جس ریاستی، حکومتی خوف، جبر اور دہشت گردی کا مشاہدہ کیا ہے وہ میرے یا پارٹی کیلئے نہیں جعلی ، سلیکٹڈ حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے‘ مریم نواز

نیب کے دفتر کے سامنے ریاستی دہشتگردی اور جبر کا مظاہرہ کیا گیا، مجھے گھر سے بلانے کا واحد مقصد نقصان پہنچانا مقصود تھا بلٹ پروف گاڑی نہ ہوتی تو پتھر مجھے لگتے،پولیس یونیفارم میں لوگوں نے پتھر مارے، پتھر لگنے سے مجھے ہیڈ انجری بھی ہوسکتی تھی

منگل 11 اگست 2020 19:47

جس ریاستی، حکومتی خوف، جبر اور دہشت گردی کا مشاہدہ کیا ہے وہ میرے یا ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 اگست2020ء) پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ آج جس ریاستی، حکومتی خوف، جبر اور دہشت گردی کا میں نے مشاہدہ کیا ہے وہ میرے لیے یا مسلم لیگ (ن)کے لیے نہیں بلکہ اس جعلی اور سلیکٹڈ حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے،نیب کے دفتر کے سامنے ریاستی دہشتگردی اور جبر کا مظاہرہ کیا گیا، پر امن نہتے کارکنوں پر تشدد کیا گیا، آنسو گیس اور پتھر لگنے سے کارکن زخمی ہوئے،گاڑی پر پتھر برسائے گئے، مجھے گھر سے بلانے کا واحد مقصد نقصان پہنچانا مقصود تھا،بلٹ پروف گاڑی نہ ہوتی تو پتھر مجھے لگتے،پولیس یونیفارم میں لوگوں نے پتھر مارے، پتھر لگنے سے مجھے ہیڈ انجری بھی ہوسکتی تھی، مجھے واپس جانے کیلئے پیغام بھی آئے، مجھے کہا گیا بی بی واپس چلی جائیں، نیب والوں نے دروازہ نہیں کھولا، چھپ کر بیٹھے رہے، نیب کے دروازے کے باہر کھڑی رہی اور کہا مجھ سے جواب لے لیں،نیب کا کال اپ لیٹر مجھے پرسوں موصول ہوا، کہا گیا شاید میں نے کوئی زمین خریدی ہے، کال اپ لیٹر میں مجھ پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا۔

(جاری ہے)

نیب پیشی کی منسوخی کے بعد ماڈل ٹائون سیکرٹریٹ میں شاہد خاقان عباسی، رانا ثنااللہ خان، مریم اورنگزیب،پرویز رشید، دانیال عزیز، طلال چوہدری، شائستہ پرویز ملک، محمد زبیر، ملک پرویز ، خواجہ عمران نذیر، چوہدری شہباز، غزالی سلیم بٹ، فیصل کھوکھر، ثانیہ عاشق، سلمی بٹ اور شیزہ خواجہ سمیت دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا کہ آج جس طرح پر امن اور نہتے کارکنان پر پتھر برسائے گئے،اسپرے کیا گیا ،آنسو گیس پھینکی گئی میں اس کی بھرپور مذمت کرتی ہوں اور مسلم لیگ(ن)کے جو کارکنان میرے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے لیے جبر کا سامنا کرتے ہوئے وہاں کھڑے رہے انہیں سلام پیش کرتی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ جب میری گاڑی نیب دفتر کے نزدیک پہنچی اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ دوسری جانب عوام کا سمندر موجود ہے تو اچانک آنسو گیس کی شیلنگ شروع ہوگئی جس سے گاڑی کے ساتھ موجود لوگ دور ہٹ گئے اور گاڑی اکیلی ہوگئی۔اسی اثنا میں نیب دفتر کے بالکل سامنے رکاوٹوں کے پیچھے سے میری گاڑی پر پتھرا ہوا، میری گاڑی بلٹ پروف گاڑی تھی اس کے باجود ونڈ اسکرین ٹوٹ گئی اور سکیورٹی گارڈز نے بغیر کسی حفاظتی اشیا ء کے گاڑی کے سامنے گھڑے ہوکر میری حفاظت کی۔

