Live Updates

-بلوچستان اسمبلی اجلاس

ؔبجٹ کا نہ سر ہے نہ پیر کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم ہوتا ہے کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا،میر اکبر مینگل ۵موجودہ دور حکومت میں ترقیاتی عمل میں اپوزیشن کے حلقوں کو نظر انداز بھی کیا جارہا ہے،نواب اسلم خان رئیسانی 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ملنے والے اختیارات کو کم کرنے کی سازشیں ہورہی ہے،ثناء بلوچ

جمعہ 26 جون 2020 23:05

صُکوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 جون2020ء) بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت شروع ہوا ۔ بی این پی کے رکن میر اکبر مینگل نے بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کا نہ سر ہے نہ پیر کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم ہوتا ہے کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا سندھ نے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا لیکن بلوچستان جو پسماندہ بھی ہے اور ہمارے لوگ صحت ، تعلیم ، خوراک اور دیگر ضروریات مانگتے ہیں صحت کی سہولیات تو درکنار یہاں تو حالت یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں پینا ڈول کی گولی تک دستیاب نہیں صرف سات فیصد بچے میٹرک تک تعلیم حاصل کرپاتے ہیں ٹڈی دل سے صوبے میں غربت میں مزید اضافہ ہوگا لائیوسٹاک کو بجٹ میں بالکل توجہ نہیں دی گئی جبکہ زرعی شعبے کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے اور کوئی خاطرخواہ پالیسی نظر نہیں آتی انہوںنے کہا کہ بجٹ میں وڈھ سمیت صوبے کے اکثریتی علاقوں کو بالکل ہی نظر انداز کیا گیا ہے اگر لسبیلہ میں سڑکوں کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لئے خطیر رقم رکھی جاتی ہے تو کیا وڈھ اور باقی علاقوں میں سڑکوں کی ضرورت نہیں ۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہا کہ بجٹ میں خسارہ صوبے کی تاریخ کا سب سے زیادہ خسارہ ہے اس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا انہوںنے کورونا کے تدارک کے حوالے سے حکومتی اقدامات کو ناکافی اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی عدم توجہی ہی کی وجہ سے آج یہ وباء گھر گھر تک پہنچ چکی ہے اور عوام کی صحت و سلامتی دائو پر لگی ہوئی ہے حکومت کی ترجیحات اسلام آباد تک محدود ہیں نوا ب اسلم خان رئیسانی نے کہا کہ 1988ء میں پہلی دفعہ جب میں بلوچستان اسمبلی کا رکن منتخب ہو کر آیا تو اس وقت قائد ایوان نواب اکبرخان بگٹی تھے اس دور میں حزب اختلاف کے حلقوں میں مداخلت نہیں ہوتی تھی انہوںنے کبھی بلوچستان نیشنل الائنس کے اراکین کو اپوزیشن سے زیادہ فنڈز نہیں دیئے مگراب موجودہ دور حکومت میں ترقیاتی عمل میں اپوزیشن کے حلقوں کو نظر انداز بھی کیا جارہا ہے اور ان کے حلقوں میں مداخلت بھی ہورہی ہے انہوںنے کہا کہ احتجاج پر بیٹھے ہوئے اپوزیشن اراکین کے پاس جب حکومتی کمیٹی کے اراکین مذاکرات کے لئے آئے تو ہم نے ان کے سامنے دو باتیں رکھیں کہ ہمارے حلقوں میں بے جا مداخلت بند اور پی ایس ڈی پی میں اپوزیشن اراکین کو حکومتی اراکین کے برابر فنڈز دیئے جائیں مگر ہماری یہ باتیں جام کمال کے پلے نہیں پڑیں ۔

گزشتہ اجلاس میں ہم نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ ایوان میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں لیکن ان کی سنجدگی کا عالم یہ ہے کہ وہ آج بھی ایوان میں موجود نہیں ۔ انہوںنے کہا کہ ایک ہوتا ہے بے کار بجٹ بلوچستان کے اگلے مالی سال کا بجٹ ’’ بہترین بے کار ‘‘ بجٹ ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عوام سے مینڈیٹ لے کر آنے والے اراکین اسمبلی سے ترقیاتی عمل کے لئے تجاویز لی جاتیں اور عوامی نمائندے جو تجاویز دیتے ان پر عمل ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا اور اپوزیشن کے حلقوں میں ہارے ہوئے لوگوں کو زیادہ فنڈز دیئے گئے ہیں۔

