کرسی آنی جانی والی چیز ہے ، نظریہ نہیں چھوڑنا چاہیے ، وزیر اعظم

اگر مائنس ہو بھی گیا تو پیچھے آنے والے انہیں نہیں چھوڑیں گے،ملک کا سربرا ہ پیسہ چوری کرکے باہر لے کر جارہا تھا ایک صاحب کہتے میاں صاحب فکر نہ کرو، لوگ جلدی بھول جائینگے، نوازشریف کی جعلی دستاویزسپریم کورٹ میں پکڑی گئیں ،مجھے کہا گیا چینی مافیا کومشرف کنٹرول نہیں کرسکا،پرویز مشرف کی حکومت بٴْری نہیں تھی، این آر او دیا وہ ٹھیک نہیں تھا ،عمران خان بڑی بڑی اجارہ داریاں بنی ہوئی ہیں، جگہ جگہ شوگر کارٹل کی طرح کی کارٹل بنی ہوئی ہیں، جو پیسہ بنارہا ہے وہ ٹیکس تو دے، اب فیصلے نہ لئے تو وقت نہیں رہے گا ،آصف زرداری اور نوازشریف کی شوگر ملز کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے بنائی گئیں،سارًے خرچے خود برداشت کرتا ہوں، اپوزیشن کی باتوں کا مائنڈ نہیں کرتا ،6،7 سات لوگ این آر او لینا چاہ رہے ہیں، میں کبھی بھی این آر او نہیں دوں گا،کورونا نے ساری دنیا کی معیشتوں کو نقصان پہنچایا میں جانتا ہوں کتنا مشکل بجٹ تھا ،ابھی کوئی بھی کورونا کے سبب معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ نہیں لگا سکتا ، مجھ سے پوچھا جاتا تو کبھی سخت لاک ڈاؤن نہیں کرتا،ہم دبائو برداشت کر کے ایس اوپیز کے ساتھ دکانیں اور کاربار کھولتے رہے ،دنیا مان گئی ہے کورونا کا مقابلہ اسمارٹ لاک ڈائون ہے ،تھوڑے وقت میں اتنا زیادہ پیسہ جس شفاف طریقے سے تقسیم کیا گیا اس کی مثال پوری دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ملتی ،تعلیم، صحت، صاف پانی اور غریب کسانوں اور ہسپتالوں پر لگنے والا پیسہ خسارے سے دو چار حکومتی اداروں پر لگ رہا ہے ، توانائی کے شعبے کا سارا قرضہ ہمیں پہلے حکومتوں سے ملا ہے، شعبے کو ٹھیک کرنے کے لیے ہمیں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنی پڑیں گی اور ہم بڑی تبدیلیوں کے لیے تیار ہیں، قومی اسمبلی میں خطاب

منگل 30 جون 2020 21:18

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 جون2020ء) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کرسی آنی جانی والی چیز ہے ، نظریہ نہیں چھوڑنا چاہیے ، اگر مائنس ہو بھی گیا تو پیچھے آنے والے انہیں نہیں چھوڑیں گے،ملک کا سربرا ہ پیسہ چوری کرکے باہر لے کر جارہا تھا ایک صاحب کہتے میاں صاحب فکر نہ کرو، لوگ جلدی بھول جائینگے، نوازشریف کی جعلی دستاویزسپریم کورٹ میں پکڑی گئیں ،مجھے کہا گیا چینی مافیا کومشرف کنٹرول نہیں کرسکا،پرویز مشرف کی حکومت بٴْری نہیں تھی، این آر او دیا وہ ٹھیک نہیں تھا ،بڑی بڑی اجارہ داریاں بنی ہوئی ہیں، جگہ جگہ شوگر کارٹل کی طرح کی کارٹل بنی ہوئی ہیں، جو پیسہ بنارہا ہے وہ ٹیکس تو دے، اب فیصلے نہ لئے تو وقت نہیں رہے گا ،آصف زرداری اور نوازشریف کی شوگر ملز کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے بنائی گئیں،سارًے خرچے خود برداشت کرتا ہوں، اپوزیشن کی باتوں کا مائنڈ نہیں کرتا ،6،7 سات لوگ این آر او لینا چاہ رہے ہیں، میں کبھی بھی این آر او نہیں دوں گا،کورونا نے ساری دنیا کی معیشتوں کو نقصان پہنچایا میں جانتا ہوں کتنا مشکل بجٹ تھا ،ابھی کوئی بھی کورونا کے سبب معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ نہیں لگا سکتا ، مجھ سے پوچھا جاتا تو کبھی سخت لاک ڈاؤن نہیں کرتا،ہم دبائو برداشت کر کے ایس اوپیز کے ساتھ دکانیں اور کاربار کھولتے رہے ،دنیا مان گئی ہے کورونا کا مقابلہ اسمارٹ لاک ڈائون ہے ،تھوڑے وقت میں اتنا زیادہ پیسہ جس شفاف طریقے سے تقسیم کیا گیا اس کی مثال پوری دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ملتی ،تعلیم، صحت، صاف پانی اور غریب کسانوں اور ہسپتالوں پر لگنے والا پیسہ خسارے سے دو چار حکومتی اداروں پر لگ رہا ہے ، توانائی کے شعبے کا سارا قرضہ ہمیں پہلے حکومتوں سے ملا ہے، شعبے کو ٹھیک کرنے کے لیے ہمیں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنی پڑیں گی اور ہم بڑی تبدیلیوں کے لیے تیار ہیں۔