انہوں ے کہا کہ نیب کی جانب سے جاری اعلامیے میں میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ جو زمین میں نے خریدی تھی اس زمین پر قبضہ کیا تھا لیکن نیب کے طلبی کے نوٹس میں کوئی ایسا الزام موجود نہیں تھا۔نیب کی جانب سے جاری نوٹس پڑھ کر سناتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ اس میں الزام کوئی نہیں ہے، بہت مبہم رکھا گیا ہے کیونکہ مجھے بلانا مقصود تھا اور اب میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ مجھے بلانے کے پیچھے مجھے نقصان پہنچانا مقصود تھا کیونکہ میرے ساتھ جو سلوک کیا گیا، میں نے پاکستان کے 72سال میں یہ ہوتے نہیں دیکھا۔

انہوں نے کہا کہ آج پرویز رشید صاحب میری گاڑی میں تھے اور جب ون ڈ اسکرین پر حملہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ شکر کرو کہ یہ بلٹ پروف گاڑی تھی، اگر یہ بلٹ پروف گاڑی نہ ہوتی تو شیشہ ٹوٹتا اور اس کے بعد پتھر میرے سر پر لگتے کیونکہ میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔مریم نواز نے کہا کہ اگر یہ بلٹ پروف گاڑی نہ ہوتی تو سامنے سے پولیس کی وردی میں ملبوس افراد جو مجھے نہیں معلوم کہ پولیس کے تھے یا نہیں لیکن وہ پولیس کی یونیفارم میں تھے اور پنجاب پولیس عموماً ایسا نہیں کرتی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے موبائل فون پر ویڈیوز بنا لیں اور بطور ثبوت ان ویڈیوز کو ٹوئٹ کردیا۔ اگر گاڑی بلٹ پروف نہ ہوتی تو شیشہ ٹوٹنے کے بعد یہ پتھر مجھے لگتے اور یہ واضح طور پر مجھے جانی نقصان پہنچانے کی کوشش تھی یا شاید میرے سر پر چوٹیں آتی جس میں اس وقت میں ہسپتال میں زیر علاج ہوتی۔مریم نواز نے کہا کہ مجھے غیرآفیشل ذرائع سے کہنا شروع کیا گیا کہ آپ واپس چلی جائیں لیکن میں نے انکار کردیا، میں نیب کے دروازے کے باہر کھڑی رہی اور میں نے کہا کہ آپ نے مجھے نوٹس پر بلایا ہے تو میں جواب لے کر آئی ہوں۔

میں ڈیڑھ گھنٹہ وہاں رہی لیکن انہوں نے دروازہ نہیں کھولا ۔انہوں نے کہا کہ سوال وہاں کیے جاتے ہیں جہاں سوال کرنے والا کا کوئی کردار ہو، نیب کا کردار پہلے سے ہی پتہ تھا، نواز شریف، رانا ثنااللہ، شاہد خاقان عباسی، حمزہ شہباز، سعد رفیق اور نیب گردی کا نشانہ بنانے والے ہمارے رہنمائوں کو پہلے سے پتہ تھا لیکن نیب ان ہتھکنڈوں پر مہر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان نے اپنے رمارکس اور اپنے فیصلوں کے ذریعے لگا دی ہیں اور رہی سہی کسر ہیومن رائٹس واچ نے پوری کردی جس میں یہ واضح طور پر کہا گیا کہ نیب کو سیاسی انجینئرنگ، سیاسی انتقام، مخالفین کو بلیک میل اور دبانے کے لیے اور حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ ایسے نیب کے سامنے پیش نہ ہونا شاید قانون کی زیادہ پاسداری ہو گی کیونکہ نیب تو ان ریمارکس اور حربوں کے بعد اب تو خود ایک مطلوب ادارہ ہے، نیب کو تو اب خود جواب دینے ہیں کہ انہوں نے پاکستانی خزانے کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے بے دریغ استعمال کیوں کیا، کیوں نیب نے اس پیسے کے ذریعے مخالفین کی جوڑ توڑ کی، سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور حکومت کی مدد کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی میر شکیل الرحمن کا کیس لے لیں، ایک وزیر موصوف فرما رہے تھے کہ میں عمران خان صاحب سے یہ درخواست کروں گا کہ میر شکیل الرحمن کو چھوڑ دیں، تو 140دن سے حبس بے جا میں موجود میر شکیل الرحمن کو کیا عمران خان صاحب نے پکڑا ہے، ان کو تو نیب نے پکڑا ہے اور کیا عمران خان کے کہنے پر نیب ان کو چھوڑ دے گی۔انہوںنے کہا کہ نیب کا اصول یہ ہے کہ ناانصافی صرف ہونی نہیں چاہیے بلکہ ہوتے ہوئے نظر بھی آنی چاہیے اور اب ان کا اصول ہے کہ دہشت گردی صرف ہونی نہیں چاہیے بلکہ آج پوری دنیا نے جیسے دیکھا، ہوتی ہوئی نظر بھی آنی چاہیے۔

نیب کی جانب سے بھیجے گئے طلبی کے نوٹس میں مجھ پر ایک الزام بھی نہیں ہے، مجھے بلانے اور نوٹس کے پیچھے صرف نقصان پہنچانا مقصود تھا۔مریم نواز نے کہا کہ مجھ ہر یہ تیسرا مقدمہ ہے پہلا مقدمہ اچھا تھا تو دوسرا اور تیسرا مقدمہ کیوں بنایا گیا،ساٹھ دن میں نیب کی مہمان رہی ہوں پہلی پاکستان کی خاتون ہوں ان کو سمجھ نہیں آرہی تھی مجھے کہاں رکھا جائے ،آاج تک نیب میرے خلاف ریفرنس نہیں بنا سکا،مجھ سے ذاتی زندگی کے سوال ہوتے رہے لیکن مقدمے کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا گیا،دو ہزار اٹھارہ میں انتخابات کی وجہ سے مجھے گرفتار کیا گیا پچھلے سال عوام کے سمندر کو روکنے کے لیے مجھے روکا گیامجھے میاں نواز شریف کے سامنے کوٹ لکھپت جیل میں گرفتار کیا گیامجھے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت گرفتار کیا گیا تھااب مجھے گرفتار کرنے کی اچانک کونسی صورتحال پیدا ہوگئی ،میرے خیال میں ان پر خوف طاری ہے ،عوامی سروے میں نواز شریف اور (ن) لیگ کا گراف بلند ہوا ہے ،عوامی سروے سے یہ گھبرا گئے ہیں، ہرحربہ استعمال کیا گیا لیکن نواز شریف کے گھبراء گئے ہیں،عمران خان کو اقتدار میں آنے کا شوق تھا ،ناکامی کی وجہ سے اب انھیں آقتدار سے جانے کا خوف ہے ،انکو اب اپنے انجام سے خوف آتا ہے ،کبھی کسی کو بلاتے ہیں کبھی کسی کو،پانامہ بھی ختم اقامہ بھی ختم،(ن) لیگ نے بہت سہ لیا لیکن آپ کا کیا بنے گاآپ نے خود کہا کہ چھ ماہ کا وقت ہے ورنہ معاملات کہیں اور چلیں جائیں گے ،آپ نے کہا کہ کشتیاں جلا دیں جس کا مطلب ہے انہوں نے عوام پر ظلم کیا ہے آپ کی حکومت کو ہر محاذ پر ناکامی کا سامنا ہے ،آپ کو ہم پر مسلط کیا گیا ہے آپ کی ترجیحات کچھ اور ہیںآپ کی ترجیحات میں نواز شریف اور نواز شریف ہیت ،مام حکومتی میٹنگ نواز سے شروع ہوکر نواز شریف پر ختم ہوجاتی ہیں،نواز شریف کی تصویر سے آ پ کو پریشانی ہو جاتی ہے آپ کی حراست میں نواز شریف موت کے منہ میں پہنچاآپ کی اجازت سے نواز شریف ملک سے باہر گیا،انسانی ہمدردی کے تحت نہیں نواز شریف کو باہر بھیجا گیاآپ کو اپنے اوپر رحم آیا نواز شریف پر نہیںاگر نواز شریف کو کچھ ہوا تو عوام گریبان پکڑ لیں گے ،اب آپ نے نواز شریف کی صحت پر سیاست شروع کر دی ہے ،خود ہی کہتے تھے کہ جب حکمران چور ہو تو اشیا ء کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں پھر آج چور کون ہے ،آپ کے لئے شرم کا مقام ہے آپ کے وزیر خارجہ ہر محاذ پر ناکام ہیں آپ کو شرم آنی چاہیے ،خارجہ پالیسی کا حال دیکھیں بچگانہ اور غیر زمہ درانہ بیان دے کر سعودی عرب جیسے دوست کو ناراض کر دیا ہے ،ہر طرح سے ملک کو آگ میں جھونک دیا گیا ہے ، آج عوام کا برا حال ہے۔

