قوام متحدہ کشمیر کو بھارت کی کالونی بننے سے بچائے ، صدر آزاد کشمیر

یورپ اور امریکہ میں بسنے والے کشمیری نئی نسل کو کشمیر کی تاریخ سے جوڑیں ، اُنہیں سائنس و ٹیکنالوجی و دیگر علوم سے آراستہ کریں کشمیری تارکین وطن کی ذمہ داریاں پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہیں ، تحریک کشمیر یورپ کے کنونشن سے ویڈیو لنک کے ذریعے مسعود خان کا خطاب

پیر 13 جولائی 2020 22:04

مظفرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 13 جولائی2020ء) آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ 13 جولائی 1931ء کے شہدا نے کشمیریوں کے اندر جو بیداری پیدا کی تھی اُس کی وجہ سے نہ صرف آزاد کشمیر کے لوگوں نے آزادی حاصل کی بلکہ مقبوضہ کشمیر میںحریت پسند عوام بھی 73 سال سے بھارتی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

ہمیں اپنی نئی نسل خاص طور پر اُن بچوں کو اپنی تاریخ اور اسلاف کی قربانیوں سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے جو یورپ اور امر یکہ میں پیدا ہوئے ۔ برطانیہ اور یورپ کی کشمیری کمیونٹی کی ذمہ داریاں پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہیں وہ برطانیہ ، یورپ اور مغربی دنیا کی حکومتوں ، پارلیمانی قوتوں اور ذرائع ابلاغ کو بتائیں آج مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نازی جرمنی سے مختلف نہیں جس کے نتیجہ میں دنیا میں اور خاص طور پر یورپ میں ایک بڑی تباہی آئی تھی ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے یوم شہدا جموں و کشمیر کی مناسبت سے ایک ورچول کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا اہتمام تحریک کشمیر یورپ نے کیا تھا ۔ کنونشن سے تحریک کشمیر یورپ کے صدر محمد غالب ، تحریک کشمیر برطانیہ کے صدر فہیم کیانی ، سیکرٹری جنرل تحریک کشمیر یورپ انصر منصور ، نائب صدر تحریک کشمیر یورپ میاں طیب ، تحریک کشمیر ڈنمارک کے رہنما عدیل احمد عاصی ، ناروے سے شان حسین کاظمی ، اسپین سے ناصر شہزاد ، اٹلی سے محمود شریف ، جرمنی سے خالد پرویز ، جرمنی سے فاروق بیگ ، یولینڈ سے سجاد علی ، سوئیزر لینڈ سے اعجاز چوہدری اور دیگر یورپین ممالک سے کشمیری کمیونٹی کے مندوبین نے شرکت اور صدر آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال اور تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے مختلف سوالات پوچھے ۔

اس موقع پر اپنے خطاب میں صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں صرف جغرافیائی تبدیلیاں ہی نہیں لا رہا ہے بلکہ وہ کشمیریوں کو اُن کے ماضی اور اُن کی اپنی تاریخ سے رشتہ بھی منقطع کرنا چاہتا ہے جس کی ایک مثال یوم شہداء کشمیر پر پابندی لگانا ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ 13 جولائی یوم شہداء کشمیر وہ دن ہے جو مقبوضہ کشمیر میں بھارت نواز جماعتیں بھی منایا کرتی تھی اور اس دن عام تعطیل ہو تی تھی اور اب بھارت نے یہ تعطیل ختم کر کے یوم شہدا کشمیر کے حوالے سے تمام تقریبات پر پابندی عائد کر دی ہے ۔

اُنہوں نے کہا کہ ہماری نئی نسل کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ 13 جولائی 1931بائیس مسلمانوں کی شہادت سے شروع ہونے والی تحریک کے نتیجہ میں 1947 میں مہاراجہ کی حکومت کے خاتمہ کے بعد جب کشمیر آزادی کے قریب تھا تو بھارت نے حملہ کر کے اسے اپنی کالونی بنا دیا ۔ اُس وقت سے لے کر آج تک لاکھوں کشمیریوں کو قتل کیا گیا اور لاکھوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا اور یہ سلسلہ گزشتہ سال پانچ اگست تک جاری تھا لیکن پانچ اگست کو مودی کی فسطائی حکومت نے ایک بار پھر حملہ کر کے مقبوضہ کشمیر پر دوبارہ قبضہ کیا ۔

