ادارہ فروغِ قومی زبان کے زیرِ اہتمام معروف افسانہ نگارڈاکٹر حسن منظر کے افسانوں کے مجموعی ’’جھجک‘‘ کی آن لائن تقریب پذیرائی کا انعقاد

منگل 30 جون 2020 20:05

اسلام آباد۔ 30 جون(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 جون2020ء) ادارہ فروغِ قومی زبان کے زیرِ اہتمام معروف افسانہ نگاراور صحافی ڈاکٹر حسن منظر کے افسانوں کے مجموعی ’’جھجک‘‘ کی آن لائن تقریب پذیرائی ادارہ فروغ قومی زبان میں منعقد ہوئی۔ اس کتاب کو حال ہی میں اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے قومی ایوارڈ بھی ملا ہے۔ تقریب کی صدارت اکادمی ادبیات کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نے کی جبکہ مہمان خاص ڈاکٹر انوار احمد اور مہمان اعزاز ڈاکٹر حسن منظر تھے۔

اظہارخیال کرنے والوں میں ڈاکٹر راشد حمید، افضال احمد سیّد، ڈاکٹرطاہرہ اقبال، جسٹس (ر) حاذق الخیری اور ڈاکٹر تنویر انجم جبکہ نظامت ڈاکٹر شیر علی نے کی۔ ابتدائی کلمات ادارے کے ڈائریکٹرجنرل ڈاکٹر راشد حمید نے ادا کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن منظر کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اردو ادب کے فروغ میں اُن کے افسانوں اور دیگر تحریروں نے ایک مقام حاصل کیا جس کی وجہ سے ان کی اس کتاب کو اکادمی ادبیات کے کمال فن ایوارڈ جیسے بڑے انعام میں شامل کیا گیا۔

(جاری ہے)

تقریب کے صدر اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نے کہا کہ حسن منظر کے افسانوں کی اس کتاب کوکمال فن ایوارڈکے منصفین کے پینل نے انعام کیلیئے منتخب کیا جو اُن کے لیے اور اکادمی ادبیات کے لیے ایک اعزاز ہے۔انھوں نے کہا کہ حسن منظر کے پہلے افسانے’’لیل و نہار‘‘ کوپڑھتے ہوئے مجھے سرسید احمد خان یاد آئے، جب انھوں نے ’’آدم کی سرگزشت‘‘ لکھی اس وقت انھیں کوئی افسانہ نگار ماننے کو تیار نہ تھا۔

حسن منظر کے اس افسانے سے ایک نئی کھڑکی کھلتی ہے۔ آج کل سو لفظوںکی جو کہانی لکھی جا رہی ہے، حسن منظر کے اس افسانے کے اندر سو افسانوں کی کئی کہانیاں ملتی ہیں۔ان کے اس افسانے میں پوری دنیا سمائی ہوئی ہے اور یہ افسانہ ہماری سماج ، اساتذہ، سیاستدانوں کے لیے کئی سوال چھوڑ جاتا ہے۔ وہ سوسائٹی کے مسائل کو ٹھوس دلائل کے طور پرہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔

ان کے افسانوں کو جتنی مرتبہ پڑھیں گے وہ اتنا زیادہ تاثر دیں کے۔ ادارہ فروغ قومی زبان نے ان کے اعزاز میں آج جو تقریب رکھی وہ نہ صرف حسن منظر کے کام کا اعتراف ہے بلکہ اکادمی ادبیات اور میرے لیے بھی اعزاز ہے۔ڈاکٹر انوار احمد نے کہا کہ حسن منظر کا تخلیقی ذہن انسانی فطرت ، آسمانی کتابوں کے رمز، نسلی تفریق، لسانیات اور تہذیب کے پیچیدہ طبقات پر غور کر کے اچھوتی فضا تخلیق کرنے پر قادر ہے۔

وہ دلی کا پروردہ ہے، نفسیاتِ انسانی کا نباض ہے مگر پریم چند جیسے سماجی واقعیت نگار سے محبت کرتا ہے۔ افریقہ، فلسطین اور اندرون سندھ میں برس ہا برس بہت کچھ دیکھنے والا بہت ملائم زبان میں بولتا ہے۔ اس کی مسیحائی اس کی مسکراہٹ سے چمک رہی ہے۔ تقریب کے مہمان اعزاز ڈاکٹر حسن منظر نے اکادمی ادبیات پاکستان اور ادارہ فروغ قومی زبان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’’جھجک‘‘ میرے افسانوں کے مجموعوں میں چھپنے والا ساتواں مجموعہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ میری تحریروں میں وہ کچھ نہیں جسے فلمی دنیا میں باکس آفس کے اجزا سمجھا جاتا ہے پھر بھی یہ کتاب ایک مؤقر انعام لے اڑی ۔اس کا اندازہ پڑھنے والے ہی لگائیں گے کہ یہ افسانے کیسے لگے۔افضال احمد سید نے کہا کہ حسن منظر ادب کی مستحکم روایات کے امین ہیں۔ موجودہ دور میں اردو ادب کی ثروت مندی میں جن مصنفوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے، حسن منظر کا نام اپنے ناولوں اور افسانوں کے ساتھ ان میں شامل ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ اقبال نے کہا کہ حسن منظر ایک لیجنڈ ہیں۔ اردو افسانے کے موجودہ لیجنڈافسانہ نگاروں کے مقام اور مرتبے پر غور کیا جائے تو تین نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔ حسن محمد، رشید امجد اور حسن منظر۔حسن منظر کا نام اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ وہ بسیار نویس ہیں۔ جہاں معیار کی بات ہوتی ہے وہاں اس معیار کو برقرار رکھتے ہوئے مقدار بھی اہم ہے۔

ادب عالیہ کی تخلیق وہی ہے لیکن تواترکے ساتھ زیادہ تعداد میں تخلیق کرنا اس پر مستزاد ہے اور یہ اعزاز حسن منظر کو حاصل ہے۔جسٹس(ر) حاذق الخیری نے کہا کہ’’جھجک‘‘ ایک نفسیاتی افسانہ ہے۔ اور حسن منظر کی دل نواز تحریر کے ذریعے پایہٴ تکمیل تک پہنچا ہے۔ اور ہمیں اس دور میں لے جاتا ہے جب بیل گاڑیاں اور اونٹ گاڑیاں، ہاتھی، گھوڑے، ڈولیاں اور پالکیاں چلتی تھیں۔

نہ کاریں تھیں، نہ ریلیں، نہ ریڈیو۔ بستیاں ایسی بستی تھیں کہ گھر گھر سے ملے ہوتے تھے۔یہ بھی عہدِ رفتہ کا ایک لاک ڈائون تھاجسے آج بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ میں ادارہٴ فروغِ قومی زبان اور حسن منظر کو ایوارڈ پر مبارک باد دیتا ہوں۔ ڈاکٹر تنویر انجم نے کہا کہ اکادمی ادبیات کی طرف سے حسن منظر کو جس انعام سے نوازا گیا وہ خاصے عرصہ سے اس پر قرض تھا۔ حسن منظر ہمارے ملک کے مایہ ناز مصنف ہیں جنھوں نے اردو زبان کو اپنے منفرد طرز احساس اور طرز بیان سے مالا مال کیا ہے۔