مسلسل خسارے کے بعدپاکستان کی برآمدات میں 5.8 فیصد اضافہ

برآمدات نے رواں سال اپریل کے مہینے میں 50 فیصد سے زیادہ کی کمی ریکارڈ کی گئی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 11 اگست 2020 17:08

مسلسل خسارے کے بعدپاکستان کی برآمدات میں 5.8 فیصد اضافہ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 اگست ۔2020ء) کورونا وائرس کی وجہ سے لگاتار تین مہینوں میں خسارے کا شکار رہنے کے بعد پاکستان کی برآمدات جولائی کے مہینے میں مجموعی طور پر 5.8 فیصد اضافے سے بڑھی ہیں پاکستان کی برآمدات نے رواں سال اپریل کے مہینے میں 50 فیصد سے زیادہ کی کمی ریکارڈ کی تو مئی کے مہینے میں یہ کمی 35 فیصد اور جون میں 6 فیصد تک رہی.

تاہم جولائی کے مہینے میں پاکستان کی برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا جو لگ بھگ 6 فیصد تک رہا پاکستان سرجیکل آلات، کھیلوں کی مصنوعات، چاول، پھل، چمڑے کی مصنوعات وغیرہ برآمد کرتا ہے لیکن برآمدی شعبے میں سب سے زیادہ حصہ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی مصنوعات کا ہے، جو تقریباً 55 فیصد سے زائد ہے.

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماہ جولائی میں پاکستان کی برآمدات میں تقریباً چھ فیصد اضافہ ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آیا ہے جب خطے کے دو اہم ملکوں یعنی انڈیا اور بنگلہ دیش کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے جولائی کے مہینے میں انڈیا کی برآمدات 13.7 فیصد جبکہ بنگلہ دیش کی برآمدات 17 فیصد کی شرح سے گری ہیں.

پاکستان کی جانب سے جولائی کے مہینے میں جو ایکسپورٹ کی گئی اس میں مجموعی اضافہ 5.8 فیصد ہے اس اضافے میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی برآمدات کا حصہ 14 فیصد سے زائد ہے معروف بزنس مین اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ وہ اس اضافے کو اضافہ نہیں مانتے انہوں نے کہا کہ برآمدات میں جو اضافہ حالیہ دنوں میں دیکھا جا رہا ہے وہ دراصل اضافہ نہیں بلکہ وہ رکے ہوئے برآمدی آڈرز تھے جو دنیا بھر میں لاک ڈاﺅن کی وجہ سے بیرونی خریدار نہیں اٹھا سکے.

لاک ڈاﺅن کی وجہ سے بیرونی خریداروں نے آرڈر کیے ہوئے مال کو بھیجنے کے لیے انتظار کا کہا اور اصل میں یہ وہی مال ہے جسے اب حکومت برآمدات میں اضافہ قرار دے رہی ہے انہوں نے کہا کہ گذشتہ تین مہینوں میں ملک کی برآمدات نے جس بڑے خسارے کا سامنا کیا اس کے مجموعی خسارے کے سامنے یہ اضافہ کوئی معنی نہیں رکھتا. موتی والا نے کہا کہ حکومت نے ایک سیاسی بات کی ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ ملکی برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے موتی والا نے اس اضافے کے رجحان کے برقرار رہنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ اضافہ ہی نہیں تو اس کے برقرار رہنے کے بارے میں بات کرنا فضول ہے یہ اصل میں رکا ہوا مال تھا جو جولائی کے مہینے میں اکٹھا برآمد ہو گیا.

پاکستان کا رواں برس 22 سے 24 ارب ڈالر کی برآمدات کرنے کا منصوبہ ہے جس میں پاکستان ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی برآمد پر زیادہ انحصار کرے گا پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی سالانہ برآمدات 40 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں جن میں ٹیکسٹائل اور گارمنٹس سر فہرست ہیں انہوں نے کہاکی مجموعی برآمدات 300 ارب ڈالر سے زائد ہیں اور ان میں بھی ٹیکسٹائل اور گارمنٹس شامل ہیں.

برآمدات میں اضافے پر بات کرتے ہوئے ملک میں پائیدار ترقی سے متعلق کام کرنے والے ادارے (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کا کہنا ہے کہ برآمدات میں اضافہ کی وجہ یہاں کچھ دوسری وجوہات ہیں، تاہم یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان نے بھارت اور بنگلہ دیش کے برآمدی آڈرز سے کچھ حصہ حاصل کیا ہو جہاں پاکستان کے مقابلے میں لاک ڈاﺅن سخت تھا اور کاروباری شعبے مکمل طور پر بند تھے.

