تیرہویں آئینی ترمیم کے تحت پہلی مرتبہ آزاد کشمیر کے عوام کو مکمل بنیادی آئینی حقوق دیئے گئے ہیں ‘چیف جسٹس چوہدری محمد ابراہیم ضیاء

آزادکشمیر میں لوگوں کے ووٹوں اور مینڈیٹ سے جو حکومت بنتی ہے وہ آزاد کشمیر کی اسمبلی کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے اس لئے تمام انتظامی اور مالی اختیارات اسی کے پاس ہونے چاہئیں‘ریٹائرڈ ہونے کے بعد پہلا تفصیلی انٹرویو

پیر 20 جولائی 2020 21:35

�ظفرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جولائی2020ء) آزاد جموں وکشمیر کے حال ہی میں ریٹائرڈ ہونے والے چیف جسٹس چوہدری محمد ابراہیم ضیاء نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر کے آئین میں 13ویں آئینی ترمیم کی کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق، حق خود ارادیت کی جدوجہد، سماجی انصاف اور اسلامی طرز زندگی کے حوالے اور آزادکشمیر کی منتخب حکومت او ر اسمبلی سمیت دیگرآئینی اور انتظامی اداروں کی اتھارٹی کے ساتھ ساتھ کشمیریوں اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے بھی بہت غیرمعمولی اہمیت ہے اور اس کے تحت صدر ریاست کو آرٹیکل 3اے کے تحت اہم پالیسی امور کے لئے وضع کردہ نکات پر عمل درآمدکے لئے اساسی اصولوں پر عملدرآمد اور ہونے والی پیش رفت رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی سپریم کورٹ نے دے رکھی ہے۔

(جاری ہے)

آزاد جموں وکشمیر کے چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنی مدت پوری کر کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد میڈیا کے نمائندوں کو پہلاتفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے آزاد کشمیر کے آئین میں تیرہویںترمیم اور مجوزہ چودھویں ترمیم کے حوالے سے مختلف اہم سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تیرہویں آئینی ترمیم کے تحت پہلی مرتبہ آزاد کشمیر کے عوام کو مکمل بنیادی آئینی حقوق دیئے گئے ہیں اور آزاد کشمیر کی منتخب اسمبلی اور حکومت کے متوازی کشمیر کی انتظامی اور مالی اتھارٹی حکومت آزاد کشمیر کو منتقل کر کے گذشتہ چالیس سال سے کونسل اور حکومت آزادکشمیر کے درمیان انتظامی اور مالی اختیارات کے ابہام اور کشمکش کو دور کرنے کا آ ئینی اقدام اٹھایا گیا ہے کیوں کہ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ ایک گھر کے دو سربراہ نہیں ہو سکتے اس طرح ایک ہی ریاست میںدو انتظامی اتھارٹیز نہیں چل سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ آزادکشمیر میں لوگوں کے ووٹوں اور مینڈیٹ سے جو حکومت بنتی ہے وہ آزاد کشمیر کی اسمبلی کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے اس لئے تمام انتظامی اور مالی اختیارات اسی کے پاس ہونے چاہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تیرہویں ترمیم سے پہلے جو صورتحال تھی اس سے بڑی خرابی یہ پیدا ہوتی تھی کہ جو امور مالی یا انتظامی طور پر کشمیر کونسل یا چیئرمین کشمیر کونسل وزیراعظم پاکستان کے دائرہ اختیارمیں ہوتے تھے اوراگر وہ حل نہیں ہوتے تھے تو ان کی ذمہ داری ان پر عائد ہونے اور آزاد کشمیرکے لوگوں میں مایوسی پیدا ہونے کے باعث کشمیریوں اور اہل پاکستان کے درمیان بدگمانی اور نفرت کی فضا پیدا ہوتی تھی اور آزاد کشمیر اور پاکستان کی حکومتوں اور اداروں کے تعلقات کار بھی خراب ہوتے تھے اور ان معاملات کے سلسلے میں کشمیر کونسل یا اس کی اتھارٹیز ہماری ریاست کے کسی منتخب فورم یا ادارے کے سامنے جوابدہ بھی نہیں تھے اور نہ ہی اس کے سالانہ کروڑوں اربوں روپے کے بجٹ اوراخراجات کا ہمارے آئینی اور قانونی ادارے یا محکمہ کے تحت کوئی آڈت ہوتا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے اپنے ایک حالیہ آرٹیکل میںبھی پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257 کے حوالے سے یہی بات لکھی ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات یا الحاق کشمیریوں کی مرضی پر منحصر ہے نہ کہ ان پر جبراً کوئی چیز ٹھونسی جائے۔ پاکستان کے آئین کے تحت کشمیریوں اورپاکستان کے تعلقات اور روابط کے لئے یہی بڑا اصول وضع کیا گیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت کشمیریوں کی خواہشات اورمرضی کے بجائے جبر اور طاقت کے زور پران کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے اور کشمیریوں کی مرضی اورآزادانہ رائے کے تحتت پاکستان یا بھارت سے الحاق کا یہ اصول اور کشمیریوں کا بنیادی حق خودارادیت اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی تسلیم کیا گیا ہے اور اسطرح اقوام متحدہ اور عالمی برادری جس میں پاکستان اور بھارت دونوں بھی شامل ہیں کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق آزادانہ طور پر فیصلہ کرنے کا یہ بنیادی انسانی حق کھلے دل سے تسلیم کیا گیا ہے۔

