میری کسی سے دشمنی نہیں ، نہ کسی سے بدلہ لینا چاہتا ہوں‘ جب تک لیڈر شپ کا احتساب نہیں ہوگا ملک آگے نہیں بڑھ سکتا‘

امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ کشمیر کا مسئلہ پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گیا ہے‘ بار بار کہا گیا کہ حکومت کورونا وائرس کے حوالہ سے کنفیوژن کا شکارہے ، اگرپوری دنیا میں کہیں اس حوالہ سے کنفیوژن نہیں تھی تو وہ ہماری حکومت کی تھی۔ میرے ایک بیان کا حوالہ دیں جس میں کنفیوژن ہو،لاک ڈائون سے نچلاطبقہ بے روزگارہو جاتا ہے ، حکومت نے زرعی شعبے کو مکمل طورپرکام کرنے کی اجازت دیدی کیونکہ 22کروڑ آبادی کی غذائی ضروریات کا بھی خیال رکھنا ہے،حکومت کو ایک بڑے طبقے کی مدد کا بھی احساس ہے جو بے روزگارہوکرگھروں میں بیٹھا ہے، یومیہ مزدور ، چھابڑی فروش ، چھوٹے دکاندار، رکشہ چلانے والے ، تعمیرات کے شعبہ میں پینٹرز ، ویلڈرز، وہ یومیہ مزدورجو سارادن محنت مزدوری کرکے شام کو اپنے بیوی بچوں کو کھانا دیتاتھا یہ سب لوگ متاثر ہوگئے ہیں، ایسے لوگوں کیلئے ہم نے احساس پروگرام میں معاونت دینے کا فیصلہ کیا جو تاریخ میں سماجی تحفظ کا سب سے بڑا پروگرام ہے، میرٹ اور لیڈر شپ کا احتساب جمہوریت کے بنیادی اصول ہیں‘ ملک میں صحیح معنوں میں احتساب کا عمل نہ چلا تو ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے،ٹڈی دل کے خاتمہ کیلئے حکومت اپنی بھرپورکوشش کررہی ہے وزیراعظم عمران خان کا قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے دوران خطاب

جمعرات 25 جون 2020 23:27

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 جون2020ء) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میری کسی سے دشمنی نہیں ، نہ کسی سے بدلہ لینا چاہتا ہوں‘ جب تک لیڈر شپ کا احتساب نہیں ہوگا ملک آگے نہیں بڑھ سکتا‘ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ کشمیر کا مسئلہ پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گیا ہے‘ میرٹ اور لیڈر شپ کا احتساب جمہوریت کے بنیادی اصول ہیں‘ ملک میں صحیح معنوں میں احتساب کا عمل نہ چلا تو ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔

جمعرات کو قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے دوران اپنے خطاب میں وزیراعظم نے کوروناوائرس کی وباء سے نمٹنے کیلئے حکومتی اقدامات اورپالیسی، معیشت کی صورتحال، خارجہ محاذ پرپاکستان کی کامیابیوں کا تفصیل سے ذکرکیا۔

(جاری ہے)

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ٹڈی دل کے خاتمہ کیلئے حکومت اپنی بھرپورکوشش کررہی ہے، اس حوالہ سے 31 جنوری سے ایمرجنسی ڈیکلیئر کی گئی ہے۔

حکومت نے این ڈی ایم اے کو پورے اختیارات دیئے ہیں اوران سے کہاہے کہ جتنے اخراجات کر سکتے ہیں کریں، حکومت فنڈز فراہم کرے گی کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ٹڈی دل سے پاکستان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس دوران ملک میں کورونا آگیا جس کی وجہ سے ٹڈی دل سے نمٹنے کیلئے بعض سپلائز میں مسئلہ آیا لیکن کئی چیزیں ہمارے ہاتھ میں تھیں۔ٹڈی دل افریقہ سے آیا‘ ہم پاکستان میں اپنا کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ایران اورپڑوسی ممالک کا ہم کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ اس ٹڈی دل کا پیٹرن ہوتا ہے۔

