Live Updates

قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ پر بحث پیر کو بھی جاری رہی

پیر 22 جون 2020 22:50

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 جون2020ء) قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ پر بحث پیر کو بھی جاری رہی‘ حکومت سے تعلق رکھنے والے ارکان نے بجٹ کو متوازن اور عوام دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے مشکل حالات میں بہترین بجٹ دیا ہے جس میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا جبکہ اپوزیشن ارکان نے بجٹ پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا‘ اپوزیشن ارکان نے زراعت کے لئے جامع اقدامات اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کا مطالبہ کیا۔

پیر کو قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے مسلم لیگ )ن( کے سینئر رہنما سابق وفاقی وزیر چوہدری برجیس طاہر نے کہا ہے کہ حکومت آئندہ مالی سال کے اخراجات بھی پورے نہیں کر سکے گی،ہم تمام حالات کے باوجود چاہتے ہیں کہ حکومت مدت پوری کرے۔

(جاری ہے)

وفاقی پارلیمانی سیکرٹری خارجہ امور عندلیب عباس نے کہا ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری پاکستان کو دھبہ لگا گئے، انہوں نے اپنے ادوار میں پاکستان کا بیڑا غرق کر دیا تھا، ملک میں صحت کی سہولیات سب کے سامنے ہیں، ہم نے کووڈ 19 کے بعد ملک میں وینٹیلیٹر کی تعداد1600 سے بڑھا کر 6 ہزار تک پہنچا دی، اگر غیر ملکی میڈیا بھی ہمارے بجٹ کی تعریف کر رہا ہے۔

پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ کورونا سے عوام بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، قدرتی آفات میں اپنے عوام کا خیال رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے، حکومت عوام کو حقائق بتائے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن ڈاکٹر عباد اللہ خان نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں گندم اور آٹے کے لئے قطاریں لگ رہی ہیں۔وفاقی پارلیمانی سیکرٹری زین قریشی نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے بجٹ پر کوئی مثبت تجویز نہیں دی گئی،کووڈ 19 پر عالمی ادارہ صحت کی ترجیحات بھی بدل رہی ہیں،عالمی مالیاتی فنڈ نے کورونا وائرس سے دنیا کی معیشت کی تباہ حالی کا اعتراف کیا ہے لیکن ہم نے اس صورتحال میں بھی بہترین بجٹ پیش کیا،پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا‘ بجٹ روشن پاکستان کی امید ہے اور اس سے عوام کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

ڈاکٹر عباد اللہ نے کہا کہ افراط زر کی شرح سے تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔ سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل حل کئے جائیں‘ فضائی کرایوں میں بہت اضافہ ہوا ہے اس مسئلہ کا حل نکالا جانا چاہیے۔ اسی طرح ریکروٹنگ ایجنسیوں کے کاروبار کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ احتساب کا عمل ضروری ہے لیکن یہ سب کا ہونا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ 8786 ارب کا بجٹ ہے۔

گزشتہ سال کے اہداف حاصل نہیں کئے گئے جبکہ نئے مالی سال کے لئے پہلے سے زیادہ ہدف مقرر کئے گئے ہیں۔ ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے 8 اضلاع میں دل کے مریضوں کا مفت علاج کیا جارہا ہے۔ لیور ٹرانسپلانٹ کی سہولت صرف سندھ میں ہے۔ کراچی سے پی پی پی کے ایم این ایز کو ترقیاتی فنڈز نہیں ملے ہیں یہ تعصب ہے۔ رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حالات کے مطابق بہتر بجٹ دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں انٹرنیٹ کی صلاحیت بہتر نہیں‘ وہاں کے طلباء کو آن لائن کلاسز کی سہولت دینی چاہیے۔ وفاقی حکومت بالخصوص وزارت تعلیم اور ٹیلی کام کی وزارت کو اس ضمن میں خصوصی اقدامات کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے لئے سکیمیں تو کافی رکھی گئی ہیں لیکن بیشتر کیری فارورڈ سکیمیں ہیں۔ گوادر کے لئے پندرہ سالوں میں صرف گیارہ ارب روپے جاری کئے گئے ہیں۔

