تجارت کی بحالی پر بھارت سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، احمد جواد

ہفتہ 8 اگست 2020 12:58

تجارت کی بحالی پر بھارت سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، احمد جواد
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 اگست2020ء) ایف پی سی سی آئی کے بزنس مین پینل سیکرٹری جنرل (فیڈرل) چوہدری احمد جواد نے کہا کہ تجارت کی بحالی پر بھارت سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک غیر قانونی ہندوستانی حیثیت مقبوضہ کشمیر پر ختم نہ کرے اور اپنے ہمسایہ ممالک کے لئے اس کی ذہنیت کو صاف نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ نئی دہلی نے یہاں تک کہ سارک اعلی ٹریڈ باڈی کے ذریعہ سارک خطے میں ہمیں الگ تھلگ کرنے کی کوشش شروع کر دی۔

بھارت نے سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کو حقیقی طور پر غیر فعال کرنے کے لئے دوسرے ممبر ممالک کے ساتھ لابنگ کا آغاز کردیا ہے کیونکہ وہ اس صدارت کا متحمل نہیں ہے جو دو سال کے عرصے تک پاکستان کو ملی ہے، اس سلسلے میں بھارت کی وزارت تجارت نے بڑے پیمانے پر کام شروع کیا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ستر برس کے دوران ہونے والی پاک بھارت تجارت سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ تجارتی توازن ہمیشہ بھارت کے حق میںہی رہا ہے جس کی وجہ بھارت کی محصولیاتی و غیر محصولیاتی رکاوٹیں ہیں۔

یکطرفہ تجارت میں اربوں ڈالر کے فائدے کے باوجود بھارت اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہیں آتا اور ہمیشہ پاکستان کو غیرمستحکم و بدنام کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے مگر اب مودی سرکار میں پاکستان مخالف سرگرمیاں اپنی انتہا پر پہنچ گئی ہیں۔مودی کشمیر میں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیل رہا ہے اور ہندو تاجروں کو کشمیر میں بسایا جا رہا ہے جو مسلم اکثریت اور مسلمانوں کی معیشت کو ختم کرنے کی سازش ہے۔

بھارت کی خون آشامی اور ہٹ دھرمی جاری ہے اور ان حالات میں تجارتی تعلقات نا ممکن ہیں۔جب تک بھارت اپنا قبلہ درست نہیں کرتا کسی قسم کی نرمی کی ضرورت نہیں ہے۔اگر بھارت کے ساتھ دہرا معیار رکھا جائے گا تو اس سے ہمیں نقصان ہو گا۔ احمد جواد کا کہنا تھا کہ سارک چیمبر کے صدر کشمیر اور بھارت پر پاکستان کے اصولی موقف کے لئے آواز اٹھائیں اور بھارت کی بزنس کمیونٹی کو یہ باور کروائیں کہ کشمیر میں لاک ڈائون اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ناقابل برداشت ہیں۔بھارت کی کاروباری برادری کو بھی سخت پیغام بھیجنے میں سارک چیمبر کے صد اپنا کردار ادا کریں گے تاکہ بھارت کی کاروباری تنظیمیں بھی اپنی حکومت کو منفی پالیسیاں ترک کرنے پر آمادہ کریں۔