دبئی ، کھاتے دار کا اکاؤنٹ ہیک ہونے پربینک کو 50 لاکھ درہم ادا کرنے کا حکم

پیر 3 اگست 2020 10:55

دبئی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 اگست2020ء) دبئی اپیل کورٹ نے کھاتے دار کا اکاؤنٹ ہیک کیے جانے کے مقدمے میں اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ جاری کیا ہے۔ کمرشل کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ کھاتے دار کا اکاؤنٹ بینک اہلکار کی جانب سے ہیک کیے جانے کی ذمہ داری بینک پر آتی ہے۔ بینک، کھاتے دار کو 50 لاکھ درہم ادا کرے۔ اپیل کورٹ نے اس فیصلے کی توثیق کر دی۔

الامارات الیوم کے مطابق مقامی بینک کے ایک اہلکار نے کھاتے دار کے کھاتے سے رقم نکالنے کے لیے نیا طریقہ کار اختیار کیا تھا۔ اس نے بینک کے ریکارڈ پر موجود کھاتے دار کا موبائل نمبر نوٹ کرکے موبائل کمپنی سے جعلی دستاویز پیش کرکے نئی سم نکلوا لی تھی۔اس کی مدد سے بینک ایپلی کیشن کے ذریعے اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کی اور 50 لاکھ درہم نکال لیے تھے۔

(جاری ہے)

مقدمے کی دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ متاثرہ کھاتے دار نے 2015 میں متعلقہ بینک میں بچت اکاؤنٹ کھلوایا تھا۔ 2016 میں اس کا بیلنس 46 لاکھ 77 ہزار درہم تک پہنچ گیا تھا تاہم 2017 میں اسے یہ اطلاع دے کر دم بخود کر دیا گیا کہ اکاؤنٹ میں بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے کھاتہ بند کر دیا گیا۔ کھاتے دار نے بینک سے رجوع کرکے حقیقت حال دریافت کی۔ پوچھ گچھ سے پتہ چلا کہ بینک کا ایک اہلکار جو کریڈ ٹ کارڈ سیکشن سے منسلک تھا اس نے اکاؤنٹ ہیک کیا اور متاثرہ کھاتے دار کے اکاؤنٹ سے سارا بیلنس صاف کر دیا۔

چارلس ویسل کمپنی کے قانونی مشیر وسان الدایہ نے جو کھاتے دار کا وکیل ہے، نے بتایا کہ اس کا موکل امارات میں مقیم تھا۔ یہاں سے وہ بیرون ملک منتقل ہو گیا تھا اور اپنا بچت اکاؤنٹ برقرار رکھے ہوئے تھے واپسی پر یہ جان کر حیران رہ گیا کہ اس کا اکاؤنٹ نہ صرف یہ کہ بند کر دیا گیا ہے بلکہ اس میں ایک درہم بھی باقی نہیں۔ الداعیہ نے بتایا کہ بینک کھاتے اکاؤنٹ سے بیلنس نکالے جانے کی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔

موقف یہ اپنائے ہوئے تھا کہ وہ کھاتے دار کو اس کے موبائل نمبر پر ایس ایم ایس کے ذریعے ترسیل زر کی اطلاع دیتا رہا قانون کے مطابق وہ 30 روز کے اندر اس پر اعتراض کرسکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ بینک نے اپنے طور پر کی گئی تحقیقات کے نتائج قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ کمرشل کورٹ کے فیصلے کے خلاف بینک نے اپیل کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔ اپیل کورٹ نے دو رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں سے ایک بینکار اور دوسرا ٹیکنالوجی امور کا ماہر تھا۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بینک کو قصور وار قرار دے دیا تھا جس پر اپیل کورٹ نے کمرشل کورٹ کے فیصلے کی توثیق کردی اور بینک کو پابند بنادیا کہ وہ کھاتے دار کو اس کے کھاتے سے نکالی جانے والی ساری رقم واپس کرے۔