تصحیح خبر

شاہد ہماری بارشوں سے فصلوں کی تباہی اپنی جگہ ہماری لاشوں پر بھی کوئی آنسو بہانے والا نہیں ہے،سردار اخترجان مینگل

پیر 10 اگست 2020 23:41

.اسلام آباد/کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 10 اگست2020ء) بلوچستان نیشنل پارٹی کے سر براہ رکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان میں سی پیک کی نتیجے میں وہاں اربوں روپے ڈالر امداد دی جا رہی ہیں تو وزراء اعظم سے لیکر صدر تک اس علاقے کا دورہ کرتے شاہد ہماری بارشوں سے فصلوں کی تباہی اپنی جگہ ہماری لاشوں پر بھی کوئی آنسو بہانے والا نہیں ہے حالیہ بارشوں سے بلوچستان میں بہت نقصانات ہوئے ہیں ہماری زرعی علاقے بالخصوص نصیر آباد، ڈیرہ مراد جمالی ، جھل مگسی ، خضدار، کرخ میں فصلیں تباہ ہو چکی ہے ہم روز اول سے کہتے آرہے ہیں کہ بلوچستان میں جو پانی ضائع ہو رہا ہے خدا کے واسطے بلوچستان میں چھوٹے بڑے ڈیمز بنا ئے جائے تو اتنا نقصان آج ہمیں نہیں اٹھانا پڑتا جمہوریت کا حسن اس کا اہم جز اختلاف رائے ہیں اگر ہم اظہار نہیں کر سکتے تو ہمارے پتلے یہاں کرسیوں پر بیٹھا دی جائے اور ان کے ہاتھوں پر دھا گے باندھی جا ئے جیسے کٹ پتلیاں ہو تی ہے جو ہمیں نچا تے ہیں جن کی ڈوگ ڈگیوں پر ہم ناچتے ہیں لیکن ہم ایک دوسرے کو برا بلا کہتے ہیں اور اس حد تک جا تے ہیں کہ ایک دوسرے کو گالیاں تک دیتے ہیں اور اس قوم کو سیکھانا چا ہتے ہیں جنہوں نے ہمیں منتخب کر کے ایوان میں بھیجا ہے آپ سو چے جن کو ہم نے سکھایا تو اس قوم کی ملک کا کیا حشر ہو گاسانحہ آٹھ اگست کمیشن کا رپورٹ کا نتیجہ محمود الرحمان جیسانکلا ایک خودکش دھماکے میں بلوچستان کی بڑی تعداد میں وکلائوں کو شہید کر دیا جس کے باعث آج بھی عدالتیں اس واقعہ کی وجہ سے یتیم خانہ سا بن چکا ہے اور ایوان بالا میں اس کمیشن کی رپورٹ کو کبھی زیر بحث نہیں لایا گیا اس میں قصور وار کون ہے ہمیں خودکش بچے کی تصویر دکھائی گئی کہ قاتل یہ بچہ ہے اس بچے کے پیچھے ماسٹر مائنڈ اور جس نے ساری پلاننگ بنائی اس کمیشن رپورٹ کو یہاں لایا جائے ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کر تے ہوئے سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ حالیہ بارشوں سے بلوچستان میںبہت نقصانات ہوئے ہیں بلوچستان میں سڑک نہ ہونے کے برابر تھی ہمارے پاس کبھی کسی بڑے صوبے کی زکواة کے طور پر ہمیں ایک سڑک مل بھی جاتی تھی تو کبھی سیلاب کے ذریعے یا کبھی دہشت گردی کے ذریعے سے ان کو تباہ وبرباد کیا جا تا تھا بلوچستان میں لو گوں کی فصلیں تباہ ہو گئی ہے اور گائوں برباد ہو چکے ہیں اور بلوچستان کے زرعی علاقے بالخصوص نصیر آباد، ڈیرہ مراد جمالی کے علاقے وہاں بارشوں نے تباہی مچا دی ہے انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں افسوس ہو تا ہے کہ حکومت کی بے حسی آج حکومت کی جانب سے اعلان کیا جا تا کہ بلوچستان کے ان علاقوں میں گیس کی بڑی ذخائر نکل آئی ہے تو وزرائوں کی بلوچستان میں قطارے لگے ہو تی اگر یہ اعلان ہو تا کہ تیل کی ذخائر کی موجود ہے تو کوئی وزیر وہاں جانے سے نہیں کتراتھا اور اگر یہ کہاجاتا کہ بلوچستان میں سی پیک کے نتیجے میں وہاں پر ڈالر امداد دی جا رہی ہے یہاں کچھ پروجیکٹ لائے جا رہے ہیں تو وزراء اعظم سے لے کر صدر تک اس علاقے کے دورہ کر تے لیکن شاہد ہماری فصلوں کی تباہی اپنی جگہ ہماری لاشوں پر بھی کوئی آنسو بہانے والا نہیں ہو تا انہوں نے کہا ہے کہ ہماری وفاقی وصوبائی حکومت سے گزارش ہے کہ ان نقصانات کا ازالہ کرے اور ہم روز اول سے کہتے آرہے ہیں کہ بلوچستان میں جو پانی ضائع ہو رہا ہے خدا کے واسطے بلوچستان میں چھوٹے بڑے ڈیمز بنا دی جا ئے اگر آج 20 سال پہلے یہ منصوبے بنا دیئے جا تے تو نہ ہی نصیر آباد، جھل