ریاست کی علیحدہ شناخت کو ختم کیا اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اسے براہ راست دہلی کے ماتحت کر دیا ۔ یہی نہیں بلکہ بھارت نے اس سال دو اپریل کو نئے ڈمیسائل قوانین نافذ کر کے غیر کشمیری بھارتی شہریوں کو آباد کر کے مقبوضہ کشمیر کی آبادی کے تناسب میں تبدیلی لا نے کا عمل بھی شروع کر دیا۔۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت کی طرف سے آزاد کشمیر یا پاکستان کے خلاف جارحیت کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور وہاں ہونے والے واقعات پر سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے کوئی بھی دہشت گردی یا شر انگیزی کر سکتا ہے ۔

کنونشن کے مندوبین کے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور ریاست پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر میں رونما ہونے والے واقعات سے لا تعلق نہیں ہے ۔ گزشتہ سال پانچ اگست کے بعد ستمبر ، اکتوبر اور نومبر میں بڑے پیمانے پر سفارتی سر گرمیاں ہوئیں جس سے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اُجاگر کرنے میں بہت مدد ملی لیکن بد قسمتی سے برطانیہ اور یورپ میں بریگنرٹ اور کرونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد عالمی برادری کی توجہ ہٹ گئی جس سے کشمیر پر اُس طرح دنیا کی توجہ نہیں رہی جو پہلے تھی ۔

اُنہوںنے کہا کہ چین بھارت سرحدی کشیدگی کے بعد ایک بار پھر مسئلہ کشمیراُجاگر ہوا اور دنیا کو احساس ہوا کہ اس مسئلہ کو حل کئے بغیر جنوبی ایشیاء میں امن کا خواب پورا نہیں ہو سکتا ہے ۔ صدر آزاد کشمیرنے برطانیہ اور یورپ میں آباد کشمیریوں پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں اور خواتین کو مسئلہ کشمیر سے جوڑنے کے علاوہ اُنہیں سائنس ، ٹیکنالوجی ، اقتصادیات اور کاروباری علوم سے آراستہ کریں تاکہ وہ بہتر انداز میں کشمیر کاز کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں۔

گلگت بلتستان کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے لیکن وہاں کے عوام اپنے حقوق کے لیے پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں لیکن ہم نے ہمیشہ اُن سے یہی درخواست کرتے رہے کہ کوئی ایسا قدم نہ اُٹھائیں جس سے تحریک آزادی کشمیر پر منفی اثرات مرتب ہوں اور بھارت اُس سے فائدہ اُٹھائے ۔

صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان نے کشمیریوں کی سیاسی و سفارتی حمایت حاصل کرنے کے لیے رائے عامہ پر تحریک کشمیر برطانیہ اور تحریک کشمیر یورپ کے کردار کی تعریت کرتے ہوئے کہا کہ دونوں تنظیموں نے کشمیر کے حولے سے نہایت قابل قدر خدمات انجام دیں جس پر ہم جناب محمد غالب اور راجہ فہیم کیانی کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ قبل ازیں اپنے خطاب میں تحریک کشمیر یورپ کے صدر محمد غالب نے صدر سردار مسعود خان کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ صدر ریاست نے ہمیشہ تحریک کشمیر کی قیادت کی رہنمائی کی جس پر ہم اُن کے شکر گزار ہیں ۔

اُنہوں نے کہا کہ ہم یورپی ممالک میں جب کشمیر کی بات لے کر کسی رکن پارلیمنٹ یا حکومتی ذ مہ دار کے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ بھارت اور پاکستان کا دو طرفہ معاملہ ہے جو دنوں ملکوں کو باہمی بات چیت سے حل کرنا چاہیے ۔