کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان نہیں بلکہ بھارت اور کشمیریوں کے مابین تنازعہ ہے، سردار مسعود خان

کشمیریوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آزادانہ اور جمہوری رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے،کشمیر کو بھارت کی کالونی بننے سے بچایا جائے، صدر آزادکشمیر کا انٹرویو

بدھ 1 جولائی 2020 15:57

مظفرآباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 جولائی2020ء) آزاد جموں وکشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی شرمناک خلاف ورزیاں اور ان پامالیوں پر عالمی برادری خاص طور پر اقوام متحدہ کی خاموشی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اقوام متحدہ تنازعہ کشمیر سے عملاً لا تعلق ہے اور اس طرح کشمیر کا مسئلہ ایک ایسے المیہ کی طرف بڑھ رہا ہے جس کے بارے میں پہلے کسی نے کبھی سنا ہے اور نہ ہی دیکھا ہے۔

برطانیہ کی ایک نیوز ویب پورٹل بائی لائن ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر آزادکشمیر نے کہا کہ اقوا م متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی قراردادوں سینتالیس، اکاون، اسی ، چھیانوے، ایک سوبائیس اور ایک سو چھبیس میں واضح طور پر قرار دیا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی اور منشاء سے ایک آزادانہ اور غیر جانبدارانہ جمہوری رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا جس کا اہتمام اقوام متحدہ کرے گی۔

(جاری ہے)

لیکن گزشتہ سات دہائیوں سے بھارت ان قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر پر اپنی فوجی تسلط کو برقرار رکھ کر کشمیریوں کو اُن کے حق خودارادیت سے انکار کرتا چلا آرہا ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ علاقے کو نیم خوداختیاری دے رکھی تھی لیکن گزشتہ سال پانچ اگست کو نئی دہلی نے اچانک مقبوضہ ریاست کے ستر سالہ سٹیٹس کو تبدیل کر کے یہ اشارہ دیا کہ وہ اس خطہ کو غیر قانونی طور پر اپنے ساتھ مدغم کر کے وہاں ہندو آبادکاروں کو بسانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اس سال مارچ میں بھارتی حکومت نے ہندو آبادکاروں کو کشمیر میں بسانے کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے ہندو شہریوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دینے کا اعلان کیا جس کے تحت انہیں کشمیریوں کی زمین خریدنے ، اس کی ملکیت رکھنے اور متنازعہ علاقے کے اندر ملازمتیں حاصل کرنے کا اختیار مل گیا جو پہلے کشمیر کے مقامی باشندوں کا حق تھا۔ اس منصوبے کے تحت بھارت نے گزشتہ چھ ہفتوں میں پچیس ہزار بھارتی شہریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹس جاری کیے ہیں جو ایک غیر قانونی عمل ہے۔

صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014ء میں پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد اور پھر 2019میں دوبارہ انتخابات جیت کر اقتدار سنبھالنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ بھارت کے آئین میں کشمیر سے متعلق دو دفعات، دفعہ 370اور دفعہ 35-Aکو منسوخ کر دے گا۔ دفعہ 370کو ایک بے معنی قانون قرار دیتے ہوئے صدر آزادکشمیر نے کہا کہ دفعہ 35-Aمیں کشمیریوں کی زمین کے تحفظ، اس کی ملکیت اور اُن کی ملازمتوں اور تعلیم کے حقوق سے متعلق ضمانتیں موجود تھیں اور اب اس دفعہ کو ختم کر کے اُن سے وہ تمام حقوق چھین لئے گئے ہیں۔

بھارت اب مقبوضہ جموں وکشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انہیں یونین ٹریٹری بنانے کے لئے اقدامات کر رہا ہے اور اس طرح یونین ٹریٹری کا مطلب ریاست کا درجہ کم کر کے اسے میونسپلٹی کی سطح تک لانے کے مترادف ہے۔ کرونا وائرس کی وباء پھیلنے کے بعد بھارتی حکومت کے اقدامات کے حوالے سے پوچھے گے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں قابض بھارتی فوج نے کرونا وائرس کی آڑ میں محاصرے اور تلاشی کے دوران کشمیری نوجوانوں کو قتل کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔

مقبوضہ جموں وکشمیر میں قتل و غارت اور نسل کشی سے توجہ ہٹانے کے لئے بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول کے پار سے آزادکشمیر کے نہتے اور پرامن شہریوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی تیز کر دیا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول پر گیارہ سو مرتبہ سیز فائرمعاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آزادکشمیر کی شہری آبادی کو نشانہ بنایا۔

ایک اور سوال کے جواب میں صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ دنیا میں یہ غلط فہمی عام پائی جاتی ہے کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تنازعہ ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ تنازعہ بھارت اور جموں وکشمیر کے عوام کے درمیان ہے اور جموں وکشمیر کے لوگ اس تنازعہ کے اہم اور بنیادی فریق ہیں کیونکہ انہوں نے ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے اور یہ وہ بات ہے جسے اقوام متحدہ نے اپنی متعدد قراردادوں میں تسلیم کر رکھا ہے۔