سعودی عرب کے طول وعرض میں پھیلے سیاحتی اور قدرتی مقامات نے مملکت کی سیاحتی اہمیت کو چار چاند لگا دیئے

مغرب میں بحر احمر اور مشرق میں خلیج فارس کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے جزیرے سیاحوں کی توجہ کا خاص مرکز ہیں سعودی وزارت سیاحت نے ویژن 2030ء کے مطابق قومی سیاحتی ویژن تشکیل دیا ہے مقصد مقامی اور غیرملکی سیاحوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے

منگل 4 اگست 2020 20:30

ریاض (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 اگست2020ء) سعودی عرب کے طول وعرض میں پھیلے سیاحتی اور قدرتی مقامات نے مملکت کی سیاحتی اہمیت کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ کرونا وائرس کی خوفناک وبا کے باوجود سعودی عرب میں سیاحتی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔سعودی عرب میں ویسے تو بڑی تعداد میں سیاحتی مقامات موجود ہیں۔ مگر مغرب میں بحر احمر اور مشرق میں خلیج فارس کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے جزیرے سیاحوں کی توجہ کا خاص مرکز ہیں۔

موسم گرما نے مملکت کے تاریخی سیاحتی مقامات کو ایک بار پھر دنیا کیسامنے پیش کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ جنوب مغربی پہاڑی علاقے اپنی سرسبزی اور شادابی کی بدولت سیاحوں کے کیے کشش رکھتے ہیں جبکہ الاحساء، عسیر اور الباحہ کے جنگلات اور پہاڑ ہر عام وخاص کی توجہ کا مرکز ہیں۔

(جاری ہے)

سعودی عرب کی سرزمین ہزاروں سال پرانی تہذیبوں کی امین ہے۔ کئی مقامات کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے سائنس وثقافت یونیسکو نے بین الاقوامی تاریخی ورثے کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔

ان میں الدرعیہ کے تاریخی کھنڈرات، حائل، جدہ اور الاحسا میں کئی مقامات عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہیں۔سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی کے مطابق سعودی محکمہ سیاحت نے 25 جولائی سے 30 ستمبر تک تنفس کے عنوان سے موسم گرما کا سیاحتی پلان تیار کیا ہے۔ اس پروگرام کے دوران سعودی عرب کے طلسماتی قدرتی مقامات، موسمی تنوع، تاریخی گہرائی اور 10 سیاحتی سمتوں میں سعودی عرب کی اصل ثقافتی شناخت سے زائرین کو روشناس کرایا جائے گا۔

سعودی وزارت سیاحت نے ویژن 2030ء کے مطابق قومی سیاحتی ویژن تشکیل دیا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد سنہ 2030ء تک ملک میں سیاحت کے شعبے کو مزید وسعت دیتے ہوئے سعودی عرب میں مقامی اور غیرملکی سیاحوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے وزارت سیاحت اور ٹورزم نیشنل اتھارٹی نے ان تمام سیاحتی مقامات کو علاقائی اور عالمی سیاحوں کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے جو آج تک سیاحوں کی نظروں سے اوجھل رہے ہیں۔

سعودی عرب کے تاریخی اور سیاحتی مقامات میں دارالحکومت الریاض کو بھی خصوصی مقام حاصل ہے۔ حقیقی معنوں میں الریاض جدید و قدیم ثقافت کا منفرد مرکز اور حسین امتزاج ہے۔الریاض میں موجود الدرعیہ ایک زندہ ثقافتی مرکز ہے۔ ان میں موجود البجیری اور الطریف جیسے مقامات کو عالمی ادارہ سائنس وثقافت یونیسکو 2010ء میں عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کر چکا ہے۔

یہاں کے تاریخی فن تعمیر کے شاہکار رہتی دنیا کو اپنی طرف کھینچتے رہیں گے۔الریاض اور اس کے اطراف میں کئی پرکشش مقامات ہیں۔ قلعلہ المصمک ان تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ 150 سال قبل مٹی سے تعمیر کیا گیا تھا۔ الریاض کا وزٹ کرنے والے اگر قلعہ المصمک کی سیر نہیں کرتے تو وہ ایک اہم تاریخی مقام کی سیر سے محروم رہیں گے۔الریاض میں موجود اختتام کائنات کے نام سے ایک گہری کھائی ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے ایک کشادہ شاہراہ تیار کی گئی ہے جو پہاڑوں سے گذر کر جاتی ہے۔ یہ کھائی دارالحکومت الریاض سے 90 کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔ اس میں کئی نشیب و فراز ہیں اور یہ مملکت کے وسط میں 600 کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