(جاری ہے)

منگل کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال بجٹ پر کرتے ہوئے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ کتنا مشکل بجٹ تھا، ہم نے پانچ ہزار ارب روپے اکٹھے کرنے تھے جو ردوبدل کے بعد 4ہزار 900ارب پر آ گیا، یہ ہمارا ایف بی آر کا ٹارگٹ تھا، 17 فیصد کلیکشن ہو رہی تھی جو چار پانچ سال میں سب سے زیادہ کلیکشن تھی۔انہوں نے کہا کہ کووڈ آیا تو ساری دنیا کی معیشتوں پر اسی طرح کے اثرات مرتب ہوئے تو ہمیں براہ راست نقصان یہ ہوا کہ نظرثانی شدہ ہدف 4ہزار 900 ارب سے 3ہزار 900ارب پر آ گیا یرنی ایک ہزار ارب روپے کی کمی ہوئی۔

انہوںنے کہاکہ ابھی کوئی بھی کورونا کے سبب معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ نہیں لگا سکتا اور میں اپنی ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ ہم نے وہ لاک ڈاؤن نہیں کیا جس کا ہم پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں سندھ سے مچالیں آئیں کہ سندھ میں کتنا زبردست لاک ڈاؤن ہو گیا، آپ بھی کریں، 18ویں ترمیم کے بعد صوبے خودمختار ہیں اور اپنے فیصلے کر سکتے ہیں تاہم اگر میری بات سنی جاتی تو میں کبھی وہ لاک ڈاؤن نہ کرتا جو میں نے کیا۔

انہوںنے کہاکہ میں پھر بھی کوشش کرتا رہتا کہ ہماری کنسٹرکشن چلتی رہتی، ہماری چھوٹی دکانیں، چھابڑی والے چلتے رہتے لیکن کیونکہ ہم یورپ کو دیکھ رہے تھے تو یہاں بھی جب لوگوں نے یورپ کو دیکھ کر لاک ڈاؤن کیا تو یہاں بھی شروع ہو گئے۔وزیر اعظم نے کہا کہ شکر ہے کہ ہم نے دباؤ کو برداشت کیا اور ایس او پیز کے ساتھ دکانیں کاروبار وغیرہ کھولتے رہے اور اب دنیا مان گئی ہے کہ کورونا کا مقابلہ کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ اسمارٹ لاک ڈاؤن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پہلے تھے جنہوں نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کیا، ہم کنفیوژ نہیں تھے بلکہ کنفیوژوہ تھے جو کبھی پاکستان کے غریب علاقوں میں نہیں گئے، جو لوگ کہہ رہے تھے کہ لاک ڈاؤ ن کرو وہ کبھی غریبوں کی کچی بستیوں میں نہیں گئے۔عمران خان نے کہا کہ ہم بچے کیونکہ ایک تو ہم نے جلدی کھولا اور دوسرا ثانیہ نشتر اور ان کی ٹیم کو اس لیے خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ اتنے تھوڑے وقت میں اتنا زیادہ پیسہ جس شفاف طریقے سے تقسیم کیا، اس کی مثال پاکستان سمیت انفارمل معیشت والے پوری دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ملتی۔