پوری قوم مل کر اس آفت کا مقابلہ کرے گی۔وزیراعظم نے کورونا وائرس کی وباء سے نمٹنے کیلئے حکومتی پالیسیوں اوراقدامات کادفاع کرتے ہوئے کہاکہ جو لوگ ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دے رہے ہیں انہیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ ہمارے اوران کے حالات میں بہت فرق ہے۔ نیوزی لینڈ میں پہلے سے سوشل ڈسٹنسنگ ہے۔ پاکستان میں کچی آبادیاں اور غریب بستیاں ہیں جہاں ایک اوردوکمروں کے مکانوں میں 8 سے لیکر10 افراد رہ رہے ہیں۔

میرا روزاول سے یہی موقف رہاہے کہ ہم باقی ممالک سے مختلف ہیں۔ ہم نے لوگوں کو کورونا اور غربت دونوں سے بچانا ہے۔اس ضمن میں مجھ پر تنقید ہوئی۔ کابینہ کے بعض ارکان نے بھی کہا کہ سخت لاک ڈائون کرنا چاہیے۔وزیراعظم نے کہاکہ کوروناوائرس کی وباکے حوالہ سے ہرملک اپنا پنا تجربہ کررہاتھا، بھارت نے سخت لاک ڈائون کیا اس کے نتیجہ میں لاکھوں افراد غربت کی لکیرسے نیچے چلے گئے ہیں،کل نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ بھارت میں 34 فیصد لوگ شدید غربت میں چلے گئے۔

لاک ڈاون سے ہزاروں لاکھوں لوگ سڑکوں پر مر گئے اوریہ اسی لاک ڈاون کا نتیجہ ہے جس طرح کا ہمیں کہا جارہا تھا ‘ آج بھارت میں مریضوں کی تعداد ہم سے زیادہ ہے۔ انگلینڈ نے پہلے لاک ڈاون کیا اوراب معیشت کو کھول رہاہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ بار بار کہا جارہا ہے کہ حکومت کورونا وائرس کے حوالہ سے کنفیوژن کا شکارہے ، میں بتانا چاہتا ہوں کہ اگرپوری دنیاء میں کہیں اس حوالہ سے کنفیوژن نہیں تھی تو وہ ہماری حکومت کی تھی۔

میرے ایک بیان کا حوالہ دیں جس میں کنفیوژن ہو۔ میں نے مسلسل کہا کہ اگر وسائل ہیں تو کرفیو بھی لگائی جاسکتی ہے لیکن ہمارے حالات ایسے نہیں تھے ہم نے اپنے لوگوں کو بھی بچانا تھااورمعیشت کوبھی چلانا تھا تاکہ غریب اورمزدورطبقہ کو مشکلات کا سامنانہ کرنا پڑے۔ وزیراعظم نے کہاکہ حکومت نے این سی او سی میں جو ٹیم بنائی ہے وہ بہتر انداز میں کام کررہی ہے۔

میں ٹیم کے تمام ارکان اوراس میں شامل اداروں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں، این سی اوسی میں یومیہ بنیادوں پر ڈیٹا کلیکشن ہوتی ہے۔رحجانات کاجائزہ لیاجاتاہے۔ صوبوں کے ساتھ رابطہ کاری ہوتی تھی۔ ہمارے پاس ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر اور آئی سی یو بیڈز کا ڈیٹا نہیں تھا۔ این سی او سی نے ڈیٹا اکٹھا کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اپنے مخصوص حالات اور دستیاب ڈیٹا کی بنیادپر ہمارے فیصلوں میں تضاد نہیں آیا۔

