کونسل سے قادیانیون کو شامل کرنے سے پیچھے ہٹی۔

انہوںنے کہاکہ ختم نبوت کے خلاف نصابی سازشیں بھی کی گئیں، قوم کو جاگتے رہنا چاہئے ، آئیں کے اندر رہتے ہوئے آئین کے باغیوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے ،معیشت کے حوالے سے جھوٹ بولا جاتا ہے کہ شرح نمو 2 فیصد سے زائد ہے مگر یہ اب منفی میں جارہی ہے ،اس بار گندم، کپاس اور مکئی کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے، پٹرول غائب ہوگیا، حکومتی رٹ ختم ہوچکی ہے ،رہی سہی کسر ٹڈی دل نے پوری کردی ہے، حکومت اعتراف کرے یہ دھاندلی کے ذریعے آئی اور ناکام ہوچکی ہے ،عام آدمی کی مشکلات ہمارے مد نظر ہے، اس حوالے سے اپوزیشن کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے ،افسوس اپوزیشن وہ کردار ادا نہیں کررہی ہیں جس کی توقع قوم کو ان سے تھی۔

مولانافضل الرحمن نے کہاکہ وزیراعظم کے منصب پر بیٹھا شخص ریاست کی نمائندہ ہوتا ہے ،حکومت کا موقف کچھ، سٹیٹ، آئی ایس پی آر کا موقف کچھ اور ہوتا ہے ،وفاق کا موقف کچھ اور صوبہ کا موقف کچھ اور ہوتا ہے ،ریاست کے اجزا کی افراتفری قوم کو کیا پیغام دے رہی ہے۔انہوںنے کہاکہ پڑوسی ممالک کی صورت دیکھتے ہوئے قومی بیانیہ ضروری مگر یہ حکومت انتہائی نااہل ہے ،جو ملکی صورتحال نہیں سنبھال سکتے وہ قومی بیانیہ پر کیسے اتفاق رائے پیدا کرسکتے ہیں، ان ایسی توقع بھی نہیں رکھی جاسکتی