اور ان کا یہ حق معاہدہ کراچی جو محض کچھ شخصیات کے مابین امور طے پانے کی ایک دستاویز ہے کوئی آئینی یا قانونی ڈاکومنٹ نہیں ہے اس میں بھی کشمیریوں کے خود حکومت سازی اورحکمرانی کے اصول کو مانا گیا ہے۔ آئین کے تحت ریاست کے تمام اداروںاور اتھارٹیز کے اختیارات کا تعین کردیا گیا ہے کہ کس کے کیا اختیارات ہیں اور کیا نہیں۔ اور اس کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار عدالتوں خاص کر سپریم کورٹ کو حاصل ہوتا ہے۔

محض خواہشات یا مفادات کی بنیاد پر اختیارات مل سکتے ہیںاورنہ ہی کوئی اتھارٹی حاصل ہو سکتی ہے۔ اوراختیارات کی آئینی اور قانونی حدود کا تعین کرنا آئینی اورقانونی ماہرین اور عدلیہ کا کام ہے۔ کسی تنازع کی صورت میں بحث ومباحثہ کر کے تمام اداروں اور اتھارٹیز کے اختیارات اور ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہیں۔ آزاد کشمیرکے آئین میں مجوزہ چودہویں ترمیم کی اہمیت کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق چیف جسٹس نے کہا کہ چودہویں ترمیم میں حکومت پاکستان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے کچھ ضروری امور کے لئے قانون سازی ضروری ہے تاکہ اس بارے میں پائے جانیوالے ابہام کو دور کیاجا سکے۔

خاص کر شیڈول ((3حصہ الف A میں قانون سازی کا جو اختیار حکومت پاکستان کودیا گیایہ بات آئینی طور پر درست معلوم ہوتی ہے نہ مسئلہ کشمیر کے پس منظر کے حوالے سے یہ طریقہ کار ٹھیک ہے۔ قانون سازی حکومت نہیں قانون ساز ادارے کرتے ہیں آئین کے اس حصے کے تحت جتنی بھی قانون سازی کرنا مطلوب ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسی قانون سازی کی تحریک چیئرمین کشمیر کونسل (وزیراعظم پاکستان) کشمیر کونسل میںکریں اور کونسل بل کی صورت میںقانون سازی کے لئے آزاد کشمیر اسمبلی کو آئینی ترامیم کے لئے بھجوائیں اور ان معاملات میں آزاد کشمیر اسمبلی قانون سازی کرے۔

اس طریقہ کار سے ایک طرف چیئرمین کشمیر کونسل اور کونسل کے ادارے کی آئینی حیثیت بھی اور دونوں اداروں اور حکومتوں کے درمیان مشاورت اور اعتماد کا تعلق بھی قائم رہے گا اور اسمبلی کے منتخب نمائندوں جوعوام کے سامنے براہ راست جوابدہ ہیں کے ذریعے درست خطوط پر مطلوبہ قانون سازی بھی کی جا سکے گی۔ اور جس معاملے میں دونوں حکومتوں یا اداروں کے درمیان کوئی اختلاف یاتنازع پیدا ہو جائے اس کو بھی باہمی مشاورت اور بات چیت سے متفقہ طور پر خوش اسلوبی سے طے کیا جا سکے گا۔