وزیراعظم نے کہاکہ معیشت کو کھولنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ ہم نے پہلے تعمیرات کا شعبہ کھولا۔ آج پوری دنیا میں کہا جارہا ہے کہ مکمل لاک ڈاون سے نقصان ہو رہا ہے۔ امریکہ بھی کہہ رہا ہے کہ کورونا کی وجہ سے مکمل لاک ڈاون سے زیادہ نقصان ہورہاہے حالانکہ امریکا کی معیشت بہت طاقتورہے۔وزیراعظم نے کہاکہ سب سے پہلے ہم نے سمارٹ لاک ڈاون کی پالیسی بنائی۔

یہ این سی او سی کا کمال ہے جس سے پور ے ملک فائدہ ہوا ہے ، معیشت کھولنے کے بعدکا اگلا مرحلہ مشکل ہے۔ ہم سب نے مل کر عوام کو سمجھانا ہے کہ ایس او پیز پر عملدرآمد کتنا ضروری ہے۔ جو بھی فیکٹری یا ٹرانسپورٹ کھولتا ہے تو وہاں حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔ اگر احتیاط نہیں کریں گے تومرض کے پھیلائومیں اضافہ ہوگا اوراس سے اسپتالوں پر بوجھ بڑھے گا۔

ہم سب پر لازم ہے کہ اپنے طور پر لوگوں می یہ شعورپھیلائے کہ ہمیں اپنے بوڑھوں‘ بیمار لوگوں‘ بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مریضوں کو کس طرح اس بیماری سے بچانا ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو کمزور قوت مدافعت کے افراد کو نشانہ بناتاہے۔وزیراعظم نے کہاکہ ہمارے پاس دو راستے ہیں اگر ہم احتیاط کرگئے تو ہمارا صحت کا نظام برداشت کرے گا لیکن اگر بے احتیاطی کی گئی تو اسپتالوں پربوجھ میں اضافہ ہوگا، ہم نے ایس اوپیز کے حوالہ سے ٹائیگر فورس کو ذمہ داریاں دی ہیں۔

این سی او سی ہا ٹ سپاٹ کی نشاندہی کررہاہے۔ اگر ایک ماہ احتیاط کریں گے تو اس مسئلے سے نکل جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کہاجارہاہے کہ حکومت کورونا کے پیچھے چھپ گئی ہے جو حقیقت نہیں ہے۔ آج آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ وباء سے دنیا کی اکانومی کو بارہ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ برطانیہ کی جی ڈی پی منفی 20 فیصد ہوگئی ہے ، یہ سو سال میں بڑا اقتصادی بحران ہے۔

کئی صنعتیں بند ہوئیں۔ صنعت اورسیاحت کساد بازاری کا شکار ہے اور آگے بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جب ہم حکومت میں آئے توہمیں سوئٹزرلینڈ کی معیشت نہیں بلکہ بری معیشت ورثہ میں ملی۔اس وقت حسابات جاریہ کاخسارہ 20 ارب ڈالر تھا۔ کسی ملک کی اقتصادی حالت کی صحت کا اندازہ ڈالروں کی آمدورفت سے لگایا جاتا ہے۔ برآمدات 20 اور درآمدات 60 ارب ڈالر پر چلی گئیں۔

اس سے ایکسچینج ریٹ پرفرق پڑا اور مہنگائی ہوئی۔ حکومت نے بروقت اقدامات کئے اور روپیہ کی قدر میں استحکام آیا۔ یہ سب ہمیں ورثہ میں ملا تھا۔ 2013ء میں 16 ہزارارب روپے قرضہ تھا جو 2018 ء میں 30 ہزار ارب پرپہنچا۔ پہلا سال ان کے قرضوں کی ادائیگی میں گزرا۔ زرمبادلہ کے ذخائر دس ارب ڈالر کی سطح پر تھے۔ ہمیں بیرونی ادائیگی کے لئے مشکلات کا سامنا تھا۔

