افغانستان کے جنگجو کمانڈرعبدالرشید دوستم کوفوج کا مارشل مقررکردیا گیا

دوستم پر مخالفین کے اغوا اور ریپ سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 4 جولائی 2020 15:12

افغانستان کے جنگجو کمانڈرعبدالرشید دوستم کوفوج کا مارشل مقررکردیا ..
کابل(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 جولائی ۔2020ء) افغانستان کے جنگجو کمانڈر عبدالرشید دوستم کو ملک کا اعلی ترین فوجی اعزازدیا گیا ہے مزارشریف کے علاقے کے طاقتور سردارکی جانب سے اطلاعات سامنے آرہی تھیں کہ ان کے طالبان کے ساتھ مذکرات جاری ہیں جس پر صدر اشرف غنی نے مقامی طور پر اپنی طاقت کا اظہار کرنے کے لیے رشید دوستم کو مارشل کا عہدہ دیدیا ہے.

جنگجو کمانڈر رشید دوستم پر مخالفین کے اغوا اور ریپ سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں انہیں پہلے بھی افغانستان کی فوج کا سربراہ اور مزارشریف کا گورنر مقررکیا گیا تھا مگر ان کے کابل کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے دونوں عہدے چھوڑ دیا تھا.

(جاری ہے)

امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق 66 سالہ عبدالرشید دوستم کو افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے مارشل کا عہدہ دیا گیا ہے وہ افغانستان میں یہ عہدہ حاصل کرنے والے تیسرے فوجی رہنما ہیں طالبان سے مذاکرات کرنے والی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ میں آپ کو ملک کا اعلیٰ ترین فوجی عہدہ حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں آپ کو مارشل کا عہدہ دینا ان ہزاروں مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جو کئی سال سے ملک کے دفاع کے لیے اپنی جانیں دے رہے ہیں.

اشرف غنی کے دفتر کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا لیکن افغان میڈیا کے مطابق عبدالرشید دوستم کو مارشل کا عہدہ دینے کا فرمان صدر اشرف غنی نے جاری کیا ہے دوسری جانب دوستم کے ترجمان نے اس فیصلے کو خوش آمدید کہا ہے عبدالرشید دوستم کے ترجمان بشیر احمد تائنج نے کہا کہ یہ فیصلہ سالوں پہلے ہو جانا چاہیے تھا لیکن ہم اس کو خوش آمدید کہتے ہیں.

دوستم اس سے قبل 2014 میں قائم ہونے والی اشرف غنی حکومت کے نائب صدر رہ چکے ہیں لیکن ان سے اختلافات کے بعد وہ عبداللہ عبداللہ کے اتحادی شمار کیے جاتے تھے عبداللہ عبداللہ اور دوستم دونوں ہی ستمبر 2019 کے نتائج کو مسترد کر چکے ہیں ان انتخابات میں اشرف غنی دوبارہ منتخب ہوئے تھے لیکن مخالفین کی جانب سے ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کیا جاتا ہے.

دوستم نے اشرف غنی کی کامیابی کو ایک 'بغاوت' قرار دیا تھا جبکہ عبداللہ عبداللہ کی جانب سے بھی کئی مہینوں تک اس کامیابی پر سخت تنقید کی جاتی رہی ہے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان یہ تنازع مئی میں حل ہوا تھا جس کے بعد طالبان سے مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے معاہدے میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ دوستم کو مارشل کا عہدہ دیا جائے گا.

دوستم ایک ازبک جنگجو کمانڈر ہیں اور گذشتہ کئی دہائیوں سے وہ افغانستان کا ایک طاقتور کردار رہے ہیں 1970 کی دہائی میں افغان فوج میں شمولیت کے بعد وہ کئی بار اتحادی بدل چکے ہیں پہلے وہ سویت یونین کے ساتھ مل کر مجاہدین کے خلاف لڑ چکے ہیں جبکہ وہ طالبان کا تختہ الٹنے والے اتحاد میں بھی شامل رہے ہیں. اشرف غنی کی سابقہ حکومت میں وہ نائب صدر تو رہے ہیں لیکن یہ عہدہ صرف نام تک محدود تھا اور انہوں نے اس دوران اپنا زیادہ تر وقت ترکی میں جلاوطنی میں گزارا تھا ان پر 2016 میں اپنے سیاسی مخالف احمد ایشچی کے اغوا اور ریپ کا الزام عائد کیا گیا تھا دوستم اور ان کے باڈی گارڈز کے خلاف یہ مقدمہ ابھی تک چل رہا ہے ایشچی کے بیٹے بکتش ایشچی نے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان اس موضوع پر ہونے والے مذاکرات کی مذمت کی تھی.

بکتش ایشچی نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا تھا کہ عبدالرشید دوستم کو عہدہ دینے کے بجائے انہیں میرے والد کے خلاف بیہمانہ جرم سرزد کرنے پر ایک قانون پر عمل کرنے والے شہری کی طرح عدالت میں کیوں نہ پیش کیا جائے انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپس بھی عبدالرشید دوستم پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتے رہے ہیں جن میں 2001 میں امریکی حملے کے بعد ہزاروں طالبان قیدیوں کا قتل بھی شامل ہے.

تاہم عبدالرشید دوستم ان الزامات کی تردید کرتے ہیں گذشتہ چار دہائیوں سے افغانستان کے تنازعے میں ملوث تمام افراد مسلح ملیشیاز رکھتے ہیں اور طالبان دور کے بعد بھی انسانی حقوق افغانستان کی سیاست کا شکار بنتے رہے ہیں ان میں سے کسی بھی فرد کا احتساب نہیں کیا گیا گذشتہ برسوں میں عبدالرشید دوستم کئی قاتلانہ حملوں میں محفوظ رہیں 2018 میں ان پر کابل میں ہونے والے حملے میں 23 افراد ہلاک ہو گئے تھے اس حملے ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی.