مقبوضہ کشمیر میں ایک اور متنازعہ قانون نافذ ‘فوج کسی بھی علاقہ پر قبضہ کرسکتی ہے

مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں ایک اور نیا متنازعہ قانون نافذکردیا‘ فوج کسی بھی مقام کو اسٹریٹیجک قرار دیکر کنٹرول میں لے سکتی ہے آبادی اور رقبے کے اعتبار سے عالمی سطح پر کشمیر میں سب سے زیادہ فوج تعینات ہے‘ بیشتر ہند نواز سیاسی جماعتیں بھی اسکی مخالف ہیں مقبوضہ کشمیر میں اب اس نئے قانون کے تحت حکومت جس جگہ کو بھی دفاعی نکتہ نظر سے اہم سمجھتی ہو اسے بلا روک ٹوک حاصل کر سکتی ہے

بدھ 29 جولائی 2020 11:37

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 جولائی2020ء) بھارتی حکومت نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں ایک ایسا نیا متنازعہ قانون نافذ کیا ہے کہ فوج کسی بھی مقام کو اسٹریٹیجک قرار دے کر اس کو اپنے کنٹرول میں لے سکتی ہے۔مقبوصہ کشمیر کی انتظامیہ نے برسوں پرانے اس قانون کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت جموں و کشمیر میں فوج یا پھر نیم فوجی دستوں کو کہیں بھی زمین حاصل کرنے کے لیے وزارت داخلہ سے اجازت لینی پڑتی تھی۔

اس کے برعکس اب مقبوضہ کشمیر میں اس مرکزی قانون کا اطلاق ہوگا جس میں بری فوج، بحریہ، فضائیہ یا پھر دیگر نیم فوجی دستوں کے لیے حصول اراضی حکومت کا دائرہ اختیار ہے اور وہ اس سلسلے میں جہاں چاہے مناسب معاوضہ دیکر زمین کو اپنے کنٹرول میں کر سکتی ہے۔حکومت نے اس سلسلے میں اراضی حصول کے لیے سن 2013 کے اس مرکزی قانون کا حوالہ دیا ہے جس میں زمین کے بدلے باز آبادکاری کے ساتھ ساتھ معقول معاوضہ دینے کی بات کہی گئی ہے۔

(جاری ہے)

اس قانون کے مطابق کسی بھی جگہ کو اسٹریٹیجک نقطہ نظر سے اہم قرار دینے کا دائرہ اختیار حکومت کا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی اب اس نئے قانون کے تحت حکومت جس جگہ کو بھی دفاعی نکتہ نظر سے اہم سمجھتی ہو اسے بلا روک ٹوک حاصل کر سکتی ہے اور پھر اسے فضائیہ، بحریہ اور دیگر مسلح افواج کے لیے فراہم کر سکتی ہے۔اس سلسلے میں ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان ترامیم سے مسلح افواج کی ضروریات کے لیے بعض علاقوں کو اسٹریٹیجک خطہ قرار دینے کی راہ ہموار ہوجائیگی اور ایسے علاقوں میں تعمیراتی سرگرمیوں کے نظم و نسق کو خصوصی استثنی حاصل ہوگا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد طریقہ کار آسان بنانا ہے تاکہ دفاعی نکتہ نظر سے اہمیت والے انفرااسٹرکچر کو ترقی دی جا سکے۔مقبوضہ کشمیر میں بیشتر حلقے پہلے سے ہی یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ بڑی تعداد میں موجود بھارتی فوج خطے کی ہزارں ایکڑ زمین پر قابض ہے۔ حکومت کے ان تازہ اقدامات پر کشمیریوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے کسی بھی علاقے میں اگر فوج کو کچھ تعمیر کرنا ہوتا تھا تو اسے مقامی انتظامیہ سے اجازت لینی پڑتی تھی لیکن اب کسی بھی جگہ کو اگر اسٹریٹیجک قراردے دیا گیا تو پھر اس پر بھارتی سکیورٹی فورسز کے علاوہ کسی کا اختیار نہیں رہے گا اور وہ جہاں چاہیں اپنی مرضی سے کچھ بھی تعمیر کر سکتے ہیں۔

کشمیر میں انسانی حقوق کے معروف کارکن پرویز امروز کہتے ہیں کہ کشمیر میں حالات پہلے سے بدتر ہیں اور بھارتی حکومت کا خیال ہے کہ وہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدل کر ہی حالات کنٹرول کر سکتی ہے۔ اپنے کنٹرول کے میکنزم کے تحت ہی وہ ریاست کے قوانین میں بہت تیزی سے تبدیلیاں کر ر ہی ہے اور اداروں کو تباہ کرنے میں لگی ہے۔آبادی اور رقبے کے اعتبار سے اس وقت عالمی سطح پر کشمیر میں سب سے زیادہ فوج تعینات ہے۔

کشمیر کی بیشتر ہند نواز سیاسی جماعتیں بھی اس کی مخالف ہیں اور اس سلسلے میں کئی رہنماؤں کی جانب سے بیان بھی سامنے آئے ہیں۔ تاہم حکومت نے مخالفت کے باوجود اسے منظوری دے دی ہے۔ ماہرین کے مطابق حکومت نے اسی کے مد نظر یہ قانون نافذ کیا ہے تاکہ فوج کشمیر میں جہاں بھی چاہے فوجی چھاؤنیاں تعمیر کر سکے اور خطے میں زیادہ سے زیادہ فوج کو تعینات کیا جا سکے۔