o ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس

ّسینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم (ہلال امتیاز ملٹری) کے آئینی ترمیمی بل 2020 ، سینیٹر فاروق ایچ نائیک کے گارڈین اینڈ وارڈز ترمیمی بل2019 کے علاوہ محمد وقاص اکرم کی عوامی عرضداشت کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا

منگل 14 جولائی 2020 16:25

گ* اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 جولائی2020ء) ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمدجاوید عباسی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم (ہلال امتیاز ملٹری) کے آئینی ترمیمی بل 2020 ، سینیٹر فاروق ایچ نائیک کے گارڈین اینڈ وارڈز ترمیمی بل2019 کے علاوہ محمد وقاص اکرم کی عوامی عرضداشت کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم (ہلال امتیاز ملٹری) کے آئینی ترمیمی بل 2020 کا تفصیل سے جائزہ لیاگیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ اس بل کا گزشتہ اجلاسوں میں تفصیلی جائزہ لیا گیا تھا اور اراکین کمیٹی کی اکثریت کی رائے تھی کہ چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تقرری کا اختیار پارلیمنٹ کو ہے اور پارلیمنٹ ہی کو اسے حل کرنا چاہیے ۔

(جاری ہے)

پارلیمان کو اس پراسس کو بروقت شروع کرنا چاہیے تاکہ وقت پر تقرری عمل میںلائی جا سکے ۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ تقرری کا عمل پارلیمانی کمیٹی طے کرے اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو معاملے کو حل کرے ۔سینیٹر ز میاں رضاربانی،فاروق ایچ نائیک، ذیشان خانزادہ، ڈاکٹرغوث محمد نیازی ، مصطفی نواز کھوکھر، ثناء جمالی اور مصدق مسعود ملک اور ولید اقبال نے کہا کہ جو پارلیمنٹ کو اختیار حاصل ہے پارلیمان اس پر عمل کریں معاملے کو عدالت نہیں بھیجنا چاہیے اور ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی تقرری کے عمل کو یقینی بنائے تاکہ مسائل پیدا نہ ہوں ۔

اراکین کمیٹی نے کہا کہ اگر پارلیمانی کمیٹی کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی تو سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی جائے جو فیصلہ کر سکے ۔جس پر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ بہتریہی ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم اپنے بل کو واپس لیں اور ایک کمیٹی کی رائے کے مطابق ایک نیا بل تیار کر کے کمیٹی کو فراہم کریں تاکہ اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کیا جا سکے ۔

اسی آرٹیکل سے متعلق سینیٹر سراج الحق کا آئینی ترمیمی بل 2020 بھی متفقہ رائے واپس لینے کی منظوری دی گئی ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بچوں کی کسٹڈی کے حوالے سے سینیٹر فاروق ایچ نائیک کے بل کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ بل بچوں کی والدہ کی کسٹڈی کے کے حق کے حوالے سے ہے ۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ طلاق کے بعد خواتین کو سابق شوہر تنگ کرتے ہیں اس حوالے سے عدالتی فیصلے موجود ہیںتاہم اب اسے قانون کی شکل دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سات سال کا بچہ اور سولہ سال کی بچی کی کسٹڈی والدہ کے پاس ہونی چاہیے ۔ سینیٹر مصدق مسعود ملک نے کہا کہ دونوں کی عمر مساوی رکھنی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ بہتریہی ہے کہ والدہ کی وفات کے بعد بچوں کی کسٹڈی والد کے پاس ہونی چاہیے۔ سیکرٹری قانون نے کمیٹی کو بتایا کہ عدالت حقائق کو مد نظر رکھ کر بچے کی کسٹڈی کے حوالے سے فیصلہ کرتی ہے ۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اصولی طور پر کمیٹی سینیٹر فاروق کے بل سے اتفاق کرتی ہے تاہم اراکین نے جن سفارشات کا کہا ہے وزارت قانون جائزہ لے کر آئندہ اجلاس میں کمیٹی کو رپورٹ فراہم کرے ۔کمیٹی اجلاس میں محمد وقاص اکرم کی عوامی عرضداشت کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز نے کمیٹی کو بتایا کہ معاملے کے حوالے سے سفارشات تیار کر لی ہیںجو کمیٹی کو پیش کر دی گئی ہیں اور اس حوالے سے مختلف مسالک سے بھی رائے حاصل کی گئی ہے ۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ معاملے کے حوالے سے ایک کیس سپریم کورٹ میں بھی ہے ۔ جس پر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ چونکہ کیس سپریم کورٹ میں ہے اور اس عوامی عرضداشت کو خارج کر دیا گیا۔کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز میاں رضاربانی،فاروق ایچ نائیک، ذیشان خانزادہ، ڈاکٹرغوث محمد خان نیازی ، مصطفی نواز کھوکھر، ثناء جمالی اور مصدق مسعود ملک ، ولید اقبال ، لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم (ہلال امتیاز ملٹری )کے علاوہ سیکرٹری وزارت قانون اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