جج ارشد ملک کا جوڈیشل سروس ٹریبونل سے رجوع کرنے کا فیصلہ

ارشد ملک کی نوکری پر بحالی کیلئے ساتھی ججز اور وکلاء سے قانونی مشاورت، برطرفی کا نوٹیفکیشن ملتے ہی جوڈیشل سروس ٹریبونل اپیل دائر کریں گے۔ ذرائع

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ پیر 6 جولائی 2020 00:20

جج ارشد ملک کا جوڈیشل سروس ٹریبونل سے رجوع کرنے کا فیصلہ
لاہور (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 05 جولائی 2020ء) لاہورہائیکورٹ سے ویڈیواسکینڈل کیس میں برطرف احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے بحالی کیلئے جوڈیشل سروس ٹریبونل سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا، ارشد ملک برطرفی کا نوٹیفکیشن ملتے ہی جوڈیشل سروس ٹربیونل میں اپیل دائر کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیر اعظم نوازشریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک کو ویڈیو اسکینڈل کیس میں لاہور ہائیکورٹ کے سات رکنی بنچ نے برطرف کردیا ہے۔

جس کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نوکری کی بحالی کیلئے ساتھی ججز اور وکلاء سے مشاورت شروع کردی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ سابق جج ارشد ملک نوکری سے برطرفی کا نوٹیفکیشن ملتے ہی لاہور ہائیکورٹ کے جوڈیشل سروس ٹربیونل میں اپیل کریں گے۔

(جاری ہے)

ارشد ملک نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کریں گے۔ واضح رہے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ریفرنس میں سزا سنانے والے احتساب عدالت کے سابق جج / سیشن جج ارشد ملک کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نوکری سے برطرف کر دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں انتظامی کمیٹی نے ارشد ملک کو برطرف کرنے کی منظوری دی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم نے بطور انکوائری آفیسر ارشد ملک کو قصور وار قرار دیا۔ 24 دسمبر 2018 کو نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ریفرنس میں سزا سنانے والے احتساب عدالت کے سابق جج، سیشن جج ارشد ملک کے بارے میں6 جولائی 2019 ء کو مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، نائب صدر مریم نواز، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال نے مشترکہ پریس کانفرنس کی اور احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیوز جاری کیں۔

جن کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سزا دباؤ پر سنائی گئی۔ سات جولائی کو رجسٹرار احتساب کورٹ نے جج ارشد ملک کا تردیدی بیان جاری کیا کہ ان پر بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی دباؤ نہیں تھا۔ ارشد ملک کو اسلام آباد کی احتساب عدالت سے فارغ کر کے ان کی خدمات لاہور ہائی کورٹ کو واپس کر دی گئیں۔ سپریم کورٹ نے پہلی مرتبہ 16 جولائی 2019 کو ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت کی۔

سولہ جولائی کو ہی جج ارشد ملک نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کے تحت ایف آئی اے کو درخواست دی جس پر ایف آئی اے نے سائبر کرائم کی شقوں کے تحت ان کی ویڈیو بنانے کے حوالے سے مقدمہ درج کیا ۔23جولائی2019 کو سپریم کورٹ نے جج ارشد ملک کے ویڈیو کیس پر ایف آئی اے کو تین ہفتوں میں مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا، سپریم کورٹ آف پاکستان نے 23 اگست کو کیس کا فیصلہ سنایا اور کہا کہ جج ارشد ملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیان حلفی ان کے خلاف فرد جرم ہے، 14 ستمبر 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے ارشد ملک کو او ایس ڈی کر دیا، جس کے بعد جمعہ کے روز لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی نے ارشد ملک کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پرنوکری سے برطرف کرنے کا حکم دے دیا ہے۔