سندھ میںخاندانی منصوبہ بندی اور تولیدی صحت کو ضروری خدمات کا درجہ دے دیا گیا

آبادی میں اضافے کو 2.4 فیصد سے کم کرکے 2 فیصد کردیا جائے گا، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کوویڈ 19 سے متعلق لاک ڈائون کی وجہ سے خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات 50 فیصد متاثر ہوچکی ہیں، ڈاکٹرعذراپیچوہو

جمعرات 16 جولائی 2020 20:05

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جولائی2020ء) وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے فیملی پلاننگ اینڈ ری پروڈکٹو ہیلتھ کو قانونی تحفظ دیتے ہوئے اسے ضروری خدمات کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بات انہوں نے جمعرات کو وزیراعلی ہائوس میں آبادی سے متعلق سندھ ٹاسک فورس کے تیسرے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔ اجلاس میں صوبائی وزرا ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو ، سعید غنی ، ناصر شاہ ، شہلا رضا ، وزیراعلی سندھ کے مشیر اعجاز شاہ شیرازی ، وزیراعلی سندھ کے پرنسپل سیکریٹری ساجد جمال ابڑو ، سیکرٹری صحت ، فوکل پرسن پی ڈبلیو ڈی ڈاکٹر طالب لاشاری ، پی پی ایچ آئی کے سی ای او جناب عبدالوہاب سومرو ،صدر ززبیسٹ محترمہ شہناز وزیر علی ، کنٹری ڈائریکٹر پاپولیشن کونسل ڈاکٹر زیبا سیٹھار ، وی سی ملیر یونیورسٹی ڈاکٹر مہتاب ایس کریم ، بل اینڈ میلنڈا گیٹس فانڈیشن کی نمائندہ ڈاکٹر یاسمین قاضی، یو این ایف پی اے کی نمائندہ محترمہ لینا موسی اور دیگر نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

مراد علی شاہ نے کہا کہ خاندانی منصوبہ بندی اور تولیدی صحت سب سے اہم شعبے ہیں اور انہیں لازمی خدمات کی حیثیت حاصل ہونی چاہئے تاکہ وہ بغیر کسی ترددکے اپنی خدمات کو بلا روک ٹوک جاری رکھ سکیں لہذا انہوں نے وزیر صحت و آبادی ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کو اس مقصد کیلئے ایک قانونی ڈھانچہ تیار کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے وزیر صحت کو بھی ہدایت کی کہ وہ وفاقی حکومت کو خط لکھ کر آبادی سے متعلق فیڈرل ٹاسک فورس بلائیں تاکہ سی سی آئی کے فیصلوں کے مطابق اقدامات اٹھائے جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت سندھ فیملی پلاننگ اور تولیدی صحت کے نفاذ کیلئے لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام کو متحرک کرے گی جس کی شروعات شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں کی تھی۔ وزیراعلی سندھ نے محکمہ آبادی کو ہدایت کی کہ وہ بڑے شہروں کے کچی آبادی والے علاقوں میں خاندانی منصوبہ بندی کا آغاز کریں تاکہ شرح نمو کو کنٹرول کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا ہم تعلیم کو ترجیح دے رہے ہیں تاکہ آبادی پر قابو پانے کے سلسلے میں پائیدار طرز عمل میں تبدیلی کو یقینی بنایا جاسکے اور انھوں نے محکمہ پاپولیشن ویلفیئر پر زور دیا کہ وہ اگلے 10 سال کے دوران آبادی میں اضافے کی شرح کو 2.4 فیصد سے 2 فیصد تک کم کرنے کا ہدف حاصل کرے۔ وزیراعلی سندھ کو آگاہ کرتے ہوئے وزیر صحت و آبادی ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کہا کہ ایل ایچ ڈبلیوز ، ایم این سی ایچ ، اور حفاظتی ٹیکوں سمیت تمام عمودی پروگراموں کو باقاعدہ بجٹ میں منتقل کرکے اور انہیں ڈائریکٹر جنرل اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز کے ماتحت رکھ کر صحت کے نظام میں ضم کردیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے شراکت داروں سے معاشرے میں خواتین اور لڑکیوں کو ٹیلی ہیلتھ خدمات فراہم کرنے کیلئے معاہدہ کیا ہے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ کوویڈ 19 سے متعلق لاک ڈائون کی وجہ سے خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات 50 فیصد متاثر ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گائیڈ لائینز کے مطابق صحت کی سہولیات کے حوالے سے تمام تولیدی صحت خدمات(آر ایچ ایس)اور خاندانی بہبود کے مراکز(ایف ڈبلیو سی)کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کھلے رہیں اور حفاظتی اقدامات کے ساتھ خدمات فراہم کریں۔

اس کے علاوہ ایل ایچ ڈبلیوز جیسے کمیونٹی کارکنان کو اپنے صارفین کے ساتھ واٹس ایپ گروپس کے ذریعے رابطہ کیا گیا ہے۔ڈاکٹر طالب لاشاری ٹیکنیکل ایڈوائزر سی آئی پی / پی ڈبلیو ڈی اور فوکل پرسن ایف پی 2020 نے کہا کہ سندھ نے دسمبر 2020 تک کے مطلوبہ صارفین 986260 کے اہداف میں سے 634928 کے اضافی صارفین کا ہدف حاصل کیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ کوویڈ کی وجہ سے تیار کردہ خدمات میں فرق کو پورا کرنے کیلئے میرے محکموں نے کچھ اہم اقدامات اٹھائے ہیں: قانون سازی: حکومت سندھ نے پہلے ہی تولیدی صحت کے حقوق(آر ایچ آر)ایکٹ متعارف کرایا ہے۔

آر ایچ آر ایکٹ کے قواعد کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور جانچ کیلئے محکمہ قانون کو بھیج دیا گیا ہے، قواعد منظور ہونے کے بعد ایکٹ پر عملدرآمد ہوگا۔ ڈرافٹ ازدواجی مشاورت کا بل محکمہ قانون کی نگرانی میں ہے۔ اس کی جانچ کے بعد اسے منظوری کیلئے صوبائی کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا۔انہوں نے کہاکہ نیروبی سمٹ میں ایس ڈی جیز کے حوالے سے پاکستان کے کمٹمنٹ کے تناظر میں صوبائی سی پی آر اہداف کا تعین کرنے کی ایکسرسائیز کی گئی ہے۔ ہم نے وفاقی وزارت صحت اور یو این ایف پی اے کے ساتھ اتفاق کیا ہے کہ 2025 تک سندھ کا ہدف 43 فیصد اور 2030 تک 50 فیصد ہوگا۔