ہم اپنے دوستوں کے پاس گئے کہ ہماری مدد کریں۔وزیراعظم نے کہاکہ وہ ملک کے سب سے بڑے فنڈر ریزر رہے ہیں۔ اپنے ملک کے لئے فنڈز جمع کرکے اپنے ہسپتالوں‘ سیلاب زلزلہ زدگان کے لئے پیسے مانگتے ہوئے شرم محسوس نہیں کی۔ لیکن جب دوسر ے ملکوں کے پاس جاتے ہوئے ہمیں تو شرم آئی۔ ہم تین ماہ میں کبھی ایک اور کبھی دوسرے ملک جاکرپیسے اکھٹے کرتے رہے ، یہ ہماری وجہ سے نہیں تھا۔

وزیراعظم باپ کی طرح ہوتا ہے، قوم اس کے بچے ہوتے ہیں۔ اگر بچے بھوکے ہوں تو کیا میں بادشاہ رہوں گا یا اپنے اخراجات کم کروں گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان کے دورہ امریکہ پر 67 ہزار ڈالر کاخرچہ آیا ا۔ نواز شریف تین لاکھ 70 ہزارڈالر ‘ آصف زرداری 7 لاکھ 52 ہزارزار ڈالرخرچ کئے ، یو اے ای وزٹ پر آّصف زرداری نے تیرہ لاکھ ڈالر‘ نواز شریف نے 11 لاکھ ڈالر شاہد خاقان عباسی نے 7 لاکھ ڈالرخرچ کئے ، وہی دورہ میں نے ایک لاکھ 62 ہزار ڈالر میں کیا۔

ڈیووس آصف زرداری نے 486 ہزار‘ نوازشریف نے 762 ہزار ڈالر‘ شاہدخاقان نے 561 ہزار ڈالر اورمیرے اسی دورے کے اخراجات 68 ہزار ڈالر اخراجات آئے ، وزیراعظم نے کہاکہ دس سالوں میں قرضہ چھ ہزار سے 30 ہزارڈالر پر چلاگیا۔ کیا ان کو پتہ نہیں تھا کہ بوجھ پڑرہاہے ، ہم انے اخراجات میں کمی پرتوجہ مرکوزکی ، میں نے وزیراعظم ہائوس کے سٹاف میں کمی کی‘ اخراجات میں کمی گئی اس میں مزید کمی کی گنجائش ہے لیکن ہم سٹاف کو بیروزگار نہیں کرنا چاہتے۔

وزیراعظم نے کہاکہ جب معاشی مشکلات میں ہوں تو حکمران کی ذمہ داری ہے کہ وہ کفایت شعاری سے کام لیں ، جب ہم حکومت میں آئے تو حکومت سٹیٹ بنک کی چھ ٹریلین کی مقروض تھی۔حکومت نے اس قرضہ کوختم کیا اورسٹیٹ بینک سے قرضہ نہ لینے کی پالیسی بنائی۔یہ بات بھی اہم ہے کہ ماضی میں 70 فیصد قرضے مختصر مدت کے لئے گئے تھے جس پرشرح سودزیادہ ہے۔ ہم نے طویل المیعاد قرضوں کی پالیسی اپنائی ، حکومت کو 1.2 ٹریلین گردشی قرضہ ورثہ میں ملا، بجلی کے سارے کنٹریکٹس گزشتہ حکومتوں کے تھے۔

مہنگی بجلی پیدا کرکے سستی بیچی گئی اور مہنگی ایل این جی منگوائی گئی۔ اس بوجھ کے ساتھ ہمیں پاکستان ملا تھا اوراب جواب بھی ہم سے مانگا جارہاہے، جواب انہیں دینا چاہئیے جنہوں نے ملک کو اس حالت میں پہنچایا تھا۔ وزیراعظم نے کہاکہ موجودہ حکومت نے حسابات جاریہ کاخسارہ 20 ارب ڈالر سے کم کرکے 3 ارب ڈالرکردیا۔ پرائمری بیلنس برابرہوگیاہے، یہ سب اس لئے ممکن ہوا کیونکہ ہم نے اپنے اخراجات کم کئے، وفاقی حکومت کے اخراجات میں کمی لائی گئی۔