انہوںنے کہا کہ اس کے پس پردہ کچھ دوسرے عوامل بھی تھے جنہوں نے ایکسپورٹس کو بڑھایا زبیر موتی والا نے اس سلسلے میں کہا کہ آج بنگلہ دیش جو برآمد کرتا ہے وہ اصل میں ہمارا ہی مال تھا جو پاکستان میں برآمدی شعبے کو درپیش مشکلات کی وجہ سے بنگلہ دیش منتقل ہو گیا تھا انہوں نے کہا کہ کچھ تھوڑا بہت شیئر شاید پاکستان کے حصے میں آیا ہو جو بھارت اور بنگلہ دیش میں لاک ڈاﺅن کی وجہ سے پورا نہ ہو سکا ہو تاہم بنیادی طور پر یہ پاکستان کا رکا ہوا مال تھا جو اکٹھا ایکسپورٹ ہوا تو اضافے کی وجہ بنا.

پاکستان کا رواں برس 22 سے 24 ارب ڈالر کی برآمدات کرنے کا منصوبہ ہے جس میں پاکستان ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی برآمد پر زیادہ انحصار کرے گا پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی سالانہ برآمدات 40 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں جن میں ٹیکسٹائل اور گارمنٹس سر فہرست ہیں. بھارت کی مجموعی برآمدات 300 ارب ڈالر سے زائد ہیں اور ان میں بھی ٹیکسٹائل اور گارمنٹس شامل ہیں برآمدات میں اضافے پر بات کرتے ہوئے ملک میں پائیدار ترقی سے متعلق کام کرنے والے ادارے (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کا کہنا ہے کہ برآمدات میں اضافہ کی وجہ یہاں کچھ دوسری وجوہات ہیں، تاہم یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان نے بھارت اور بنگلہ دیش کے برآمدی آڈرز سے کچھ حصہ حاصل کیا ہو جہاں پاکستان کے مقابلے میں لاک ڈاﺅن سخت تھا اور کاروباری شعبے مکمل طور پر بند تھے‘انہوں نے کہا کہ اس کے پس پردہ کچھ دوسرے عوامل بھی تھے جنھوں نے ایکسپورٹس کو بڑھایا.

پاکستان کی برآمدی مصنوعات کے معیار اور ان میں جدت لانے کے لیے سرمایہ کاری کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق سینیئر نائب صدر ابراہیم کسومبی نے کہا کہ عالمی سطح پر اپنی مصنوعات کو پرکشش بنانے کے لیے ”برانڈ ڈویلپمنٹ‘ ‘لازمی ہے جو پاکستان میں بہت ہی کم ہوتی ہے اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا پاکستان کا ٹیکسٹائل کا شعبہ ملکی مارکیٹ میں کپڑا اور اپنی مصنوعات بیچ کر نفع کما لیتا ہے اور بیرونی دنیا کے لیے بہت کم محنت کرتا ہے.

انہوں نے کہا کہ مصنوعات میں جدت لانے کے لیے کاروباری شعبہ اس وقت سرمایہ لگاتا ہے جب اس کے سامنے بزنس آرڈرز کی معقول تعداد ہو جب ٹیکسٹائل والوں کی مصنوعات ملکی مارکیٹ میں کھپ جاتی ہیں تو ان کی جانب سے کم ہی معیار اور جدت پر توجہ دی جاتی ہے. ڈاکٹر سلہری نے اس سلسلے میں بتایا کہ بیرونی سرمایہ کاری ہمارے ہاں برآمدی شعبے میں نہ ہونے کے برابر ہے اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی مثال لے لیں جہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں تک سرمایہ کاری لاتی ہیں اور اپنے برانڈ کی مصنوعات تیار کراتی ہیں.

انہوں نے کہا اسی طرح بھارت میں بیرونی سرمایہ کاری برآمدی شعبے میں آتی ہے ہمارے ہاں اس کے مقابلے میں بہت قلیل مقدار میں برآمدی شعبے میں بیرون ملک سے سرمایہ آتا ہے ڈاکٹر سلہری کے مطابق دوسری جانب ہماری انڈسٹری جس میں سب سے بڑی ٹیکسٹائل کی صنعت ہے وہ بھی اندرون ملک اپنی مصنوعات بیچ کر کچھ نفع کما لیتی ہے لیکن معیار اور جدت پر کم ہی توجہ دیتی ہے.