انہوں نے کہا کہنواز شریف کے بنائے منصوبوں پر تختیاں لگانے سے حقیقت نہیں بدل جائے گی ،جب بھی سی پیک کا ٹویٹ کری ہوں لوگ نواز شریف کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ موجودہ حکومت بیساکھیوں پر کھڑی ہے ،یہ حکومت چھ ماہ کی مہلت پرکھڑی ہے ،آپکے وزیر اور کارکن منہ چھپا رہے ہیں،نواز شریف آئے گا ور عوام کی امنگوں کی ترجمانی ہو گی ،پارٹی کا ایک ہی بیانیہ ہے جو نواز شریف کا بیانیہ ہے ،ووٹ کو عزت دو،نواز شریف کا بیانیہ آئین اور دستور کا بیانیہ ہے ،سب نواز شریف کی لیڈرشپ پر متفق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے لیے بولنا آسان ہے خاموش رہنا مشکل ہے ،میں اگر یہان کچھ بولوں گ تو وہاں میاں صاحب کو نقصان پہچانے کی کوشش کی جائے گی ، کبھی بول کے ہم نے انکو ایکسپوز کیا کبھی خاموش رہ کر،ظلم پر ظلم کرو گے تو کارکن کو غصہ تو آئے گا،میں اکیلی آئی تھی کارکن میرا انتظار کر رہے تھے ،ہمارے کارکن پرامن کارکن ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ نواز شریف کی ہدایت ہے کہ اے پی سی کے ساتھ تعاون کیا جائے ،مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بھرپور تعاون کی یقینی ہدایت کی گئی ہے ، (ن) لیگ جمہوری جماعت ہے ،سب کی آرا ء مختلف ہے جب نواز شریف کی بات آتی ہے تو سب ایک پیج پر ہیں،نواز شریف خاموش نہیں ہیں لیکن نواز شریف نے پنے حصے کا کام کر دیا ہے ،لوگ کارکنوان سے قربانی مانگتے ہیں لیکن نواز شریف نے سارا ظلم اپنے سینے پر سہا ہے ،پاکستان کے ہر منصوبے پر نواز شریف کا نام ہے ،نواز شریف کی صحت ٹھیک ہوگی تو واپس آکر ادھورا کام مکمل کریں گے۔