دوسالوں سے مسلح افواج کے بجٹ میں حقیقی معنوں میں اضافہ نہیں ہواہے۔ معاشرے کے غریب اورکمزورطبقات کیلئے احساس پروگرام شروع کیاگیا، اس مشکل وقت میں بھی اس پروگرام کیلئے 208 ارب روپے سے زائد کے فنڈز مختص کردئیے گئے ہیں، ٹیکس وصولیوں میں 17 فیصد اضافہ ہواہے، نان ٹیکس ریونیومیں ریکارڈ اضافہ ہوا، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں دوگنا، ترسیلات زرمیں تین فیصد، برآمدات میں بھی اضافہ کا رحجان تھا، پاکستان کی عالمی ریٹنگ میں بہتری آئی ہے، اب تک موجودہ حکومت نے ماضی کے قرضوں کی مد میں 5 ہزارارب روپے کی ادائیگی کی ہے جو حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔

وزیراعظم نے کہاکہ وباء سے بالخصوص ملک کے شمالی علاقوں کے لوگوں کی آمدنی پرفرق پڑا ہے جن کا انحصار زیادہ سیاحت کے تین چارماہ پرہوتا ہے ، ہماری کوشش ہے کہ ایس اوپیز کے ساتھ سیاحت کوکھولا جائے، حکومت نے تعمیرات کا شعبہ کھول دیا ہے، اس شعبہ کیلئے تاریخی مراعات دی گئی ہیں ، غریب لوگوں کو گھروں کی تعمیر کیلئے قرضوں میں رعایت کی مد میں 30 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، زراعت کیلئے 50 ارب روپے کے فنڈز مختص ہیں ، کھادوں پرسبسڈی اورپانی کے مسائل پرکام ہورہاہے، ہماری ساری توجہ تعمیرات اورزراعت کو فروغ دینا ہے ، معیاری بیجوں کیلئے چین سے معاونت لی جارہی ہے، مشکل حالات کے باوجود پی ایس ڈی پی میں کمی نہیں کی گئی کیونکہ ہم چاہتے ہیں کی تعمیروترقی کی سرگرمیوں سے لوگوں کوروزگارکے مواقع مل سکے۔

وزیراعظم نے کہاکہ جب تک جب تک ہم برآمدات کو نہیں بڑھائیں گے اپنی معیشت کو آگے نہیں لے جاسکے ، اس ضمن میں خام مال پر ہزاروں ٹیرف لائنز میں سہولت دی گئی ہے۔ دنیا ایکسپورٹ لیڈ گروتھ سے آگے بڑھی ہے۔ جب تک اسے ترجیح نہیں دیں گے ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ وزیراعظم نے کہاکہ احساس سب سے اہم پروگرام ہے۔ امیر غریب کے درمیان فرق ہمیں آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔

اس پروگرام کے تحت 144 ارب روپے کی کیش امداد دی گئی ہے۔ ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کو شفافیت سے پیسہ پہنچانا بڑی کامیابی ہے۔ ہم اس کو توسیع دے رہے ہیں۔ یہ ہم ایک کروڑ 60 ہزار خاندانوں تک لے کر جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلاحی ریاست ہمارا ویژن ہے۔ اب تک 200 پناہ گاہیں بنا چکے ہیں۔ ہمارا ارادہ ہے کہ جہاں بھی مزدور ہوں گے وہاں پناہ گاہیں بنائی جائیں۔