جل جاہو سڑک پر کام ہونا چاہیے۔ زیارت ٹائون کی سکیم پی ایس ڈی پی میں پچھلے چار سال سے ہے لیکن اس پر کام نہیں ہو رہا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اسلم بھوتانی نے کہا کہ سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے بلوچستان کے متعدد علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بند ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن ساجد مہدی نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی زرعی ملک ہے لیکن بجٹ میں زراعت پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔

70 فیصد آبادی زراعت سے منسلک ہے۔ اس شعبے پر توجہ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کے حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی نے کمیٹی بنائی ہے۔ اس کمیٹی نے پچھلے بجٹ میں سو تجاویز دیں تاہم صرف دو کو شامل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک زراعت پر توجہ نہیں دی جاتی اس وقت تک ملک حقیقی معنوں میں ترقی نہیں کر سکتا۔ صنعت کار ٹیکس بچانے کے لئے زرعی زمینیں خریدتے ہیں۔

بنگلہ دیش پاکستان سے کاٹن پانچ روپے فی کلو لیتا ہے اور اسے 500 روپے میں بیچتا ہے۔ پاکستان کو ویلیو ایڈیشن کی طرف جانا چاہیے۔ انہوں نے کھاد کی قیمتوں میں کمی ‘ کسانوں اور کاشتکاروں کے لئے مراعات اور کیڑے مار ادویات کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ بھی کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ گندم کی سرکاری قیمت میں اضافہ کیا جائے۔پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی صالح محمد نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ ہزارہ الیکٹرک کمپنی بھی قائم کی جائے۔

۔ خیبر پختونخواہ پولیس کی تنخواہ بھی پنجاب پولیس کے برابر کی جائے۔ ملک میں یکساں نظام تعلیم قائم کیا جائے۔ عالیہ کامران نے کہا کہ ٹڈی دل سے پاکستان کے 40 اضلاع متاثر ہوئے جن میں 33 بلوچستان سے ہیں۔ ٹڈی دل کے لئے بیرونی امداد میں بلوچستان کو اس کا حصہ دیا جائے۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی علی نواز اعوان نے کہا ہے کہ پاکستانی معیشت مکمل لاک ڈائون کی متحمل نہیں ہو سکتی،پاکستان میں 25 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں‘ وہ لاک ڈائون کیسے برداشت کر سکتے ہیں،اپوزیشن کورونا کے حوالے سے تنقید میں اس کا حل بتائے،ماضی میں پی ائی اے ،سٹیل ملز جیسے اداروں کی لوٹ سیل لگائی گئی۔

پیپلز پارٹی کے رکن خورشید احمد جونیجو نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ کے اعداد و شمار میں فرق ہے۔تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبہ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ کاٹن اور گنے کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ ٹڈی دل نے ملک میں نقصان کیا۔ سندھ میں صرف 400 ایکڑ پر سپرے ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاق کا استحکام اہمیت کا حامل ہے۔

اس وقت اٹھارہویں ترمیم کو چھیڑنے سے گریز کیا جائے۔ اس سے نقصان ہوگا۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شیخ راشد شفیق نے کہا ہے کہ راولپنڈی کو میٹرو بس کی نہیں بلکہ ہسپتالوں کی ضرورت تھی،جڑواں شہروں کے لئے تربیلا ڈیم سے پانی کی ترسیل کے لئے اراضی کے حصول کے لئے ساڑھے تین ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،لئی ایکسپریس وے کو عملی شکل دی جا رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے اقلیتی رکن ڈاکٹر درشن نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں عوام کے لئے صحت‘ تعلیم اور روزگار کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ ہم نے قرضے لئے ہیں لیکن ہم نے کام بھی کیا ہے۔ 11 ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کی گئی۔ گوادر کا منصوبہ بنایا ملک میں شاہرات اور موٹرویز کا جال بچھا دیا گیا ڈاکٹر درشن نے کہا کہ بابائے قوم کی ہدایات کے مطابق اقلیتوں کے مسائل حل کئے جائیں۔

تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی راجہ خرم شہزاد نواز نے کہا ہے کہ لندن اور سوئس بنکوں میں پڑا پاکستانی قوم کا پیسہ واپس لایا جائے، این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کی طرح اسلام آباد کا بھی حصہ ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی سیف الرحمان خان نے کہا کہ وباء کے دنوں میں وزیراعظم کی مشاورت سے مناسب اور متوازن بجٹ دیا گیا ہے۔ یہ ایک مشکل کام تھا لیکن وزیراعظم نے اسے ممکن کر دکھایا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم چندہ مانگ رہے ہیں بھتہ نہیں‘ آپ کی طرح بھتہ نہیں لے رہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی سندھ کو 80 سے 90 فیصد اور ملکی سطح پر 60 فیصد ریونیو دیتا ہے تاہم کراچی کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ این اے 242 کراچی کا گیٹ وے ہے۔ ہم سمندر کے کنارے بیٹھ کر بھی پیاسے ہیں۔ کراچی کا پانی ایک بزنس ٹائیکون کو بیچا گیا ہے اور شہری بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔

کراچی میں آٹھ آٹھ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ حکومت سندھ ڈیڑھ سالوں سے میرے حلقے میں ہسپتال اور کالج کے لئے اراضی فراہم نہیں کر رہی۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ممالک پھنسے پاکستانیوں کے لئے خصوصی طور پر اقدامات کئے جائیں۔ پیپلز پارٹی کے رکن احسان الرحمان مزاری نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کو سنجیدہ لینا چاہیے تھا۔

سرحدوں کو کھولنے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک سال قبل اس ایوان میں ٹڈی دل کے مسئلہ کی نشاندہی کی گئی تھی آج ملک میں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین ٹڈی دل کی زد میں ہے۔ بجٹ میں زراعت کے لئے جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ افراط زر کی شرح سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا جائے۔ ۔ انہوں نے اپنے حلقہ ضلع کشمور میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل کے حل کا مطالبہ کیا۔

ضلع مہمند ایجنسی سے رکن قومی اسمبلی ساجد خان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال بجٹ میں سابق فاٹا کے لئے 56 ارب اور صوبائی حکومت نے 184 ارب کا وعدہ کیا ہے۔ ہمارا سندھ اور پنجاب کی حکومتوں سے مطالبہ ہے کہ ہمارے لئے این ایف سی میں تین فیصد حصہ مختص کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ صوبائی حکومت سابق فاٹا کے اضلاع کی ترقی کے لئے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مہمند میں گورسل بارڈر کو کھولنا چاہیے تاکہ لوگوں کو روزگار فراہم کیا جاسکے۔ انہوں نے سابق فاٹا کے علاقوں میں تھری جی اور فور جی سروس کی بحالی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس سے طلباء کو آن لائن پڑھائی میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا میں صحت‘ تعلیم اور ترقی ضروری ہے کیونکہ اس سے ان علاقوں میں پائیدار امن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

سابق فاٹا کی پسماندگی دور کرنے کے لئے صوبے اور یہ مقدس ایوان اپنا کردار ادا کرے۔ رکن قومی اسمبلی محمد جمال الدین نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سابق فاٹا کے لئے پی ایس ڈی پی کے فنڈز جاری کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں سابق فاٹا کی ترقی کے لئے 48 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو کم ہیں۔ وزیرستان میں شہریوں کے مسائل ابھی تک حل نہیں ہو سکے ہیں۔

ان کو مکانات کے معاوضے نہیں مل سکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سابق فاٹا کے ساتھ جو وعدے کئے گئے تھے وہ پورے کئے جائیں۔ لیویز کے لئے بیس ہزار نفری کا وعدہ پورا کیا جائے۔ تحریک انصاف کے رکن آفتاب جہانگیر نے ہا کہ مشکل حالات میں بجٹ دیا گیا ہے۔ این ایف سی کے تحت صوبوں کا حصہ زیادہ ہے اس لئے وفاقی بجٹ سے صوبائی بجٹوں کا زیادہ جائزہ لینا چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ سندھ میں اگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کی بجائے یہ رقم سندھ کے اضلاع پر لگا دی جاتی تو اس سے زیادہ فائدہ ہوتا۔ میرے حلقے میں ہسپتال تک پہنچنے کے لئے 42 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ سندھ میں کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ضروری ہے اس سے روزگار کی فراہمی میں شفافیت آئے گی۔ کراچی میں 30 سالوں میں قبضہ اور چائنہ کٹنگ پر جے آئی ٹی بننی چاہیے۔

جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سابق فاٹا کے لئے فنڈز کی فراہمی کا مسئلہ حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سابق فاٹا میں آپریشن کے دوران جو نقصانات ہوئے ہیں بجٹ میں ان کے ازالہ کے لئے کچھ نہیں ہے۔ سابق فاٹا میں سمال ڈیمز اور تکنیکی اداروں کو کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے سابق پولیٹیکل ایجنٹس کے احتساب اور یوٹیلٹی سٹورز کے قیام کا مطالبہ بھی کیا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیرستان میں زرعی ترقیاتی بنک کی شاخ کھولی جائے۔ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کو ٹڈی دل کے خاتمے کے لئے کام کرنا چاہیے۔ وانا میں کھاد کی فراہمی بند ہے اسے کھولا جائے کیونکہ اس سے کسانوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ آ ئی ڈی پیز کے لئے بجٹ میں فنڈز مختص کئے جائیں۔ انہوں نے وزیرستان کے چلغوزوں کی تجارت اور کاروبار میں سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا۔

کراچی سے رکن قومی اسمبلی عطاء اللہ خان نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ متوازن بجٹ پر حکومت تعریف کی مستحق ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے وہ کچھ کر دکھایا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں ایک ٹینکر 15 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ پی پی پی کے ایم این ایز نے عزیر بلوچ کی سرپرستی کی ہے۔ ڈاکٹر شازیہ صوبیہ نے کہا کہ خورشید شاہ کا پروڈکشن آرڈر جاری ہونا چاہیے۔

بجٹ نے عوام کو حیران کردیا ہے۔ گزشتہ بجٹ کے اہداف حاصل نہیں ہوئے۔ رکن قومی اسمبلی عظمیٰ ریاض نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ مشکل حالات میں مشکل مگر متوازن بجٹ دیا گیا ہے۔ بجٹ میں عوام کی صحت اور تعلیم پر توجہ دی گئی ہے۔ حکومت نے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا۔ بجٹ خسارہ کم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفاع وفاق کے ذمہ ہے جبکہ صحت اور تعلیم صوبائی سبجیکٹ ہیں۔

اس لئے صحت اور تعلیم کا دفاع سے موازنہ درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی اصلاحات اور ایرا کے لئے بجٹ میں فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے ہزارہ میں طالبات کے لئے علیحدہ یونیورسٹی کے قیام اور قراقرم ہائی وے کو تجاوزات سے پاک کرنے کے لئے اقدامات اور شملہ انٹرچینج کے مسئلہ کو جلد از جلد حل کرنے کا مطالبہ کیا۔رکن اسمبلی کرن ڈار نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بیماریوں پر سیاست سے گریز کرنا چاہیے۔

۔ ۔ انہوں نے کہا کہ ٹیوشن فیس میں 20 فیصد کمی کے ضمن میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ مہنگائی کے خاتمے کے لئے اقدامات اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیاجائے۔ تحریک انصاف کے رکن شیر اکبر نے کہا کہ بجٹ متوازن ‘ عوام دوست‘ مزدور دوست اور کسان دوست ہے۔ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے حکومت کوشش کر رہی ہے۔

کرپشن فری پاکستان اور بدانتظامی کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے۔ وزیراعظم عمران خان اس ضمن میں سخت محنت کر رہے ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ ریاست مدینہ کی طرز پر پاکستان کی تشکیل سے ہمارے مسائل حل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمباکو ہمارے صوبہ کی اہم فصل ہے۔ گزشتہ سال اس پر 300 روپے ایف ای ڈی کی تجویز دی گئی جسے ایف بی آر نے 500 روپے فی کلو کیا تاہم سپیکر کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے ان تجاویز کو ختم کیا اور اس بجٹ میں اسے ڈیوٹی کی شرح دس روپے فی کلو مقرر کی گئی ہے۔

میں اس پر حکومت کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے سوات‘ مردان‘ صوابی اور ہزارہ سرکل کو ملا کر پورے سیکشن کو ملا کر پیسکو کے علاوہ دوسری کمپنی بنائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملائیشیا‘ امارات اور سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد وباء کی وجہ سے بیروزگار ہو چکی ہے۔ حکومت سے مطالبہ ہے کہ ان پاکستانیوں کو گوادر میں پلاٹ دیئے جائیں اور انہیں گوادر کی ترقی کے لئے بروئے کار لایا جائے۔

پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی رضا ربانی کھر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ نئے مالی سال کے بجٹ میں حالات کے مطابق منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ۔ اسی طرح ٹڈی دل کے تدارک کے لئے اقدامات تسلی بخش نہیں ہیں۔ انہوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے اور بیروزگاری کے خاتمے کے لئے اقدامات کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے مظفرگڑھ میں یونیورسٹی کیمپس کے قیام کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس ضمن میں ہم اراضی دینے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے ایم این ایز کو یکساں ترقیاتی فنڈز دینے کا بھی مطالبہ کیا۔ رکن اسمبلی نصرت واحد نے کہا کہ مشکل حالات میں بہترین بجٹ ہے۔ کورونا نے عالمی معیشت کو متاثر کیا ہے۔ حکومت نے کم وسائل میں بجٹ دیا ہے۔ حکومت نے تعمیرات سمیت اہم شعبوں کے لئے مراعات دی ہیں جس سے عام آدمی کو فائدہ پہنچے گا۔

کورونا اور دیگر آفات سے نمٹنے کے لئے حکومت نے 70 ارب روپے مختص کرکے اپنی سنجیدگی دکھائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹڈی دل سے نقصان ہوا ہے اور بجٹ میں اس حوالے سے اقدامات قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے 1.3 ٹریلین روپے غریبوں کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ یہ غریب پرور بجٹ ہے۔ بجٹ میں سرکاری اخراجات میں کمی کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

ذوالفقار بچانی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ چینی‘ آٹا‘ پٹرول‘ ٹڈی دل اور دیگر مسائل حل طلب ہیں۔ ایک سال قبل اس ایوان میں ٹڈی دل کی نشاندہی کی گئی تھی تاہم اس حوالے سے موثر اقدامات نہیں کئے گئے جس سے ملک میں زراعت کو نقصان پہنچا ہے۔ رکن قومی اسمبلی ملک انور تاج نے کہا کہ وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت بحران کا شکار ہے۔ پاکستان بھی اس سے متاثر ہے۔

اس صورتحال میں متوازن بجٹ پیش کیا گیا ہے جس میں عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ وباء سے قبل حکومت کی کارکردگی لائق تحسین تھی۔ تجارتی خسارہ اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ میں کمی لائی گئی۔ ایف بی آر کی وصولیوں میں اضافہ ہوا۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی گئی۔ ایوب خان کے بعد پہلی بار پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر کا دوبارہ آغاز ہوا ہے۔

مہمند ‘ بھاشا اور داسو ڈیم پر کام جاری ہے۔ انہوں نے مہمند ڈیم منصوبہ پر کام کرنے والی کمپنیوں میں مقامی افراد کو ترجیح دینے کا مطالبہ کیا۔ رکن اسمبلی میاں شفیق احمد نے کہا کہ ان کے حلقہ کے لئے 13 ارب کی منظوری پر وہ وزیراعظم عمران خان اور وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے مشکور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالات کے مطابق بجٹ اگر اچھا نہیں تو برا بھی نہیں ہے۔

یہ متوازن بجٹ ہے۔ ماضی میں جتنے بھی بجٹ پیش ہوئے ان پر تنقید ہوتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1994ء میں پہلے آئی پی پی پر دستخط سے ملک کو بریکیں لگیں۔ 13 برسوں میں 13 ہزار ملین آئی پی پیز کے کھاتے میں ملک کو نقصان ہوا ہے۔ یہ سلسلہ 2030ء تک جاری رہے گا۔ حکومت کو اس پر سوچنا چاہیے اور آئی پی پیز سے بات کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں کاشتکاروں کے قرضہ جات پر سود کو معاف کیا جائے۔

معیاری بیجوں کی فراہمی اور زراعت میں تحقیق کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں۔ واٹر سپلائی سکیموں کے لئے ٹیرف میں کمی لائی جائے۔ رکن قومی اسمبلی فوزیہ بہرام نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت کا یہ دوسرا بجٹ ہے۔ بجٹ میں عوام کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھا گیا ہے۔ حکومت نے معاشی مینجمنٹ کے لئے کام شروع کیا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سابق حکومتوں کی پالیسیاں ہیں۔ حکومت شرح نمو میں اضافہ کے لئے کام کر رہی ہے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے کرپشن کے خاتمہ کے لئے عملی کام کیا۔ ماضی کے قرضوں کی ادائیگی کا عمل جاری ہے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات