۔وائس چانسلر خیبر میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید کا دور ابھی ختم نہیں،خبریں پروپیگنڈے پر مبنی ہیں،وضاحتی بیان

جمعہ 3 جولائی 2020 22:35

لله*پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 03 جولائی2020ء) وائس چانسلر خیبر میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید کی معیاد ابھی ختم نہیں ہوئی ۔اس حوالے سے میڈیا میں پھیلائی جانے والی خبریں من گھڑت اورجھوٹے پروپیگنڈے پر مبنی ہیں۔یہ منفی پروپیگنڈا ایک مخصوص لابی اپنے مذموم مقاصد اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیئے کر رہی ہے۔کسی کو بھی کے ایم یو کا پرسکون تعلیمی وتحقیقی ماحول خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

خیبر میڈیکل یونیورسٹی(کے ایم یو)پشاور کی جانب سے جاری کردہ ایک وضاحتی بیان میں بعض اخبارات میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق شائع ہونے والی خبروں کو یونیورسٹی کے پرسکون تعلیمی اور تحقیقی ماحول کو پراگندہ کرنے کے ساتھ ساتھ پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید کے بے داغ ماضی اور صاف وشفاف کردار کوبعض عناصر کی جانب سے سازش اورپروپیگنڈے کے ذریعے داغدار کرنے کی مذموم کوشش قراردیا گیاہے۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ گزشتہ روز شائع ہونے والی ان خبروں میں بے بنیاد اور من گھڑت پروپیگنڈے کاسہارا لیتے ہوئے ایک مخصوص لابی نے کے ایم یوکے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر ارشد جاوید کی مدت ملازمت میں عدم توسیع کے ایشو کو دیگر چارجامعات کے وائس چانسلرز کے ساتھ دانستہ طور پر خلط ملط کرنے کی کوشش کی تھی حالانکہ پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید ان چار وائس چانسلرز میں شامل نہیں ہیں جن کی پوسٹوں کو ان کی مدت ملازمت جون میں تکمیل کی وجہ سے مشتہرکیاگیا ہے ۔

ڈاکٹر ارشد جاوید کی مدت ملازمت چونکہ ابھی پوری نہیں ہوئی لہٰذا یہی وجہ ہے کہ محکمہ ہائر ایجوکیشن کی جانب سے نہ تو حکومت کو ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیس بھیجا گیاہے اور نہ ہی ان کی پوسٹ کو مشتہر کیاگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کے ایم یو کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید جن کی ابتدائی تعیناتی کوپشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیاگیا تھا اور جس پر فاضل عدالت نے مورخہ8مارچ2018کو جہاں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو پروفیسر داکٹر ارشد جاوید کی تعیناتی کے پراسس میں پائی جانے والی خامیوں کی وجہ سے ان کی تعیناتی کو کالعدم قراردیتے ہوئے ان کا کیس وائس چانسلرزسرچ کمیٹی کودوبارہ ریفر کرنے کا حکم دیا تھا وہاں عدالت عالیہ نے پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید کونئے وائس چانسلر کی تعیناتی تک عارضی طور پر بطورایکٹنگ وائس چانسلر کام جاری رکھنے کے واضح احکامات بھی جاری کیئے تھے۔

یادرہے کہ سرچ کمیٹی کے ایک اجلاس جوکمیٹی کے چیئرمین اور پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کی صدارت میں منعقد ہوا تھا میں دوبارہ پروفیسرڈاکٹر ارشد جاوید کی تمام ممبران نے اتفاق رائے سے بطور وائس چانسلر تعیناتی کی منظوری دے دی تھی ۔بعد ازاں ڈاکٹر سلیم خٹک نے پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا جس پر پشاور ہائی کورٹ نے مورخہ27فروری2019کو نہ صرف یہ کیس یہ کہہ کر خارج کردیا کہ چونکہ پشاور ہائی کورٹ کے حکم پروائس چانسلرز سرچ کمیٹی پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید کی بطوروائس چانسلر دوبارہ تعیناتی کی منظوری دے چکی ہے بلکہ معزز عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی قراردیا کہ محکمہ ہائر ایجوکیشن پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید کی بطور وائس چانسلر تعیناتی کے نئے احکامات بھی دوبارہ جاری کرے ۔

یہ حیران کن امر ہے کہ محکمہ ہائر ایجوکیشن کو پشاور ہائی کورٹ کے ان واضح احکامات اور ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید کی مستقل تعیناتی کا نوٹیفیکیشن تاحال جاری کرنے کی توفیق نہیں ہوئی حالانکہ اس ضمن میں نہ صرف پشاور ہائی کورٹ کے احکامات مورخہ 27فروری2019کے تحت محکمہ ہائر ایجوکیشن لاء ڈیپارٹمنٹ اور اسٹبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ سے بھی قانونی اور انتظامی قواعدو ضوابط کی روشنی میں منظوری لے چکا ہے بلکہ ان محکموں کی قانونی آراء کی روشنی میں ایک سمری کے ذریعے گورنرخیبرپختونخوا جو کہ کے ایم یو کے چانسلر بھی ہیں سے بھی پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید کی بطور مستقل وائس چانسلر نئی منظوری لے چکا ہے لیکن اس سمری کی منظوری کے باوجود محکمہ ہائر ایجوکیشن کی جانب سے اس ضمن میں اب تک باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیاگیاجو یقینی طورپر توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔

لہٰذا ان تمام تفصیلات کی روشنی میں جہاں ڈاکٹر ارشد جاوید کی بطور وائس چانسلر ٹینور ابھی باقی ہے وہاں پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید نے کہا ہے کہ گزشتہ روز بلایاجانے والا سینڈیکیٹ کااجلاس دراصل27جنوری کو طلب کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں گورنر کے احکامات پر جہاں کے ایم یو کو سینڈیکیٹ کے انعقاد سے روک دیاگیا تھا وہاں جی آئی ٹی کے ذریعے کے ایم یو کے معاملات کی چھان بین کا حکم بھی دیا گیا تھا لہٰذا جب جی آئی ٹی رپورٹ میں کے ایم یو میں کوئی بے ضابطگی سامنے نہیں آئی تو مارچ میں جاری کردہ ایک مراسلے کے ذریعے کے ایم یو کو سینڈیکیٹ کااجلاس منعقد کرنے کی اجازت دی گئی جس کاانعقاد اپریل،مئی اور جون کے مہینوں میں کووڈ19کے مخصوص حالات کی وجہ سے نہیں ہوسکا البتہ2جولائی کو منعقد ہونے والا اجلاس میں شرکت کے لیئے چار محکموں کے انتظامی سیکرٹری صاحبان کے نمائندے اورسابق جج پشاور ہائی کورٹ جناب جسٹس ناصر حسین کے علاوہ چار دیگر معزز ممبران بھی بروقت پہنچ گئے تھے لیکن چونکہ اجلاس میں بعض فیکلٹی اور انتظامی ممبران شریک نہیں ہو ئے اس لیئے کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے یہ اجلاس ملتوی کرناپڑا۔

انہوں نے کہا کہ جو عناصر اپنے مذموم مقاصد اور ذاتی مفادات کے لیئے کے ایم یو اور ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کررہے ہیں ان کی جانب کے ایم یو سے متعلق بنائی گئی جی آئی ٹی رپورٹ میں بھی نہ صرف واضح اشارہ کیاگیاہے بلکہ اس رپورٹ کی سفارشات میں پرووائس چانسلر کے عہدے کو متنازعہ قراردیتے ہوئے ختم کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید نے کہا کہ متذکرہ خبر میں بعض جن ممبران کی جانب سے سینڈیکیٹ کااجلاس منعقد نہ کرنے کے حوالے سے جس خط کا ذکر کیا گیا ہے اس میں نہ تو سینڈیکیٹ کے انعقاد پر کوئی واضح اعتراض کیاگیا تھا اور نہ ہی ان کی جانب سے اجلاس میں عدم شرکت کی کوئی بات کی گئی تھی،یہ خط انہیں سینڈیکیٹ کے روز اجلاس سے محض دس منٹ پہلے ملا جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھا۔

دریں اثناء بعض ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سینڈیکیٹ کے ایجنڈے میں چونکہ سابق پرووائس چانسلر اور ڈین بیسک میڈیکل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر جواد احمد کی پروفیسر میروٹوریس کی منظوری کا کیس بھی شامل تھا اس لیئے بعض ایسے عناصر جو ان کی اس ترقی سے خوش نہیں تھے انہوں نے کورم توڑ کراس اجلاس کو منعقد نہیں ہونے دیاتاکہ ان سے انتقام لیاجاسکی