انہوںنے کہا کہ اپوزیشن کے حلقوں کیا بلوچستان عوامی پارٹی نے تومیرے خاندان میں بھی مداخلت کرتے ہوئے میرے بھائی کو انتخابات میں میرے خلاف کھڑا کیا اور سٹیبلشمنٹ نے اسے میرے گھر کے سامنے الیکشن مہم کے لئے سرکاری عمارت بطور دفتر الاٹ کرکے ہم بھائیوں کو آپس میں لڑانے کی سازش کی گئی تاہم اللہ کو کچھ اور منظور تھا اور میرا بھائی 400افراد کے ساتھ شہید ہوگئے ۔

سابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ مکھی اور مکڑی کے لئے تو کمیشن بنایا جاتا ہے لیکن باپ پارٹی نے آج تک درینگڑھ واقعے کی تحقیقات کے لئے کوئی جوڈیشل انکوائری نہیں کرائی انہوںنے کہا کہ مجھے کہا گیا کہ دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے ۔انہوںنے کہا کہ ہم نے ہمیشہ فیڈریشن کی حمایت کی ہے یہ ایک کثیر القومی فیڈریشن ہے 70سالوں سے کتنے آئین بنے آج تک ان پر کوئی عملدر نہیں ہوا۔

آج این ایف سی ایوارڈ اوراٹھارہویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں جو آئین کی خلاف ورزی ہے فیڈریشن کو چلانے کے لئے یہاں بسنے والے لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے غداری کے ٹھپے لگانے بند کئے جائیںقومی اکائیوں کو ان کے حقوق دینے سے فیڈریشن مضبوط ہوگی ۔ انہوںنے کہا کہ 1987ء میں ہم پر جو حملہ ہوا وہ ٹارگٹ کلنگ تھی جس میں گھات لگا کر ہم پر حملہ کیا گیا، انہوںنے کہا کہ ہمارے گھر کو بلڈوز کیاگیا اورآج بھی جب میں اپنے علاقے کانک جاتا ہوں تو وہاں موجود چیک پوسٹ پر میری شناخت پوچھی جاتی ہے ۔

ان حرکتوں سے فطری بات ہے کہ لوگ ناراض ہوں گے ۔ انہوںنے کہا کہ طاقت کے ذریعے لوگوں کو دبایا نہیں جاسکتا ۔ سوویت یونین اور امریکہ کی مثالیں ہمارے سامنے جو کئی گناہ زیادہ طاقت رکھتے تھے ۔ انہوںنے کہا کہ رئیسانی اور بگٹی کے درمیان پیش آنے والے واقعے کے بعد جب ہمارے اور بگٹی قبیلے کے لوگ پیشیوں پر جاتے تھے تو واپسی پر تین چار لوگوں کی لاشیں آتی تھیں اس دوران مجھے نواب اکبر خان بگٹی کا پیغام ملا کہ اور ہم نے فیصلہ کیا کہ آج کے بعد ہمارے لوگ پیشیوں پر نہیں جائیں گے تو ہمارے لوگوں کے قتل کے واقعات بند ہوئے انہوںنے کہا کہ ہمیں مل کرٹارگٹ کلرز کا محاسبہ کرنا ہے ۔

اگر ان لوگوں کو آزاد چھوڑا گیا تو کل کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں رہے گی صوبے میں بارہ تیرہ سالوں سے لوگ لاپتہ ہورہے ہیں بلوچستان کے اندرونی سیکورٹی پر ساٹھ ستر ارب روپے خرچ کئے جارہے ہیں جس میں مسلسل اضافہ بھی ہورہا ہے آئندہ چند سالوں میں یہ رقم سوارب تک پہنچ جائے گی جس کا صوبہ متحمل نہیں ہوسکتا اس کے لئے بھی سوچنے کی ضرورت ہے انہوںنے کہا کہ23مارچ1940ء میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کنونشن میں منظور ہونے والی قرار داد اور محمد علی جناح اور خان آف قلات کے مابین ہونے والے معاہدے کو آئین کا حصہ بنایا جائے انہوںنے کہا کہ1973ء کا آئین حرف آخر نہیں ملک کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے ، کرنسی ، دفاع اور خارجہ امور وفاق اپنے پاس رکھتے ہوئے دیگر تمام اختیارات صوبوں کو منتقل کرکے قومی اکائیوں کو مضبوط کرے انہوںنے کہا کہ میں نے اپنے دور حکومت میں پرویز مشرف کے ختم کئے گئے قاضی عدالتوں اور لیویز نظام کو دوبارہ بحال کرکے پرویز مشرف کی باقیات کو ختم کیا پرویز مشرف ایک غاصب حکمران تھا میرے دور وزارت اعلیٰ میں وہ جب کوئٹہ آرہے تھے میں نے انہیں منع کیا لیکن میرے منع کرنے کے باوجود وہ بلوچستان آیا تو میں نے اسے ریسیو نہیں کیا ہاں البتہ جمہوریت کی بات کرنے والی پیپلزپارٹی اورکابینہ اراکین نے انہیں ریسیو بھی کیا اور ان کے ساتھ ڈنر بھی کیا ۔