انہوںنے کہاکہ ہمارے پاس اب ایک اور چیلنج آ گیا ہے کہ پہلے سے بری صورتحال سے دوچار معیشت جو بہتری کی جانب گامزن تھی، اس کے لیے ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں اس صورتحال کو بہتر بنانا ہے کہ وہ پیشہ جو ہمیں تعلیم، صحت، صاف پانی اور غریب کسانوں اور ہسپتالوں پر لگانا چاہیے، وہ خسارے سے دوچار حکومتی اداروں پر لگ رہا ہے جس میں توانائی کا شعبہ اس ملک کے لیے عذاب بنا ہوا ہے۔

انہوںنے کہاکہ توانائی کے شعبے کا سارا قرضہ ہمیں پہلے حکومتوں سے ملا ہے، اس شعبے کو ٹھیک کرنے کے لیے ہمیں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنی پڑیں گی اور ہم ان بڑی تبدیلیوں کے لیے تیار ہیں۔عمران خان نے کہا کہ پاور سیکٹر کا ساراقرضہ ماضی کی حکومتوں کا ہے، پی آئی اے دنیا کی بہترین ایئر لائن تھی، پی آئی اے میں اب مافیا بیٹھا ہوا ہے، 11 برسوں میں 10 بار پی آئی اے کے سربراہ تبدیل ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اداروں میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے، اسٹیل ملز پر آج 250 ارب روپے کا قرضہ چڑھ چکا ہے۔وزیراعظم نے بتایا کہ ان کی حکومت نے پہلے سال 4 ہزار ارب روپے جمع کییجن میں سے 2 ہزار ارب قرضوں پر سود کی مد میں ادا کیا، اب اداروں کی اصلاحات کے بغیر نہیں چل سکتے، اداروں میں بڑے بڑے مافیاز بیٹھے ہوئے ہیں۔وزیر اعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دو باتیں موجودہ صورتحال کے تناظر میں اہم ہیں، ایک یہ کہ کرسی آنے جانے والی چیز ہے، بس نظریہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔

انہوںنے کہاکہ میں نے یہ نہیں کہا کہ کرسی مضبوط ہے،آج ہیں کل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نہیں کہا کہ میری حکومت نہیں جانے والی ،میں نے کبھی نہیں کہا کہ میری کرسی بڑی مضبوط ہے ، کرسی صرف اللہ دیتا ہے ، کبھی آپ کو کرسی چھوڑتے ہوئے گھبرانا نہیں چاہیے ، کرسی آنے جانے والی چیز ہے، اپنے نظرئیے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا۔انہوں نے کہا کہ مجھے کہا گیا چینی مافیا کومشرف کنٹرول نہیں کرسکا، نوجوان پارلیمنٹرین کو کہتا ہوں کبھی بھی کرسی چھوڑنے سے گھبرانا نہیں، جدوجہد کے بعد پارٹی چیئرمین نہ بنے تویہ ہوتا ہے، بارش زیادہ آتا ہے توپانی زیادہ آتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جنرل مشرف کی حکومت بٴْری نہیں تھی لیکن این آراو دیا وہ ٹھیک نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں کچھ پلان بنانا پڑے گا، حکومت کے وہ ادارے جو مسلسل نقصان کررہے ہیں انہیں ٹھیک کرناہوگا، بہت سے اداروں میں مافیاز بیٹھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک اصلاحات نہیں کریں گے ملک نہیں چلے گا، اس سے نہیں ڈرنا ہوگا کہ ہڑتال ہوجائے گی۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ نواز شریف نے قومی اسمبلی میں دستاویزات لہرائیں کہ یہ لندن فلیٹس کے ثبوت ہیں، لیکن وہ جعلی دستاویز تھیں اور سپریم کورٹ میں پکڑی گئیں، نوازشریف میری اس چیئر پر کھڑے ہوکر کہہ رہا تھا یہ ہیں وہ ذرائع، یہ صاحب یہاں کہہ رہے تھے کہ میاں صاحب فکر نہ کریں لوگ جلدی بھول جائیں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ جمہوریت پسند نہیں انہوں نے جمہوریت کو بدنام کیا، ان کو کیا پتہ تھا کہ میں سپریم کورٹ جاؤں گا، سپریم کورٹ نے انہیں کرپٹ قرار دیدیا، یہ کیسا وزیر خارجہ ہے کہ دبئی کی کمپنی سی15، 20 لاکھ تنخواہ لے رہا ہو ،وہ تنخواہ نہیں کچھ اور لے رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ ملک کا وزیراعظم دبئی کی کمپنی میں نوکری کررہا تھا، 10 سالوں میں ملک کا قرضہ 6 ہزار ارب سے 30 ہزار ارب روپے تک گیا، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت جلد چلی جائے تاکہ ان کی چوری بچ جائے۔

عمران خان نے کہا کہ ان کی پوری کوشش ہے کہ مائنس ون ہوجائے، اگر ایسا ہوبھی جائے تو جو یہاں سے آئے گاوہ بھی ان کو نہیں چھوڑے گا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اگر اب فیصلے نہ لیے تو پھر وقت نہیں رہے گا، بڑی بڑی اجارہ داریاں بنی ہوئی ہیں، جگہ جگہ شوگر کارٹل کی طرح کی کارٹل بنی ہوئی ہیں، جو پیسہ بنارہا ہے وہ ٹیکس تو دے۔وزیراعظم نے کہا کہ ریاست مدینہ میں امراء سے زکوٰة لے کر غرباء کو دی جاتی تھی، یہاں 29 ارب کی سبسڈی لیکر 9 ارب ٹیکس دیتے ہیں اور چینی بھی عوام کو مہنگی دیتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ ہمارا مشن ہے کہ لوگ پیسہ بنائیں مگر ٹیکس دیں، تمام مافیاز اور اجارہ داروں کو قانون کے تابع کریں گے، یہ مافیاز نہیں چل سکتے تھے جب تک حکومتیں سرپرستی نہ کریں۔انہوں نے کہا کہ آصف زرداری اور نوازشریف کی شوگر ملز کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے بنائی گئیں۔وزیراعظم نے کہا کہ خواجہ آصف باہر جا کر انٹرویو دیتے ہیں کہ ہم لبرل ہیں اور پی ٹی آئی دینی جماعتوں کے ساتھ ہے، یہ لبرلی کرپٹ ہیں یہ لوگ سارے باہر جا کر لبرل بن جاتے ہیں، مسلم لیگ (ن) کا تو کوئی دین ایمان نہیں، یہ کبھی جہادیوں سے پیسے لیتے ہیں تو کبھی لبرل بنتے ہیں، ان کا شور اس لئے ہے کہ انہیں پتہ ہے ہمیں ثبوت مل رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہاکہ میں نے ہر جگہ کہا کہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانا میرا وژن ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جو قوم مدینہ کی ریاست کے اصولوں پر چلے گی وہ اٹھ جائے گی۔انہوںنے کہاکہ اپوزیشن کی باتوں کا مائنڈ نہیں کرتا کیونکہ ان کا مجھے پتہ ہے، میں مائنڈ نہیں کرتا کیونکہ ان کی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں، ان سے پوچھا گیا پی ٹی آئی اور ن لیگ میں فرق کیا ہے، اس نے کہا (ن) لیگ لبرل ہے اور پی ٹی آئی مذہبی جماعتوں کے قریب ہے، یہ لبرلی کرپٹ ہیں، ان سیاسی جماعتوں نے مغرب جاکر ایک ہی بات کہی مجھے بچالو ورنہ دینی لوگ پاکستان پر قبضہ کرلیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ مجھے پہلی تقریر نہ کرنے دی، پہلے دن سے کہہ رہے ہیں حکومت فیل ہوگئی۔ انہوںنے کہاکہ 6،7 سات لوگ این آر او لینا چاہ رہے ہیں، میں ان کو کبھی بھی این آر او نہیں دوں گا۔