بیروت دھماکوں کے ذمے داران کو قیمت چکانا ہو گی

واقعے کے ذمے داروں کو کسی صورت نہیں بخشا جائے گا: لبنانی وزیراعظم کا اعلان

muhammad ali محمد علی بدھ 5 اگست 2020 01:12

بیروت دھماکوں کے ذمے داران کو قیمت چکانا ہو گی
بیروت (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 اگست2020ء) لبنانی وزیراعظم کا اعلان، کہتے ہیں بیروت دھماکوں کے ذمے داران کو قیمت چکانا ہو گی، واقعے کے ذمے داروں کو کسی صورت نہیں بخشا جائے گا۔ تفصیلات کے مطابق لبنان کے وزیراعظم کی جانب سے سانحہ بیروت کے حوالے سے اہم بیان جاری کیا گیا ہے۔ لبنان کے وزیراعظم کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سانحہ بیروت کے ذمے داران کو قیمت چکانا ہوگی۔

جو بھی اس سانحے کا ذمے دار ہے اسے کسی صورت نہیں بخشا جائے گا۔ لبنان کے وزیراعظم نے ملک بھر میں ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے جبکہ بیروت کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کی جا چکی۔ لبنان نے پڑوسی ممالک سے مدد بھی طلب کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ لبنان کے دارالحکومت بیروت میں منگل کو ہوئے دو دھماکوں کے نتیجے میں آخری اطلاعات تک 70 افراد جاں بحق اور 2700 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

عرب میڈیا کے مطابق دھماکے بیروت کی بندرگاہ کے قریب ہوئے اور اس سے کئی کلومیٹر تک عمارتوں اور گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے جبکہ قریبی شاہراہ پر کئی گاڑیاں الٹ گئیں اور دھماکوں کی آواز پورے شہر میں سنی گئی۔ برطانوی میڈیا کے مطابق دھماکے میں زمین بوس ہونے والی ایک عمارت کے ملبے سے دس افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں اور سیکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔

بیروت کے گورنر کا کہنا ہے کہ یہ سانحہ بے حد تکلیف دہ ہے۔ گورنر بیروت کا کہنا ہے کہ بیروت واقعہ ہیروشیما، ناگاساکی ایٹمی حملے جیسا سانحہ ہے۔ لبنانی حکام کی جانب سے بتایا جا رہا ہے کہ شہر میں بے پناہ تباہی مچی ہے۔ بیروت کی بندرگاہ اور آس پاس علاقے میں واقع عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو چکیں۔ دھماکوں کے باعث بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے، لاشوں کی گنتی کرنا ممکن ہی نہیں۔

2 کلومیٹر تک کے علاقے میں انسانی اعضاء بکھرے پڑے ہیں۔ لبنان کے حکام کا کہنا ہے کہ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جن کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ اس واقعے کے حوالے سے لبنان کے سیکورٹی چیف نے جاری بیان میں بتایا ہے بیروت کی بندرگاہ پر واقع اسلحے کے گودام میں دھماکے ہوئے۔ گودام میں کئی سال سے اسلحہ پڑا ہوا تھا، جو منگل کے روز دھماکوں کی وجہ بنا۔ دھماکوں کے نتیجے میں پورے شہر میں افراتفری کا عالم ہے۔ متاثرہ علاقوں میں امدادی کاروائیوں کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ جبکہ حکومتی افراد متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر امدادی کاموں کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