انہوںنے کہا کہ میں نے اپنے دورحکومت میں سرمائی دارالحکومت قرار دیا کیونکہ مجھے خدشہ تھا کہ گوادر کو ہم سے چھین لیا جائے گا تاہم میرے بعد آنے والی حکومتوںنے ایک دن بھی گوادر میں ٹھہرنا گوارا نہیں کیا ہم نے گوادر کی اراضیوں سے قبضہ چھڑایا ہم نے ہمیشہ فیڈریشن کی مضبوطی کی بات کی اور ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان مضبوط ہو ۔ انہوںنے کہا کہ کوئٹہ میں پانی کی قلت ہے جبکہ حکومت نے پچاس کروڑ روپے ٹف ٹائل پرلگادیئے بلوچستان کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے ان کا خاتمہ صرف جام کمال یا کسی ایک فرد کے بس کی بات نہیں اس کے لئے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس کے لئے سیاسی قیادت ، مفکر، دانشوروں اور تمام مکاتب فکر کو متحد ہو کر مشترکہ جدوجہد کرنی ہوگی ۔

انہوںنے بی این پی کے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ بی این پی اور تحریک انصاف کے مابین ہونے والے چھ نکاتی معاہدے پر حکومت کی قائم کردہ مذاکراتی کمیٹی کے ممبران اسد عمر اور پرویز خٹک آخری روز تک بی این پی قیادت سے جھوٹ بولتے رہے ۔انہوںنے کہا کہ بی این پی نے اچھا کیا کہ متنازعہ بننے کی بجائے حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کی وزیر لائیو سٹاک مٹھا خان کاکڑ نے اپوزیشن کے موقف سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ خود اپوزیشن اراکین کو بھی پتہ ہے کہ ماضی میں اگر پچاس کروڑ کا منصوبہ آتا تھا تو بمشکل ایک کروڑ ہی خرچ ہوپاتا جبکہ موجودہ حکومت میں ایسا کچھ نہیں حکومت صوبے کے تمام علاقوں اور تمام اراکین کے حلقوں پر توجہ دے رہی ہے موجودہ حکومت اٹھائے گئے اقدامات کے نتائج پانچ سال کے بعد آنا شروع ہوں گے جتنا ترقیاتی کام موجودہ دور حکومت میں ہوا ہے اور ہورہا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا جن اپوزیشن اراکین کو موجودہ بجٹ میں فنڈز کم ملے ہیں وہ اطمینان رکھیں آئندہ بجٹ میں ان کے فنڈز میں اضافہ کیا جائے گا ۔

انہوںنے کہا کہ حکومت نے کورونا کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کے باوجود ایک تاریخی اور عوام دوست بجٹ بنا کر پیش کیا ہے جس پر حکومت کو داد دینی چاہئے ۔پاکستان نیشنل پارٹی کے سید احسان شاہ نے بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ جن مشکل حالات میں بجٹ بنایاگیا ہے ان محرکات کو سامنے رکھا جائے تو یہ ایک بہترین بجٹ ہے کورونا وائرس کی وجہ سے پورے ملک کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے قرضوں میں معیشت جکڑی ہوئی ہے ایسے مشکل حالات میں وزیراعلیٰ جام کمال اور ان کی ٹیم نے بہترین بجٹ بنا کر پیش کیا جس پر میں انہیں اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں متوازن بجٹ بنانے پر محکمہ پی اینڈ ڈی ، خزانہ اور دیگر متعلقہ محکموں کے حکام کو بھی داد دیتا ہوں ۔

انہوںنے کہا کہ بجٹ میں تعلیم کے لئے 70ارب روپے رکھے گئے ہیں جو مالی سال2019-20ء کے بجٹ کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہیں انہوں نے کہا کہ کلسٹر بجٹ کا غلط استعمال جاری ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے میری اس میں تجویز یہ ہے کہ آڈٹ پیرا ڈالا جائے کہ ایم پی اے کے سرٹیفکیٹ کے بغیر کلسٹر بجٹ کو خرچ نہ کیا جائے ۔انہوںنے تربت یونیورسٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک تو اس کی سائیٹ تبدیل کی گئی جس پر ہمیں اعتراض نہیں تاہم اکیڈمک سٹاف کی بھرتیوں میں میرٹ کاخیال نہیں رکھاگیا وہاں تین خاندانوں کا راج ہے یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے ۔