اس کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلائیں گے۔ ایک کروڑ خاندانوں کو انصاف کارڈ پہنچا رہے ہیں۔ کے پی حکومت نے سارے نچلے طبقات کو انصاف اور احساس کارڈ دینے کا فیصلہ کیاہے۔ صحت انصاف کارڈ کے تحت دس لاکھ روپے تک علاج کی سہولت دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا اور بلوچستان میں ترقی نہیں ہوئی۔ ہم فاٹا اور بلوچستان کو ریکارڈ فنڈز دے رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ چاروں صوبوں نے این ایف سی کے تحت تین فیصد دینے کا وعدہ کیا تھا۔ میں چاروں صوبوں سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے وعدے کی پاسداری کریں۔ وزیراعظم نے کہاکہ بھارت پوری کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان میں عدم استحکام ہو۔ ہندوستان میں آج ایک انتہا پسند حکومت ہے جو پاکستان کو سبق سکھا نا چاہتا ہے ، سابق فاٹا میں بھارت کی کوششوں کوناکام بنانے کیلئے ہمیں ان علاقوں کو توجہ دینا ہوگی ، وہاں سے ہمیں خطرہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ صوبے اپنی زبان پر عمل کریں اوراین ایف سی مین تین فیصد کوٹہ مختص کرنے کیلئے اقدامات کرتے۔

وزیراعظم نے کہا کہ شفقت محمود کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے وہ کام کئے جن پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ انہوں نے پاکستان کے اندر تین مختلف نظام ہائے تعلیم کے خاتمہ کے لئے سنجیدہ کوشش کی اور پہلی بار مارچ 2021ء میں یکساں نصاب سارے پاکستان میں لاگو ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس حکومت کی سب سے بڑی کامیابی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہے۔

جب کوئی ملک کسی کا دہشتگردی کی جنگ میں ساتھ دے اور پھر بھی اسے برا بھلا کہا جائے، انہوں نے کہا کہ امریکیوں نے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد آپریشن میں مارا، اس کے بعد پاکستان میں ڈرون حملے شروع کئے گئے۔ ایک امریکی سینیٹر کارل نے جب اپنی حکومت سے پوچھا کہ پاکستانی حکومت اگر ڈرون حملوں کی مذمت کرتی ہے تو پھر یہ کیوں کئے جاتے ہیں۔ تو انہوں نے اپنے سینیٹر کو جواب دیا کہ یہ ان کی مرضی سے ہوتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ اب امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر ہو چکے ہیں اور ہم نے ان سے کہہ دیا ہے کہ ہم کسی جنگ میں شرکت نہیں کریں گے صرف امن کے لئے ان کا ساتھ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کیونکہ ہم مسائل کا حل سیاسی انداز میں نکالنے پر یقین رکھتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اب ہمیں امریکہ میں ذلیل نہیں کیا جاتا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ہمیں ہمیشہ عزت دی ہے اور وہ ہم سے درخواست کرتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں ہماری مدد کرے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان میں قیام امن کے لئے کردار سب تسلیم کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے سعودی عرب سے بہت اچھے اور برادرانہ تعلقات ہیں اور ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے۔ ہم دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران دونوں ممالک نے ہم سے اس کے لئے کہا بھی ہے۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔

مسائل کا حل بات چیت سے ہی نکل سکتا ہے۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں غربت کم کرنی ہے تو یہ تجارت بڑھا کر ہی کی جاسکتی ہے۔ بھارت کی طرف سے ہمیشہ تکبر کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے۔ پھر بھارت کے الیکشن آگئے۔ ہم نے کہا کہ الیکشن گزر جائیں مگر اس کے بعد پلوامہ کا واقعہ ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقابلہ ایک فاشسٹ ہندو ازم نظریے کے ساتھ ہے۔

میں نے اقوام متحدہ میں جاکر تمام عالمی لیڈروں سے ملاقاتیں کیں اور سب پر واضح کیا کہ یہ آدمی صرف مسلمانوں پر نہیں پوری بھارتی قوم پر عذاب ہے۔ کیونکہ یہ نارمل آدمی نہیں ہے۔ ہم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا اور انہیں آر ایس ایس کے حوالے سے بتایا کہ کس طرح انہوں نے تباہی مچائی اور سیکولر ازم کا خاتمہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم اقوام متحدہ سے واپس آئے تو یہاں کنٹینر والا معاملہ شروع ہوگیا اور مسئلہ کشمیر پیچھے چلا گیا۔ ہم مسئلہ کشمیر کو آگے لے کر جانا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ اب پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گیا ہے۔ بھارت نے بندوق کے زور پر 80 لاکھ کشمیریوں کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ کوئی بھی قوم ایک وژن کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔

