کورونا ہوا سے پھیل رہا ہے ‘سائنس دانوں کے انکشاف نے دنیا کو چکرا دیا

چھ ماہ گزرنے کے باوجود ماہرین درست تشخیص میں مکمل طور پر ناکام نظرآتے ہیں

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 6 جولائی 2020 09:26

کورونا ہوا سے پھیل رہا ہے ‘سائنس دانوں کے انکشاف نے دنیا کو چکرا دیا
واشنگٹن (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06 جولائی ۔2020ء) کورونا وائرس ہوا سے پھیل رہا ہے یہ دعوی 12ملکوں کے239سائنس دانوں نے عالمی ادارہ صحت کے نام ایک خط میں کیا ہے اس پہلے کہا رہا تھا کہ یہ وائرس کھانسنے یا چھیکنے یا زور سے بولنے سے مریض سے منہ یا ناک سے خارج ہونے والے باریک محلول ذرات سے یہ وائرس دوسرے شخص کو شکار کرتا ہے.

(جاری ہے)

مگر اب بارہ ملکوں کے 239 سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ وائرس ہوا کے ذریعے انفیکشن پھیلاتا ہے اور بند جگہوں پر بھی اس سے بچنے کے لیے احتیاط کرنی چاہیے‘اس سے قبل سائنس دان یہ دعوی بھی کرچکے ہیں کہ یہ وائرس نہیں درحقیقت بیکٹریا ہے تاہم 6ماہ گزرنے کے باوجود سائنس دان ابھی تک اس کی مکمل تشخیص کرنے میں ناکام ہیں اور دنیا بھر کے ماہرین ”تکوں“سے ہی کام چلارہے ہیں .

امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کے مطابق12 ملکوں کے 239 سائنس دانوں نے عالمی ادارہ صحت کے نام ایک کھلے خط میں کہا ہے کہ وہ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے اپنی ہدایات پر نظر ثانی کرے ایک سائنسی رسالے میں اس خط کے مندرجات شائع کیے جائیں گے. سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس ہوا سے پھیلتا ہے، یعنی وائرس کے ذرات بند جگہوں میں گردش کرتے ہیں اور سانس لیتے ہوئے یہ ذرات انسانی جسم کے اندر جا سکتے ہیں جبکہ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے وائرس سانس کے ذریعے ننھے ننھے قطروں کی شکل میں باہر نکلتے ہیں اور دوسرے شخص کو شکار کرتے ہیں یعنی متاثرہ شخص کے کھانسنے اور چھیکنے سے یہ قطرے باہر آتے ہیں یہ انتہائی چھوٹے اور باریک ہوتے ہیں ، اس لیے جلد ہوا میں مل جاتے ہیں.

نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ اگر یہ وائرس ہوا سے پھیلتا ہے تو پھر اس کو پھیلنے سے روکنے کی تدبیر بدل جائے گی اور ماسک کو گھروں کے اندر بھی لگانا ہو گا اب تک گھروں کے اندر ماسک استعمال نہیں کیا جاتا ہے یہاں تک کہ چھ فٹ سے دوری پر بھی اس کی ضرورت نہیں پڑتی ہے اسی طرح وینٹی لیٹرز نظام میں بھی تبدیلی لانا ہو گی اور ہوا کی گردش کو کم سے کم کرنا ہو گا.

حال ہی میں کرونا کیسیز کی تعداد میں جو اضافہ ہوا ہے اس کی وجہ عام طور سے یہ بتائی گئی کہ کاروبار اور دوکانیں کھلنے اس وبا کے پھیلاﺅ میں اضافہ ہوا اگر اس مفروضے کو سامنے رکھا جائے تو ان سائنس دانوں کی بات مصدقہ لگتی ہے کہ یہ وائرس ہوا میں موجود رہتا ہے اور بند کمروں میں بھی انفیکشن کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے. ادھر برطانوی ماہر نے دعوی کیا ہے کہ کورونا وائرس چین سے پھیلنا نہیں شروع ہوا بلکہ دنیا بھر میں چھپا ہوسکتا ہے اور اس وقت نمودار ہوتا ہے جب ماحولیاتی صورتحال اس کی نشوونما کے لیے درست ہو یہ دعویٰ برطانیہ کی معتبر آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک ماہر نے کیا ہے.

آکسفورڈ کے سینٹر فار ایویڈنس بیسڈ میڈیسین (سی ای بی ایم) کے سنیئر ایسوسی ایٹ ٹیوٹر ڈاکٹر ٹام جیفرسن نے زور دیا کہ ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں کہ یہ وائرس ایشیا میں ابھرنے سے پہلے بھی دیگر مقامات میں موجود تھا اسپین کے طبی ماہرین نے ایک تحقیق میں بتایا تھا کہ انہوں نے اس وائرس کے آثار مارچ 2019 میں اکٹھے کیے گئے نکاسی آب کے نمونوں میں دریافت کیے ہیں، یعنی دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں اس کے پھیلنے سے 9 ماہ قبل‘جون میں اٹلی کے سائنسدانوں نے بھی میلان اور تورین کے نکاسی آب کے نمونوں میں دریافت کیا تھا کہ کورونا وائرس دسمبر کے وسط میں وہاں موجود تھا، جبکہ وہاں پہلا کیس فروری میں سامنے آیا تھا، جبکہ ماہرین نے برازیل میں اس وائرس کے آثار نومبر میں دریافت کیے تھے.

ڈاکٹر ٹام جیفرسن کا ماننا ہے کہ متعدد وائرسز ایسے ہوتے ہیں جو اس وقت تک چھپے رہتے ہیں جب تک حالات ان کے لیے موزوں نہ ہوں، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ جس طرح آتے ہیں، اس طرح اچانک غائب بھی ہوجاتے ہیں انہوں نے کہا سارس 1 کہا گیا؟ وہ بس اچانک غائب ہوگیا تو ہم ان چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں اور ہمیں وائرس کے ماحول کے بارے میں تحقیق شروع کرنے کی ضرورت ہے اور سمجھنا چاہیے کہ وہ کیسے بنتے اور مختلف اقسام میں بدلتے ہیں.

ان کا کہنا تھا میرے خیال میں یہ نیا کورونا وائرس پہلے سے یہاں موجود تھا، یہاں سے مراد ہر جگہ ہے، موزوں ماحولیاتی صورتحال میں وہ متحرک ہوگیا‘انہوں نے کہا ایک صدی قبل یعنی 1918 کے اسپینش فلو میں بھی حیران کن چیزیں ہوئی تھیں، جیسے مغربی سمووا کی 30 فیصد آبادی اس وبا کے نتیجے میں ہلاک ہوگئی، حالانکہ ان کا باہری دنیا سے کوئی رابطہ بھی نہیں تھا.

انہوں نے کہا کہ اس کی وضاحت یہی ہوسکتی ہے کہ یہ وائرس یہاں وہاں سے نہیں آیا تھا بلکہ وہ ہمیشہ سے یہاں موجود تھا اور کسی طرح متحرک ہوگیا، شاید گنجان آبادی یا ماحولیاتی صورتحال، اور اس کو ہی ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے. ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ وائرس نکاسی آب کے نظام یا شیئر ٹوائلٹس سے بھی پھیل سکتا ہے اور صرف کھانسی یا چھینک سے خارج ہونے والے ذرات ہی اس کی منتقلی کا واحد ذریعہ نہیں انہوں نے مزید کہا ہم اس حوالے سے باریک بینی سے تحقیق کررہے ہیں، ماحولیاتی صورتحال کی جانچ پڑتال، ان وائرسز کے حوالے سے ابھی بہت کچھ جاننے کی ضرورت ہے.

اپریل میں برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی تحقیق میں کہا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس کی وبا ممکنہ طور پر گزشتہ سال ستمبر کی وسط میں پھیلنا شروع ہوئی تھی اور چین کا شہر ووہان سے اس کا آغاز نہیں ہوا‘کیمبرج یونیورسٹی کی اس تحقیق کے دوران کووڈ 19 کی وبا کی بنیاد ڈھونڈنے پر کام ہورہا ہے اور تحقیقی ٹیم کو توقع ہے کہ وہ اس پہلے فرد کو شناخت کرنے میں کامیاب ہوجائے گی جو اس وائرس کا پہلا شکار بنا، جس کے بعد یہ آگے پھیلنا شروع ہوا.

وائرس کے پھیلنے کے نیٹ ورک کا تجزیہ کرنے کے دوران وہ اب تک اس کے لیے پھیلاﺅکا چارٹ بشمول جینیاتی تبدیلیاں جاننے میں کامیاب ہوچکے ہیں یعنی کیسے یہ وائرس چین سے آسٹریلیا، یورپ اور باقی دنیا تک پھیلا‘اس تحقیق کے دوران اس تحقیق میں کورونا وائرس کے 1 ہزار سے زائد مکمل جینومز کو دیکھا گیا جن کا سیکوئنس انسانی مریضوں سے تیار کیا گیا تھا.

بعد ازاں جینیاتی تبدیلیوں کی بنیاد پر وائرس کو ٹائپ اے، بی اور سی میں تقسیم کیا گیا اور ٹائپ اے ٹائپ اے وائرس ممکنہ طور پر چمگادڑوں سے براستہ پینگولین انسانوں میں چھلانگ لگا کر پہنچا تھا ٹائپ اے کو چینی اور امریکی شہریوں میں دریافت کیا گیا جس کا تبدیلیوں والا ورژن آسٹریلیاں اور امریکا تک پہنچا. تحقیق کے مطابق ووہان میں زیادہ تر کیسز میں ٹائپ اے وائرس نظر نہیں آیا بلکہ ٹائپ بی وائرس متحرک تھا جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وہاں کسی ایونٹ سے یہ بدلنا شروع ہوا ٹائپ سی ورژن ٹائپ بی کے بطن سے نکلا جو یورپ کے ابتدائی کیسز میں نظر آیا جبکہ جنوبی کوریا، سنگاپور اور ہانگ کانگ میں بھی اس کے مریض تھے مگر چین میں اس کے آثار نہیں ملے.

محققین کے مطابق جمع شدہ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا 13 ستمبر سے 7 دسمبر کے دوران پھیلنا شروع ہوئی اور اس کی بنیاد وائرس میں تبدیلیوں کی شرح کی رفتار ہے تاہم سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ وقت کا تخمینہ غلط بھی ہوسکتا ہے مگر فی الحال یہی تخمینہ درست لگتا ہے، اس حوالے سے مزید مریضوں کے نمونوں کا تجزیہ کیا جائے گا. تحقیقی ٹیم کے قائد پیٹر فورسٹر کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اس وبا کے آغاز ووہان سے نہیں ہوا کیونکہ وہاں تمام مریضوں میں ٹائپ بی وائرس دریافت ہوا، البتہ ووہان سے 500 میل دور واقع صوبے گوانگ ڈونگ میں 11 میں سے 7 جینومز میں ٹائپ اے کو دیکھا گیا، یہ تعداد بہت کم ہے کیونکہ وبا کے ابتدائی مرحلے کے جینومز کی تعداد بہت کم تھی.

وائرس کی اصل بنیاد کی شناخت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ آئندہ ایسا ہونے سے بچا جاسکے اور اس سے یہ معلوم ہوگا کہ وہ کونسے عوامل ہیں جس کی وجہ سے کووڈ 19 پھیلا‘سائنسدانوں نے پہلی بار اس وائرس کی بنیاد جاننے کے لیے قدم زمانے کے انسانوں کی ہجرت کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے وائرس کے پھیلاﺅکو ٹریک کیا.

اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئے خیال رہے کہ مارچ میں ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس وائرس کا پہلا کیس 17 نومبر کو سامنے آیا تھا یہ بات ساﺅتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے چینی حکومت کے کورونا وائرسز کے کیسز کے تجزیے کے حوالے سے بتائی‘چینی حکومتی ڈیٹا کے مطابق 17 نومبر کو یہ ممکنہ پہلا مریض سامنے آیا تھا.

اس کے بعد روزانہ ایک سے 5 نئے کیسز رپورٹ ہوئے اور 15 دسمبر تک کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد 27 تک پہنچ گئی تھی جبکہ 17 دسمبر کو پہلی بار 10 کیسز رپورٹ ہوئے اور 20 دسبمر کو مصدقہ کیسز کی تعداد 60 تک پہنچ گئی تھی. 27 دسمبر کو ہوبے پرویڑنل ہاسپٹل آف انٹیگرٹیڈ کے ڈاکٹر زینگ جی شیان نے چینی طبی حکام کو اس نئے کورونا وائرس سے ہونے والے مرض کے بارے میں بتایا تھا، جب تک مریضوں کی تعداد 180 سے زائد ہوچکی تھی، مگر اس وقت بھی ڈاکٹروں کو اس کے حوالے سے زیادہ شعور نہیں تھا 2019 کے آخری دن یعنی 31 دسمبر کو مصدقہ کیسز کی تعداد 266 تک پہنچی اور یکم جنوری کو 381 تک چلی گئی.

رپورٹ کے مطابق چینی حکومت کا یہ ریکارڈ عوام کے لیے جاری نہیں کیا گیا، مگر اس سے ابتدائی دنوں میں مرض کے پھیلاﺅ کی رفتار کے بارے میں اہم سراغ ملتے ہیں اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک چین میں کتنے کیسز رپورٹ ہوچکے تھے سائنسدان اس پہلے مرض کی تلاش اس لیے بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ نئے کورونا وائرس کا باعث بننے والے ذریعے کا سراغ لگایا جاسکے، جس کے بارے میں ابھی سوچا جاتا ہے کہ یہ کسی جانور جیسے چمگادڑ سے ایک اور جانور میں گیا اور پھر انسانوں میں منتقل ہوگیاحکومتی ڈیٹا کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے کیسز نومبر سے بھی پہلے رپورٹ ہوئے ہوں جن کی تلاش کا کام ہورہا ہے.