انہوںنے کہا کہ بلوچستان ایجوکیشن فائونڈیشن جس مقصد کے لئے بنایا گیا اس میں کامیابی نہیں ملی امن وامان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ امن وامان کے لئی44ارب روپے رکھے گئے ہیں جن ہزاروں آسامیوں کا اعلان کیاگیا ہے ان پر میرٹ کے مطابق تعیناتی ہونی چاہئے انہوںنے تربت سے کراچی تک سولہ چیک پوسٹوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ وہاں ہر چیک پوسٹ پر لوگوں کو روک کر صرف یہ پوچھا جاتا ہے کہ کہاں سے آرہے ہوں اور کہا جارہے ہواسی طرح گوادر سے کراچی تک چودہ چیک پوسٹ ہیں وہاں بھی یہی صورتحال ہے اس طرح کے اقدامات سے شہریوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے بہتر ہوتا کہ وزیر داخلہ ایوان میں موجود ہوتے ۔

سیدا حسان شاہ نے کہاکہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان ،وزیر خزانہ میر ظہوراحمدبلیدی اور ان کی ٹیم نے مشکل وقت میں متوازن بجٹ پیش کیا بجٹ میں زراعت کیلئے 15ارب روپے رکھے ہیں اب یہ ذمہ داری صوبائی وزیر زراعت کی ہے کہ وہ صوبے کے زمینداروں کو سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں بالخصوص گرین ٹریکٹر سکیم سے صوبے کے زراعت پر اچھے اثرات مرتب ہونگے اسی طرح بجٹ میں فیلڈ اسسٹنٹس کیلئے ایک ہزار موٹرسائیکلوں کیلئے رقم رکھی ہے جو خوش آئند ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ فیلڈ اسسٹنٹ کی ٹریننگ کی جائے تاکہ وہ کاشتکاروں تک صحیح معلومات اوران کی رہنمائی کرسکیں انہوں نے کہاکہ ماہی گیری کیلئے 15کروڑ روپے بجٹ میں رکھے ہیں جس سے ان علاقوں میں ریسٹورنٹس اور رہائشی کمرے تعمیر کئے جائیںگے انہوں نے تجویز دی کہ صوبائی حکومت پرائیویٹ سیکٹر پر توجہ دیں کیونکہ پرائیویٹ سیکٹر میں بہت سے لوگ ماہی گیری میں سرمایہ کاری کرناچاہتے ہیں جس سے یہ شعبہ ترقی کی راہ پرگامزن ہوگا ۔

صوبائی وزیر اسد بلوچ نے سانحہ ڈھنک ،تمپ اور بلوچستان اسمبلی کے سامنے طلباء وطالبات پر تشدد کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ طلباء وطالبات پر تشدد کرکے پولیس کی جانب سے غلط پیغام دیاگیا تاہم وزیراعلیٰ جام کمال خان نے بروقت اور بہتر فیصلہ کیا جس کے تحت پولیس ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہورہی ہے اس سے طلباء وطالبات مطمئن ہے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بلوچستان رقبے کے حوالے سے آدھا پاکستان ہے اور پسماندگی بھی زیادہ ہے اگر پورا 465ارب روپے کا بجٹ صرف ترقیاتی عمل پر ہی خرچ کیاجائے تو بھی یہ بجٹ ناکافی ہے بلکہ اتنی رقم سے پورے صوبے میں صرف ایک شعبے کو ترقی نہیں کی جاسکتی انہوں نے کہاکہ یہاں پر بعض ارکان نے کہاکہ ماضی میں اپوزیشن کو حکمرانوں کی جانب سے نظرانداز کیاجاتارہاہے ایسا کرنے والے آج اسمبلی میں نظر نہیں آرہے اگر ہم نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا اور اپوزیشن کونظرانداز کیا تو کل ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوگا موجودہ حکومت ایسی کوئی غلطی نہیں کریگی بلکہ کل یہاں جو لوگ آئیںگے وہ موجودہ حکومت اور وزیراعلیٰ کی تعریف کرینگے بجٹ کو بہتر بنانے کیلئے مزید نظر ثانی کرکے بہتر بجٹ دے سکتے ہیں صوبے کیلئے بہتر فیصلہ ہوگا انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی عوام نے ہمیشہ آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے حقوق کیلئے آواز بلند کی کبھی آئین وقانون پامال نہیں کیا لیکن انہیں کبھی ان کا حق نہیں دیا گیا اور جنہوں نے آئین وقانون کی خلاف ورزی کی ان کاکوئی نام نہیں لیتا انہوں نے کہاکہ جو لوگ حق کیلئے آواز بلند کرتے رہے وہ آج تاریخ میں امر ہوگئے اور آئین وقانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کا آج کوئی ذکر نہیں ملتا ہم پارلیمنٹ اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں ہم نے اس کو مضبوط بنا کر لوگوں کو ایک مضبوط پیغام دیناہے کہ ہم مسائل کے حل کیلئے جمہوری راہ اختیار کرسکتے ہیں ہمیں اپنے صوبے کے حقوق کیلئے متحد ہوکر اسلام آباد سے بات کرنا ہوگی وفاق کی بجٹ میں بلوچستان کوکچھ نہیں دیاگیا ہمارے تمام شعبے نظرانداز ہیں ملک کی ترقی کیلئے 800ارب روپے بھلے رکھے جائیں مگر بلوچستان کو ان کا حق ملنا چاہیے ہمارے 70فیصد غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں ہمارے عوام کے ٹیکس سے جمع ہونے والی آمدن کا نصف بھی صوبے میں استعمال کیاجائے توہمارے کئی ایک مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔

بی این پی کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ نے کہاکہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ملنے والے اختیارات کو کم کرنے کی سازشیں ہورہی ہے اور جواز اختیار کیاجارہاہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد وزرائے اعلیٰ کے اختیارات میں اضافہ ہواہے حالانکہ 18ویں ترمیم سے صوبوں کو ان کے حقوق ملے ہیں انہوں نے تجویز دی کہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کونظرانداز کرنے پر حکومت واپوزیشن ارکان مشترکہ طورپر ایوان سے واک آئوٹ کریں ،انہوں نے کہاکہ حالیہ بجٹ میں حکومت نے 6ہزار سے زائد ملازمتیں رکھی ہیں تاہم کورونا سے پیداہونے والی صورتحال کے بعد صوبے میں 7سے 12لاکھ کے قریب لوگ آئندہ ایک سال میں بے روزگار ہوں گے انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے تکلیف دہ صورتحال ہے ،آواران ،خاران ،پنجگور ،کوہلو ،ڈیرہ بگٹی سمیت بہت سے اضلاع 15سی20سالوں میں ترقی سے محروم رہے ہیں انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز آن لائن کلاسز کے خلاف طلباء وطالبات نے تعلیم کے حصول کیلئے سہولیات کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج کیا جس پر انہیں گرفتار کیاگیا اور حکومت نے واقعہ کا نوٹس بھی لیا ایسے مسائل پر حکومت کو سنجیدگی سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ،پسماندگی کی وجہ سے بلوچستان کی طلباء وطالبات کیلئے تعلیم کاحصول مشکل ہوتاجارہاہے اس لئے حکومت جامعات کی طلباء طالبات کے ذمہ واجب الادا 5سی6ماہ کی فیسیں معاف کرائیں انہوں نے ڈھنک ،تمپ اور ہزارہ ٹائون میں پیش آنے والے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ تربت کے علاقے ڈھنک میں بچی کے سامنے اس کی ماں کو قتل کیا گیا تمپ میں خاتون کو قتل کیا گیا ایسے انسانیت سوز واقعات کے خلاف سول سوسائٹی اور سماجی کارکنوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا ۔

صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران نے بجٹ کو متواز ن اور بہترین قراردیتے ہوئے کہاکہ ماضی میں پسند وناپسند کی بنیاد پر ترقیاتی منصوبے بجٹ میں شامل کئے جاتے رہے مگر آج کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے سفارش یا کمیشن کے ذریعے کوئی منصوبہ پی ایس ڈی پی میں شامل کرایا یا کسی نے نکلوایاہے موجودہ حکومت نے یہ تمام سلسلے ختم کرادئیے ہیں وزیراعلیٰ جام کمال خان پورے صوبے کی اکثر ترقی اور خوشحالی پریقین رکھتے ہیں ماضی کے برعکس موجودہ دور میں کسی کے ساتھ نا تو کوئی ناانصافی کی گئی ہے اور نہ ہی کسی کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی کی جارہی ہے بلکہ صوبے کے تمام حلقوں کے منصوبے ضروریات کی بنیاد پر میرٹ کے مطابق شامل کئے جارہے ہیں انہوں نے کہاکہ یہاں ایک معزز رکن نے گزشتہ روز کے اجلاس میں یہ دعویٰ کیاکہ موسیٰ خیل کیلئے بجٹ میں صرف 14کروڑ روپے کے منصوبے رکھے گئے ہیں جو بالکل درست نہیں میں انہیں چیلنج کرتاہوں کہ وہ اپنا دعویٰ ثابت کریں تو میں استعفیٰ دے دوں گااور اگر نہیں تو وہ ایوان کااستحقاق مجروح کرنے پرمعذرت کرے ،انہوں نے کہاکہ ہم اقتدار میں آکر میرٹ پر کام کررہے ہیں طلباء وطالبات کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا وزیراعلیٰ نے سختی سے نوٹس لیا اور آج بھی طلباء وطالبات کی وزیراعلیٰ سے ملاقات ہورہی ہے جب کہ اس کے برعکس سابق دور میں جب میں اپوزیشن کا رکن تھا میرے گھر کے چادر وچاردیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے مجھے گرفتار کیاگیا گھر سے قیمتی چیزیں لے جائی گئی کئی سال تک مجھے بکتر بند گاڑی میں اسمبلی لایا اور لے جاتا رہا مگر موجودہ دور میں کسی کے ساتھ ایسا نہیںکیا گیا سابق دور میں صرف ایک سب تحصیل کیلئے 300ڈیمز کے منصوبے دئیے گئے مگر آج پورے صوبے میں یکساں بنیادوں پر تمام شعبوں میں ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد ہورہاہے جبکہ سابق دور حکومت میں اپنے حلقے کے پونے دو لاکھ آبادی کیلئے ایک ایمبولینس مانگی تھی جو پانچ سال میں مجھے نہیں دی گئی انہوں نے کامیاب بجٹ کی تیاری پر وزیراعلیٰ ،وزیر خزانہ سمیت تمام حکام کومبارکباد پیش کی جمعے کو اسمبلی کے اجلاس میں اگلے مالی سال کے بجٹ پر عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے میر نصیب اللہ مری نے کہا کہ بجٹ میں ضلع کوہلو کو پسماندگی کے تناسب سے اہمیت نہیں دی گئی تاہم وزیراعلیٰ جام کمال نے تحفظات کے ازالے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔

ماضی میں بجٹ میں شامل منصوبے صرف کاغذات تک محدود ہوتے تھے تاہم موجودہ دور حکومت میں میں نے اپنے ضلع میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے ۔ انہوںنے کہا کہ حزب اختلاف کے اراکین کو بھی حکومتی اراکین کے برابر فنڈز دیئے جائیں سابق حکومتوں میں جن جماعتوںنے اپوزیشن کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا آج وہ ایوان میں موجود نہیں ۔انہوںنے کہا کہ میرے حلقے میں مداخلت ہورہی ہے اس سے پہلے بھی میں نے وزیر سی اینڈ ڈبلیو میر عارف محمد حسنی کو آگاہ کیا تھا جس پر انہوںنے متعلقہ افسران کا تبادلہ رکوادیا تھا اب سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو نے دوبارہ سب انجینئر اور ایس ڈی او کا تبادلہ کیا انہوںنے کہا کہ حلقے میں مداخلت کے خلاف میں ایوان سے واک آئوٹ کرتا ہوں ۔

لالا عبدالرشید بلوچ نے کہا کہ انہوںنے اپنے حلقہ انتخاب سے سڑک کا ایک منصوبہ گزشتہ سال بجٹ میں شامل کرنے کی تجویز دی تھی یقین دہانی کرانے کے باوجود اس منصوبے کو پی ایس ڈی پی کا حصہ نہیں بنایا گیا اب رواں سال بھی مجھے واضح یقین دہانی کرانے کے بعد بھی سڑک کے اس منصوبے کو پی ایس ڈی پی سے نکال دیا گیا ہے میرے حلقے کے عوام اس منصوبے کے لئے احتجاج کررہے ہیں میں انہیں یقین دہانی کراچکا ہوں انہوںنے کہا کہ میں اب وعدوں اور یقین دہانیوں سے میرا اعتبار اٹھ چکا ہے جب تک مذکورہ منصوبے کو پی ایس ڈی پی کا حصہ نہیں بنایا جاتا میں نہ تو کسی دوسرے منصوبے کی تجویز دوں گا اور نہ ہی میری جانب سے حکومت کو کوئی پی سی ون موصول ہوگاچار دن ایوان میںبجٹ پر جاری بحث کو سمیٹتے ہوئے صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے ایوان کو اگلے مالی سال کے صوبائی بجٹ کے جاری اخراجات اور ترقیاتی عمل سے متعلق تفصیلی طو رپر آگاہ کیا اور اپوزیشن اراکین کی جانب سے اٹھائے گئے بعض نکات کا بھی تفصیلی جواب دیا ۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کووفاق سے 30ارب روپے کے لگ بھگ کم فنڈز ملے لیکن اس کا یہ مطلب نہیںکہ صرف بلوچستان کے حصے میں کمی کی گئی ہے بلکہ کوویڈ19کی وجہ سے جو مالی بحران سامنے آیا ہے اور جو مشکلات پیش آئی ہیں ان کی وجہ سے بلوچستان ہی نہیں باقی صوبوں کو بھی اس بار کم وسائل ملے این ایف سی میں بلوچستان کے شیئر کو آئینی تحفظ حاصل ہے جسے کوئی کم نہیں کرسکتا انہوںنے ا س ضمن میں ایوان کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو5500ملین روپے کا ٹارگٹ ملا تھا جس میں این ایف سی کے تحت بلوچستان کو9.09فیصد ملنا تھا بلوچستان کو 281ارب روپے ملے اس سال چونکہ کوویڈ19کے باعث بننے والے حالات میں صورتحال بالکل مختلف تھی اس بار4200کا ایف بی آر کا ٹارگٹ سیٹ ہوا این ایف سی کے 9.09فارمولے ہی کے تحت بلوچستان کو اس کا حصہ ملا جو 251ارب روپے ہے یوں30ارب روپے کم ملے تمام صوبوں کے وسائل کم ہوئے ہیں انہوںنے کہا کہ بجٹ صرف پی ایس ڈی پی کا نام نہیں ہوتا بلکہ بجٹ میں ہر شعبے کو دیکھا جاتا ہے اور ہر حکومت کی یہ کوشش اورخواہش ہوتی ہے کہ وہ وسائل کو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بروئے کار لائے کسی بھی حکومت کی کارکردگی اور اس کے مالی انتظام کو پرکھنے کے لئے ایک مثال یہ ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ اس حکومت کا ضمنی بجٹ کتنا ہے ۔

مالی سال2017-18ء میں بلوچستان کا ضمنی بجٹ26ارب روپے تھا ،مالی سال2018-19ء کا ضمنی بجٹ58ارب روپے تھا جبکہ اس بار جو ضمنی بجٹ ہے وہ 20ارب ہے باوجود اس کے کہ اس بار کوویڈ 19اور ٹڈی دل کی وجہ سے حالات انتہائی غیر معمولی ہیں پھر بھی ہم نے بہترین مالی انتظام کو یقینی بنایا انہوںنے کہا کہ بجٹ میں ہر شعبے کو دیکھا جاتا ہے مسائل اور وسائل کا جائزہ لیا جاتا ہے یہاں اکثر اراکین اسمبلی نے فقط پی ایس ڈی پی پر بات کی حالانکہ بجٹ پی ایس ڈی کا نام نہیں ۔

انہوںنے رواں اور اگلے مالی سال کے دوران بلوچستان حکومت کی جانب سے صوبے کے وسائل میں اضافے کے سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات اور ترجیحات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ بلوچستان ٹیکس ریونیو موبلائزیشن اس کی واضح مثال ہے حکومت نے ہر محکمے کے لئے گائیڈ لائنز بنائی ہیں تاکہ آنے والے وقتوں میں صوبے کے مالی معاملات کو مزید بہتر بنایا جاسکے ۔

انہوں نے صحت ، تعلیم اور سوشل سیکورٹی سمیت دیگر شعبہ جات کے لئے حکومت کی ترجیحات اور اہداف کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے صحت کے شعبے کے لئے مختص بجٹ میں40فیصد اضافہ کیا صحت کے شعبے کے لئے پہلے رکھے جانے والی22ارب میں 40فیصد کا اضافہ کرکے اگلے مالی سال میں صحت کے لئی32ارب روپے بجٹ رکھا گیاحکومت نے صحت کے شعبے میں17سو کے قریب میڈیکل افسران اور ڈاکٹرز کی آسامیاں تخلیق کرکے دیں مختلف اضلاع میں ہسپتالوں کے استعداد کار اور وسائل میں اضافہ کیا جارہا ہے ہسپتالوں اور طبی مراکز میں سہولیات کی فراہمی کو بہتر بنایا گیا ڈگری کالجز کے فنڈز میں تین گنا اضافہ کیا گیا پرائمری اور مڈل سکولوں کی اپ گریڈیشن ہو یا پھر ایجوکیشن سیکٹر میں4ہزار کے قریب آسامیاں ،صوبے کی جامعات کے لئے فنڈز کی دستیابی کو یقینی بنایا گیا عوامی انڈوومنٹ فنڈ، پنشن فنڈ ،زراعت سمیت دیگر تمام شعبوں اور تما م علاقوں پر یکساں توجہ مرکوز کی گئی ۔