پاکستان بھی ایک نظریہ کے تحت وجود میں آیا۔ ہم جب اسلامی فلاحی ریاست کی بات کرتے ہیں تو ہمیشہ مدینہ کی ریاست کی طرف دیکھتے ہیں۔ ہمارا وژن ہے کہ ہم نے پاکستان کی ریاست کو مدینہ کی ریاست کے اصولوں پر کھڑا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی مدینہ کی ریاست کے اصولوں پر چلے گا وہ ریاست ترقی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ ہمارے سب سے اچھے تعلقات ہیں۔

ہم چین سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ چین نے وہ کیا جو مدینہ کی ریاست میں ہوتا تھا۔ نبی پاک ﷺ نے ہمیشہ کمزور طبقات کو اوپر اٹھایا۔ چین نے بھی اس کی تقلید کرتے ہوئے 70 کروڑ سے زائد کمزور طبقات کو اوپر اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست کا بنیادی اصول میرٹ تھا۔ مدینہ کی ریاست کے قیام کے گیارہ بارہ سالوں کے دوران ہی پہلی سپر پاور بازنٹین اور دوسری پرشین سپر پاور گر گئیں۔

ہمیں اپنے بچوں کو سکولوں اور یونیورسٹیوں میں یہ پڑھانا چاہیے کہ مدینہ کی ریاست کیسے اور کن اصولوں کے تحت قائم ہوئی۔ اس کے لئے ہمیں نبی پاک ﷺ کی سنت اور قرآن حکیم کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ میرٹ مدینہ کی ریاست کا بنیادی اصول تھا۔ جو بھی اچھا کرتا تھا وہ ترقی کرتا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان کیوں پیچھے رہ گئے اور یورپ کیوں آگے چلا گیا۔ اس کی وجہ مسلمانوں کا بادشاہی نظام تھا۔

بادشاہی نظام میں میرٹ اور احتساب نہیں ہوتا۔ مغل شہزادوں میں اہلیت نہیں تھی۔ مختلف محلاتی سازشیں ہوتی رہتی تھیں۔ جس کی وجہ سے اہل لوگ پیچھے رہ جاتے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں میرٹ اور لیڈر شپ کا احتساب ہوتا ہے۔ مدینہ کی ریاست میں قانون کی حکمرانی کا اصول تھا۔ اور کوئی بھی معاشرہ قانون کی بالادستی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ حکمران بھی جوابدہ تھے۔

ایک عام آدمی بھی اٹھ کر حضرت عمر ؓ سے پوچھ سکتا تھا۔ مسلمانوں کے پاس بے انتہا وسائل ہیں مگر قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپ میں جمہوریت کا سفر شروع ہی اس لئے ہوا کہ وہ بادشاہ کو قانون کے تابع لانا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حکمران طبقہ ملک سے پیسہ چوری کرکے باہر بھجواتا ہے۔ میری کسی سے ذاتی لڑائی نہیں ہے۔

اس ایوان میں مجھے پہلے دن یہاں تقریر نہیں کرنے دی گئی۔ میری کسی سے دشمنی نہیں ہے۔ اگر پاکستان میں صحیح معنوں میں احتساب کا عمل نہ چلا تو ہم کبھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں دنیا کے قیمتی پتھروں کے چوتھے پانچویں بڑے ذخائر ہیں جو چوری ہو کر باہر جارہے ہیں۔ ریکوڈک میں پاکستان کو 190 ارب کا جرمانہ ہو۔ اگر یہ معاف نہ ہوتا تو ہمارے لئے یہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی کسی پر مقدمہ بنتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سیاسی انتقامی کارروائی ہو رہی ہے۔ مجھ پر سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن میں چھ مقدمات بنائے گئے۔ میں نے تو کسی پر یہ الزام نہیں لگایا کہ مجھے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ساری دنیا کو پتہ ہے کہ لندن میں میرا فلیٹ تھا جو بطور کرکٹر میں نے بنایا۔ بیوی نے جو پیسے دیئے اس کے بارے میں بھی باز پرس کی گئی۔