اوراگر کسی معاملے میںابہام یا اعتراض ہو گا تو آزاد کشمیر اسمبلی اس کو کشمیر کونسل کو تجاویز کے ساتھ واپس بھی کر سکے گی اس طرح حکومت پاکستان اپنی ذمہ داریوں کے حوالہ سے آئینی اختیار بھی استعمال کر سکے گی۔ اور پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257کے تحت کشمیریوں کی منشاء کے تقاضے بھی پورے ہونگے اور ان پر کوئی اتھارٹی اپنی مرضی ٹھونس نہیں سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ان دو پہلوئوں کے ساتھ ساتھ تیسرا پہلو انتظامی اتھارٹی کا ہے اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے بھی قانون سازی کا حتمی اختیارآزادکشمیر اسمبلی کو ہونا ضروری ہے۔ اورآزاد کشمیر کے آئین کے آرٹیکل 19میں یہ درج ہے کہ حکومت آزاد کشمیر عوامی مفاد کے ضروری امور حکومت پاکستان یا اداروں کو محکموں اور حکومت آزاد کشمیر، حکومت پاکستان کی مرضی اور مشاورت سے انتظامی اختیارات ایک دوسرے کو تفویض کر سکتے ہیں۔

پاکستان کے آئین میں درج ان دفعات کے تقاضوں کے مطابق دونوں حکومتوں اور ریاستی عوام کی خواہش اور مفادات کو مد نظررکھتے ہوئے آئین کے شیڈول (3) حصہ الف آرٹیکل 19اور پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257کے جملہ آئینی اورقانونی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے چودہویں آئینی ترمیم کیلئے حکومت پاکستان و آزاد کشمیر، صدرریاست اور اپوزیشن جماعتوں ، ماہرین قانون سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو اتفاق رائے سے اپنا اپناکردار مثبت خطوط پر ادا کرنا چاہیے۔

اوران آئینی ترمیم کے حوالے سے بیان بازی اور الزام تراشیوں کے بجائے مل بیٹھ کر ان کو کشمیریوں اور پاکستان کے بہترین مفاد میں افہام وتفہیم سے ضروری امور طے کرنے چاہیںتا کہ فریقین کے درمیان باربار اس سلسلے میں کشیدگی یا تنازع پیدا نہ ہوآزاد کشمیر کی حکومتوںاوراعلٰی عدلیہ کے اس دور میں تعلقات کار، عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد اورضروری آئینی و قانونی اور عدالتی اصلاحات کے حوالے سے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر نے کہا کہ آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت کے دور میں اعلٰی عدلیہ کے زیادہ تر فیصلہ جات پر عمل درآمد ہوا اور اس کا کریڈٹ موجودہ وزیراعظم اوران کے ساتھیوں کو بھی جاتا ہے کہ انہوں نے عدالتی امور میںبے جا رکاوٹیں نہیں ڈالیں اور کئی سخت عدالتی فیصلوں کو بھی انہوں نے خندہ پیشانی سے قبول کر تے ہوئے ان پر عوامی مفاد اور اداروں کی بہتری کے لئے عمل درآمد کرنے کے اقدامات کئے۔

اور اس طرح موجودہ وزیر اعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان کاآئین اور عدالتی فیصلوں اوراصلاحات کے حوالے سے اب تک بڑا مثبت اور متوازی طرز عمل رہا ہے۔ اور آئین اور اداروں کی بالادستی کے لئے ان کی موجودہ حکومت کے دور میںاچھی اور میعاری قانون سازی بھی ہوئی ہے جن کاان کو اور موجودہ اسمبلی کو کریڈٹ دینا چاہیے۔ 1992سے شریعت کورٹ کامعاملہ چل رہا تھا جو سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں حل ہوا۔