انہوںنے اپوزیشن اراکین کی جانب سے مداخلت کی بات کو حیران کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ حلقوں میں مداخلت والی بات ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آرہی اگر میرے حلقے میں ترقی ہورہی ہے اور میں کسی منصوبے کی سرپرتی نہیں کرتا تو اس میں کیا گناہ عظیم ہوا ۔انہوںنے کہا کہ بلوچستان حکومت صوبے کے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے نہ صرف خود اقدامات اٹھارہی ہے اور وسائل مختص کئے گئے بلکہ اس مقصد کے لئے وفاق میں بھی ہم نے بھرپور طریقے سے اپنی آواز بلند کی سالانہ پلاننگ کوآرڈی نیشن کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ جام کمال نے جواحتجاج کیااور واک آئوٹ تک کیا اسی احتجاج ہی کی وجہ سے بلوچستان کے اربوں روپے منظور ہوئے ہوشاب آواران روڈ ، کوئٹہ ویسٹرن بائی پاس سکیم ، ڈیرہ مراد جمالی بائی پاس اور سی پیک کا مغربی روٹ یہ سب ہماری ہی حکومت میں ممکن ہوا ہے اس سے پہلے تو سی پیک کا مغربی روٹ بعض لوگوں کے لئے ایک سیاسی نعرہ تھا اور بلوچستان کے عوام کے لئے ایک خواب ہی تھا جسے صوبائی نے وفاق میں موثر آواز اٹھا کر یقینی بنایا اور اب اس منصوبے کے لئے وفاقی پی ایس ڈی پی میں فنڈز کی ایلوکیشن ممکن ہوئی بلوچستان کے دس اضلاع کی ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدیں لگتی ہیں سرحدی علاقوں تجارت کے فروغ اور معاشی سرگرمیوں کے لئے ہم نے وفاق سے بات کی ہے اور وفاقی حکومت نے ان سرحدی اضلاع میں 13مقامات پر بارڈر مارکیٹس کے قیام کی یقین دہانی کرائی ہے انہوںنے ایوان کو آگاہ کیا کہ اپوزیشن اراکین کی جانب سے بجٹ پر بحث کے دوران بعض اضلاع سے متعلق جو اعدادوشمار پیش ہوئے وہ درست نہیں اس ضمن میں وزیرخزانہ ژوب ، شیرانی اور پشین کے اضلاع کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ موسیٰ خیل میں97کروڑ،شیرانی میں67کروڑ اور پشین میں1ارب80کروڑ روپے کی ایلوکیشن ہوئی ہے اپوزیشن اراکین اس بات کو سمجھیں کہ ملک کی44فیصد رقبے پر محیط بلوچستان میں مختلف علاقے ہیں اور ہر علاقے کی اپنی ضروریات ، اپنے لوازمات اور ترقی کے اپنے تقاضے ہیں کینال وہاں بنے گا جہاں ایری گیشن ہو ،منرل یونیورسٹی وہاں بنے گی جہاں معدنیات ہوں جیٹی وہاں بن سکتی ہے جہاں سمندر ہوانہوںنے اس عزم کااظہار کیا کہ صوبائی حکومت صوبے کے تمام علاقوں کی ترقی اورعوام کی خوشحالی کو یقینی بنانے کے لئے عوام دوست اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے گی دریں اثناء بلوچستان اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کو تفویض معاملہ نمٹادیا گیا ۔

جمعہ کے روز بلوچستان اسمبلی کے جاری اجلاس کے دورانصوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے ایوان کو آگاہ کیا کہ ایجوکیشن سٹی کے حوالے سے اپوزیشن اراکین کے تحفظات کے اظہار کے بعد سپیکر چیمبر میں سیکرٹری سیکنڈری ایجوکیشن کو طلب کیا گیا تھا تاہم گزشتہ روز ان کے پیش نہ ہونے کے معاملہ ایوان میں زیر غور آیا اور اس معاملے کو استحقاق کمیٹی کے سپرد کرنے کی رولنگ سامنے آئی تھی وزیر خزانہ نے بتایا کہ سیکرٹری سیکنڈری ایجوکیشن ایوان کی استحقاق کمیٹی میں پیش ہوگئے ہیں اور انہوںنے کمیٹی کو مطمئن بھی کیا ہے لہٰذا یہ معاملہ نمٹا دیا جائے انہوںنے کہا کہ بلوچستان حکومت نے 27کے قریب ٹائونز میں پرائیویٹ اداروں کو اراضی مختص کرکے ان علاقوں میں ایجوکیشن سٹی کے قیام کا فیصلہ کیا تھا جسے بعد میں کابینہ نے تمام اضلاع تک وسعت دی بعدازاں سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ جو اضلاع اس منصوبے میں شامل نہیں تھا ان اضلاع کے نمائندوں کو اس اعتراض تھا جس پر سیکرٹری کو چیمبر میں طلب کیا گیا تھا انہوںنے معاملے کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ چیئر کی رولنگ کو اہمیت دی جانی چاہئے یہ پورے ایوان کا استحقاق ہے
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات