چین دوسرے ممالک کی زمین پر قبضہ کر کے اسے اپنی کالونی بنانے کے نظریہ پر یقین نہیں رکھتا ہے،سردار مسعود خان

چین اور پاکستان بااعتماد دوست ہیں ،دونوں ممالک اپنے عوام کی سماجی اور اقتصادی ترقی کے لئے شعوری فیصلے کر رہے ہیں، چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے سے کچھ ممالک خاص طور پر بھارت کو تکلیف ہے ، منصوبے سے پاکستان میں اقتصادی خوشحالی آئیگی جو بھارت کو ایک آنکھ نہیں بہاتی ہے، صدر آزاد جموں وکشمیر

پیر 6 جولائی 2020 18:19

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 جولائی2020ء) صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ چین دوسرے ممالک کی زمین پر قبضہ کر کے اسے اپنی کالونی بنانے کے نظریہ پر یقین نہیں رکھتا ہے۔ چین اور پاکستان بااعتماد دوست ہیں اور دونوں ممالک اپنے عوام کی سماجی اور اقتصادی ترقی کے لئے شعوری فیصلے کر رہے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے سے کچھ ممالک خاص طور پر بھارت کو اس لئے تکلیف ہے کہ اس منصوبے سے پاکستان میں اقتصادی خوشحالی آئے گی جو بھارت کو ایک آنکھ نہیں بہاتی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد انسٹیٹیوٹ آف کنفلیکٹ ریزولیشن کے زیر اہتمام ’’سی پیک اور اس کے پاکستان اور افغانستان کی سماجی ترقی پر اثرات‘‘ کے موضوع پر سوال و جواب کی ایک نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

صدر آزادکشمیر نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ میگا منصوبے کے چھ ذیلی منصوبوں میں سے ایک ہے جس کی معاشی اور اسٹرٹیجک اہمیت دونوں ممالک پر واضح ہے۔

چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ دنیا کے مختلف ممالک اور براعظموں کو باہم مربوط کرے گا اور یہ حالیہ تاریخ کا ایک ایسا منصوبہ ہے جس کا کوئی ثانی نہیں اور اس منصوبے کو دنیا کے کئی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے باہمی معاشی تعاون کے تصور پر مبنی ایک نیا عالمی اقتصادی تعاون کا نظام معرض وجود میں آئے گا۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے خدوخال پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ 62بلین ڈالر مالیت کے اس منصوبے میں ابتدا میں بحری اڈوں کی تعمیر، توانائی پیدا کرنے اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے منصوبے شامل تھے جس میں بعد میں سماجی اور اقتصادی ترقی کے کئی اور منصوبے شامل کر کے اسے مزید جامع اور بامقصد بنا دیا گیا ہے۔

اس منصوبے کے تحت دونوں ممالک کے عوام کو روزگار کی فراہمی کے علاوہ دونوں خطوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لا کر ان کے اندر مہارتوں میں اضافہ کرنا اور انسانی سرمایہ کے اعشاریوں کو بہتر بنانے کا ہدف شامل ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سی پیک پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے میں مدد گار ضرور ہے لیکن یہ ہماری معاشی منصوبہ بندی کا متبادل نہیں ہے۔

امریکہ اور بھارت کی طرف سے سی پیک کی مخالفت کے حوالے سے پوچھے گے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ امریکہ کے تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھارت اس منصوبے کی مخالفت صرف اس لئے کر رہا ہے کہ اس سے پاکستان کو اقتصادی فائدہ پہنچے گا ۔ اس کے علاوہ بھارت کا یہ بھی اعتراض ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کے کچھ حصوں پر گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں عملدرآمد کیا جائے گا جو متنازعہ علاقے ہیں لیکن ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ نہ صرف گلگت بلتستان اور آزادکشمیر متنازعہ علاقے ہیں بلکہ پوری ریاست جموں وکشمیر متنازعہ ہے جس کے ایک بڑے حصے پر بھارت نے قبضہ جما رکھا ہے اور اس ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں افغانستان کی شمولیت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں صدر آزادکشمیر نے کہا کہ افغانستان کی قیادت اور حکومت اس منصوبے میں گہری دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے۔ افغانستان میں سلامتی کی صورتحال اور وہاں امریکی موجودگی اور بھارت کی مخالفت جیسے پیچیدہ عوامل کے باوجود افغانستان کو اس منصوبے میں شامل کرنے کے لئے فضا سازگاربنائی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ اگر افغانستان سی پیک میں شامل ہو تا ہے تو اس سے خطہ میں خوشحالی آنے کے ساتھ ساتھ امن واستحکام کو یقینی بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ صدر سردار مسعود خان نے اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ سی پیک کی طرف سے پاکستان کو قرضوں کے جال پھنسانے کی ایک چال ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک پر ملک کی جملہ سیاسی قیادت متفق ہے اور پاکستانی معاشرے کے تمام شراکت داروں کو اعتماد میں لے کر اس کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جس سے ملک کے تمام حصے خاص طور پر بلوچستان کو بے پناہ اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔

لیکن ہمیں علم ہے کہ بھارت بلوچستان میں اس منصوبے کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا رہا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کو جو قرض دے رہا ہے وہ ہمارے بین الاقوامی قرضوں کے حجم دس فیصد سے بھی کم ہے۔ لداخ میں بھارت اور چین کے درمیان حالیہ کشیدگی اور اس کے کشمیر پر اثرات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت نے گزشتہ سال پانچ اگست کو جموں وکشمیر اور لداخ پر دوبارہ قبضہ کر کے اسے یونین ٹریٹریز قرار دینے کا جو اعلان کیا تھا اس پر چین کو سخت اعتراض تھا اس کے بعد چین نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زیر بحث لانے کے لئے نہ صرف پاکستان کا ساتھ دیا بلکہ چین اور بھارت کے درمیان مختلف مواقع پر ہونے والی بات چیت میں بھی اس مسئلے کو اٹھایا۔