میں نے ساری منی ٹریل پیش کی۔ میں نے کوئی کمال نہیں کیا۔ لیڈر کو جواب دینا پڑتا ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی مجھے گالیاں پڑتی ہیں کہ عمران خان یہ کر رہا ہے وہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ پارلیمنٹ چلے، یہاں بحث ہی نہیں ہو سکتی۔ جب بھی بات ہوتی ہے نیب نیازی گٹھ جوڑ کی بات چیت کی جاتی ہے۔ حالانکہ نیب کا ادارہ میں نے نہیں بنایا۔

انہوں نے کہا کہ کرپشن کا اولین مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جو پیسہ ملک میں انسانی ترقی پر خرچ کرنا ہوتا ہے وہ خرچ نہیں ہو سکتا۔ قومی دولت باہر چلی جاتی ہے اور ملک کی ضروریات کے لئے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے جب ہم نے پوچھا تو ہمیں بتایا گیا کہ چینی کی قیمت کا تعین شوگر ملز ایسوسی ایشن کرتی ہے۔

چار سالوں میں انہوں نے 29 ارب روپے کی سبسڈی لی اور ساری شوگر ملز نے صرف نو ارب روپے کا ٹیکس دیا۔ شوگر ملز نے کسانوں سے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سازباز کرکے 180 روپے من کی بجائے 140 روپے من کے حساب سے گنا خریدا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ چینی کی ایکسپورٹ پر ریبیٹ لیا جارہا ہے۔ ستر فیصد چینی افغانستان جارہی ہے۔ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ افغانستان میں بھی صرف تھوڑی سی چینی جارہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس سارے عمل میں مسابقتی کمیشن ‘ ایس ای سی پی اور ایف بی آر سمیت تمام ادارے آپس میں ملے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن سے کہنا چاہتا ہوں کہ میری کوئی کسی سے دشمنی نہیں ہے نہ کسی سے بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ جب تک لیڈر شپ کا احتساب نہیں ہوگا ملک بنانا ریپبلک کی طرح آگے نہیں بڑھے گا۔وزیراعظم نے کہاکہ لاک ڈائون سے نچلاطبقہ بے روزگارہو جاتا ہے ، یہ طبقہ پہلے سے مشکل میں ہے ،ہمیں متوازن طرزعمل اپنانا ہے، حکومت نے زرعی شعبے کو مکمل طورپرکام کرنے کی اجازت دیدی کیونکہ 22کروڑ آبادی کی غذائی ضروریات کا بھی خیال رکھنا ہے،حکومت کو ایک بڑے طبقے کی مدد کا بھی احساس ہے جو بے روزگارہوکرگھروں میں بیٹھا ہے، یومیہ مزدور ، چھابڑی فروش ، چھوٹے دکاندار، رکشہ چلانے والے ، تعمیرات کے شعبہ میں پینٹرز ، ویلڈرز، وہ یومیہ مزدورجو سارادن محنت مزدوری کرکے شام کو اپنے بیوی بچوں کو کھانا دیتاتھا یہ سب لوگ متاثر ہوگئے ہیں۔

ایسے لوگوں کیلئے ہم نے احساس پروگرام میں معاونت دینے کا فیصلہ کیا جو تاریخ میں سماجی تحفظ کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری معیشت مشکل میں پھنس گئی ہے، ایسے میں اپنے لوگوں کوغربت سے بچانا ہماری ترجیح ہے،ہماری پہلی کوشش یہ ہے کہ ان تک پہنچا جائے، احساس پروگرام کے ذریعہ ان طبقات کو نقد امداد کی فراہمی کی گئی۔اسی طرح معیشت کو بھی بتدریخ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