مگسی ، خضدار ، کرخ علاقے اتنے متاثر نہیں ہو تے لیکن ہماری کسی نے نہیں سنیں چند سال پہلے آٹھ اگست کے دن بلوچستان میں وکلائوں کی بڑی تعداد کو ایک خودکش دھماکے میں شہید کیا گیا انکوائری ہوئی کمیشن بنا نتیجہ کیا نکلا جیسے عمود الرحمان کا نتیجہ نکلا اسی طرح آٹھ اگست کے کمیشن کا نتیجہ نکلا ہے لیکن اس کمیشن رپورٹ کو کبھی ایوان میں پیش نہیں کیا گیا بلوچستان کے پڑھے لکھے طبقے کا کریم آج بلوچستان کی جوڈیشلی اس واقعہ کی وجہ سے بالکل ایسے یتیم خانہ سا بن گیا ہے جس میں ہمارے بہت معتبر قابل وکلاء اس میں شہید کئے گئے لیکن کیا کبھی اس ایوان نے اس کمیشن رپورٹ کو کبھی زیر بحث لایا گیا ہے اس میں قصور وار کون ہے اس خودکش بچے کی تصویر دکھا کر ہمیں بہلایا جا رہا تھا کہ وکلائوں کے قاتل یہ بچہ ہے اس کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا جنہوں نے منصوبہ بندی کے تحت خودکش دھماکہ کیا اس بچے کی سوچ تھی یا اس کے پیچھے ایک بہت بڑا مائنڈ تھا جس نے ساری پلاننگ بنائی اس کمیشن کی رپورٹ کو یہاں لایا جائے انہوں نے کہا ہے کہ گزشتہ روز اسد محمود نے یہاں ایک بات کی ہے اس اجلاس میں موجود نہیںتھا جو کچھ ہوا چا ہئے اس طرح یا اس طرف سے ہوا جمہوریت کا حسن جس کو کہتے ہیں اس کا اہم جز اختلاف رائے ہیں اگر اختلاف رائے کو نکالا جائے تو نہ جمہوریت رہتی ہے اور نہ ہی جمہوریت کے وہ ادارے مضبوط ہو پا تے ہیں اختلاف رائے رکھنے والوں کو اگر ملک دشمن غدار یا دوسرے ممالک کا ایجنٹ قرار دیا جائے تو میں نے پہلے آپ کو بڑی فہرست دی ہوئی تھی اس میں ملک کے غداروں کے نام شامل تھے محترمہ فاطمہ جناح سے لے کر جی ایم سید سے لے کر بلوچستان میں ہمیں غدار قرار دیدیا ہے لیکن کوئی ایسا نہیں بچا کہ اختلاف رائے رکھنا تو یہ کہا جائے کہ اسمبلی کے آپ کے رول ریگو لیشن میں اس میں یہ ترامیم لائے کہ کسی بھی ممبرکو ایوان کے اندر اختلاف رائے رکھنے کی اجازت نہیں ہے انہوں نے کہا ہے کہ ملک کی جو سب سے بڑی جمہوریت ہے جس سے ہم نے جمہوریت سیکھی انگریز جس کو یونائٹیڈ کنگ گم کہا جا تاہے پچھلے ادوار میں ووٹنگ ہوئی تھی کہ یورپی یونین کے ساتھ رہنا ہے یا نہیں رہنا اس وقت تک عوام نے بھی اپنی رائے دی اور ممبران نے بھی اپنی رائے دی اس میں اکثریت رائے جو تھی ہم یورپی یونین کے ساتھ نہیں رہنا چا ہتے ہیں اور اس فیصلے کو تمام نے لبیک کیا لیکن کسی نے یہ تک نہیں کہا ہو گا جس نے اس مسئلے پر اختلاف رائے رکھا ہو اور اس کو یورپ کا ایجنٹ قرار دیا ہو گا اور وہ تمام ایک ہی ایوان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور شیر وشکر ہے لیکن ہم ان کی تمام بری عادتوں کو اپنا تے ہیں لیکن کم سے کم ان کی کچھ اچھی عادتیں ہمیںاپنانے کی حق حاصل ہے اختلاف رائے رکھنے کے لئے ہمیں کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے انہوں نے کہا ہے کہ جو عوام کی توقعات ہم سے ہے جب ہمیں عوام نے ووٹ دیکر بھیجا ہے تو ان کی کچھ امیدیں ہم سے وابستہ ہے عوام کے جملہ مسائل قومی مسائل پر بات کرنے کی اور نہ ہی اختلاف رائے کا اظہار کر سکیں تو بہتر یہی ہو گا کہ ہماری پتلے یہاں کرسیوں پر بٹھا دی جائے ان کی ہاتھوں پر دھا گے بند دیئے جیسے کٹھ پتلیاں ہو تی ہے یہ ملک ہمیشہ کٹھ پتلیوں کے جیسا چلا آرہا ہے ڈور جن کے ہاتھ میں ہم کبھی ان کی طرف یادا نہیں کر تے ہیں جو ہمیں نچا تے ہیں جن کی ڈوگ ڈوگیوں پر ہم ناچتے ہیں لیکن ہم ایک دوسرے کو برا بلا کہتے ہیں یہاں تک اس حد تک جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کو گالیاں تک دیتے ہیں اور ہم اس قوم کو سیکھانا چا ہتے ہیں جنہیں ہمیں منتخب کر کے یہاں تک لائے ہیں آپ سوچے جنہوں نے ہم سے سیکھا تو اس قوم کی ملک کا حشر کیا ہو گا ۔