قاضی فائز دھمکی آمیز کیس،مولوی افتخار کی معافی مسترد، توہین عدالت کا نوٹس جاری

اٹارنی جنرل کے مطابق یہ فوجداری اور دہشتگردی کا جرم بھی بنتا ہے اور معافی نامہ دینے کا فائدہ نہیں ہوگا، جسٹس اعجاز الاحسن

جمعرات 2 جولائی 2020 15:17

قاضی فائز دھمکی آمیز کیس،مولوی افتخار کی معافی مسترد، توہین عدالت ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 جولائی2020ء) سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز کو دھمکی آمیز ویڈیو کیس میں مولوی افتخار الدین مرزا کی معافی مسترد کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں اٹارنی جنرل اور افتخار الدین کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔

وکیل افتخار الدین نے عدالت کو بتایاکہ آغا افتخار الدین نے غیرمشروط معافی نامہ جمع کرا دیا ہے، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ فائل ہوچکی، معافی نامہ ہمارے سامنے نہیں ہے، جو الفاظ استعمال کیے گئے کیا ایسے الفاظ استعمال کیے جاسکتے تھی ایسے مقدمے میں معافی نامہ کیسے دیں۔

(جاری ہے)

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے مطابق یہ فوجداری اور دہشتگردی کا جرم بھی بنتا ہے اور معافی نامہ دینے کا فائدہ نہیں ہوگا۔

اس دوران چیف جسٹس پاکستان نے افتخار مرزا کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آغا افتخار کو 6 ماہ کیلئے جیل بھیج دیتے ہیں، آپ کو اس کیس کی نوعیت کا اندازہ نہیں، آپ کیس کو بہت ہلکا لے رہے ہیں۔افتخار الدین مرزا کے وکیل نے کہا کہ میرے موکل دل کے مریض ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کیا کریں، ان کو اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہیے تھا، اس مقدمے میں کوئی رحم کی بات نہیں۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ افتخارالدین نے غیر ارادی طور پر نہیں بلکہ سوچا سمجھا بیان جاری کیا اور ججز کا نام لے کر توہین کی گئی۔جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیے کہ افتخارالدین مرزا کی ویڈیو کسی بچے کی بنی ہوئی نہیں، ان اپنا ویڈیو چینل ہے، اس سے پیسے کماتے ہیں، ایسی زبان تو گلیوں میں بھی استعمال نہیں ہوتی۔ بعد ازاں عدالت نے افتخار الدین کے وکیل کی جانب سے پیش کیا گیا معافی نامہ قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے مولوی افتخار کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