شریعت ایپلنٹ بینچ کے حوالہ سے ہم نے پہلی مرتبہ ایک عالم جج کی تعیناتی کافیصلہ کیا تا کہ اس عدالت کے فیصلوں میںشرعی تقاضوں کوبھی پورا کیا جا سکے۔ موجودہ حکومت نے 2017 میں شریعت ایپلنٹ بنچ ایکٹ منظور کیا لیکن اب تک عالم جج کی تعیناتی عمل میں نہیں لائی جا سکی پارلیمانی نظام میں مجبوریاںبھی ہوتی ہیںنا معلوم حکومت کو اس معاملہ میں کیا مجبوری ہی انہوں نے کہا کہ شریعت کورٹ کے حوالے سے یہ اہم فیصلہ اس امر کو مدنظررکھ کر کیاگیا تھا تا کہ عام لوگ متاثر نہ ہوں اور عدالت عالیہ کے تمام ججز کو شریعت کورٹ کے اختیارات دے کر عوام کے لئے انصاف کے حصول کو آسان بنایا گیا۔

اسی طرح لاء کمیشن کا قیام بھی اس دور میں عمل میں لا کر اسکی تمام انتظامی اورآئینی و قانونی ضروریات کوپورا کیا گیا۔ اور اب یہ بڑااہم دارہ ہے جس میں اعلٰی عدلیہ کے چیف جسٹس اور ججز سمیت حکومت، آئینی و قانونی ماہرین اور علماء اکرام کو شامل کیا گیا ہے۔ اس سے قبل حکومت نے اسمبلی سے 2017میں قانون سازی کے ذریعے ریاستی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی ایکٹ منظور کیا اورجوڈیشل پالیسی کے لئے پہلی مرتبہ یہ اہم ایکٹ منظور کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کی تاریخ کے 70 سالوں کے طویل عرصے میںاعلٰی عدلیہ نے پہلی مرتبہ اسطرح کے اہم ترین اور سخت فیصلے کئے اور حکومت نے اہم قانون سازی کر کے نہ صرف آئینی اورعدالتی اداروںمیں اس طرح کی غیر معمولی اصلاحات لائی بلکہ کئی نئے اور اہم اداروں کاقیام بھی عمل میں لاکرسسٹم کوفعال اور مستحکم کیا۔ ہائی کورٹ میں ججز کی 5نئی تعیناتیاں عمل میں لائی گئیںاورسپریم کورٹ ، ہائی کورٹ اور سروسزٹریبونل میں مقدمات کاتیزی سے فیصلہ جات کر کے ہزاروں مقدمات کو اس دور میں نمٹایا گیا۔

تمام اضلاع میں ٖفیملی کورٹس کاقیام عمل میں لانے کا ساتھ ساتھ مظفرآباد، میرپور ، راولاکوٹ اور باغ مین ججزاور وکلاء کو پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے لئے ضروری مکانیت کی سہولیات کی فراہمی کے لئے اقدامات کئے۔ ہائی کورٹ کی عمارت میں توسیع کے علاوہ مظفرآباد میں ڈسٹرکٹ جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر کے ساتھ ساتھ میرپور میں سپریم کورٹ کے ججز کے لئے ریسٹ ہائوس، کشمیرہائوس میں پہلی مرتبہ ایک چھوٹا گھر سپریم کورٹ کے لئے مختص کرنے کے علاوہ وکلاء کے چیمبرز کی تعمیر سمیت ان کو دیگر پیشہ ورانہ سہولیات فراہم کرنے کے لئے اہم اقدامات کئے گئے۔

اور وزیراعظم نے ذاتی دلچسپی لے کر عدلیہ کے وقار کے لئے یہ اہم اقدامات کروائے۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی سے پہلی مرتبہ ریاستی پالیسی ساز کمیٹی ایکٹ کے اہم قانون کی منظوری کے بعدعدلیہ کی اعلٰی کمیٹی نے میری سربراہی میں 2018 میں ایک جامع جوڈیشل پالیسی کا اعلان کیا اور اس کے عدالتی اداروں میںنفاذ کیلئے اقدامات کئے جس سے عدالتوں میں لوگوں کوجلدانصاف کی فراہمی کی راہیں ہموار ہوئیں۔

سال 2019میں مظفرآبادمیں ہونے والی جوڈیشل کانفرنس کے حوالے سے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ اس دور میں ایک اہم اور تاریخی اقدام 13جولائی 2019کو مظفرآبادمیں سپریم کورٹ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی جوڈیشل کانفرنس کا انعقاد تھا جس میں نہ صر ف آزاد جموں وکشمیر ، آزاد خطہ اور گلگت بلتستان سے بڑی تعداد میں ماہرین قانون، اہل علم و دانش بشمول چیف جج گلگت بلتستان چیف کورٹ اور صدر گلگت بلتستان بارایسوسی ایشن نے شرکت کی جس میں نظام انصاف کا جائزہ لے کر مئوثر تجاویز مرتب کی گئیں۔

آزاد کشمیرسپریم کورٹ میںاپنے دورکے اہم فیصلوں اور انکے اثرات کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جسٹس چوہدری محمد ابراہیم ضیاء نے بتایا کہ ہمارے دور میں کئی اہم ترین اور دور رس اجتماعی اہمیت کے حامل فیصلہ جات کر کے ان پر عمل درآمد کروایا گیا جن میں بشیر احمد مغل بنام آزادحکومت کیس جس کا فیصلہ 2014SCR1258پر رپورٹ کیا گیا ہے۔ میں شریعت کی منشاء کے مطابق شریعت کورٹ میں ایک ماہر عالم جج کی تعیناتی کو لازمی قرار دیا گیا تاہم حکومت نے اس معاملے میں کوتاہی کی ہے اور بارہا توجہ دلانے کے باوجودتاحال اس عالم جج کی تعیناتی عمل میں نہیں لائی گئی۔

عدالتی امور اور فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے بیوروکریسی کی روایتی رکاوٹوں کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر حکومتیں اورعدالتیںآئین و قانون کے تحت اپنا درست اختیاراستعمال کرنے کی اپنی اپنی آئینی، انتظامی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کریں اور غیر ضروری نرمی دینے سے اجتناب کریں تو پھر بیوروکریسی عدالتی فیصلوں پر رکاوٹیں ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔

میرا بطور جج بھی اور چیف جسٹس بھی یہی مشاہدہ ہے۔ میں نے اپنے دور میں کشمیر کونسل کے آفیسران سے بھی عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کروایا۔ اورکسی سرکاری آفیسر یا محکمہ کو راہ فرار اختیار نہیں کرنے دی ۔ انہوں نے کہا کہ لوگ لینٹ آفیسران کے اثرانداز ہونے کی بات بھی کرتے ہیں میں کبھی کشمیر کونسل کے دفتر نہیںگیاایک کیس میں جب فنانس سیکریٹری نے فیصلہ پر عمل درآمد نہ کیا تو ہم نے اس کا ورانٹ جاری کیا اور عدالت کے رجسٹرار نے تین گھنٹے میں سیکریٹری سے اس کی تعمیل کروائی۔

چیف سیکریٹری کو ہم نے سپریم کورٹ طلب کر کے ایک دو معاملات کے فیصلوں کی تعمیل کرائی۔ کشمیر کونسل کے سیکریٹری کو نوٹس جاری کیا اور تعمیلی رپورٹ عدالت میں اس سے جمع کروائی اور کشمیرکونسل کے ایک آفیسر کوگرفتار کروایا۔بطور چیف جسٹس بھی اس معاملے میں میرا اپنا تجربہ ہے۔ ہمارے کئی ججز کشمیر کونسل کے جوائنٹ سیکریٹری سے بھی جا کر ملاقاتیں کرتے تھے۔

ہم نے ادارے کے وقار کے منافی ایسی کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی ذاتی مفاد کے لئے اس مقدس ادارے کو استعمال کیا۔ اس طرح عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کا انحصارقوت نافذہ اور اتھارٹی پر ہوتا ہے۔ اللہ کے فضل سے سپریم کورٹ جہاں ماضی میں 300سے 400 سالانہ فیصلوں کی تعداد تھی گذشتہ کئی برسوں سے یہ تعداد بڑھ کر2000سی3000تک پہنچ گئی۔ اہم مقدمات کی بھی فہرست طویل ہے، مفاد عامہ بنیادی حقوق کے تحفظ، قانون کی عملداری، عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد ، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اردو زبان میں فیصلوں کا تحریر کرنا وغیرہ دور رس نتائج کے حامل فیصلہ جات کے لئے ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں۔