کپاس کے اہم ترین شعبے کو مزید نظر انداز نہ کیا جائے: میاں زاہد حسین

پاکستان نے چینی منڈی کو نظر انداز کر دیا، آسٹریلیا اور برازیل فائدہ اٹھا رہے ہیں، پندرہ لاکھ کاشتکاروں ، ہزاروں جننگ فیکٹریوں کو بحران سے نکالا جائے

بدھ 12 اگست 2020 17:04

کپاس کے اہم ترین شعبے کو مزید نظر انداز نہ کیا جائے: میاں زاہد حسین
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 12 اگست2020ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ، ایف پی سی سی آئی میں بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئرمین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملکی معیشت اور روزگار کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرنے والے کاٹن کے شعبے کو نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ اسکی ترقی کے لئے مناسب قدامات کئے جائیں۔

پاکستا ن میں کپاس کی پیداوا رگز شتہ چند سا لوں سے مسلسل کم ہو رہی ہے اور اس سا ل بھی 15ملین بیلزکے ہدف کے مقا بلے میں 8 لاکھ بیلز کی پیداوارہوگی۔دوسری طرف کشیدگی کی وجہ سے چین نے امریکہ سے کپاس کی درآمدکم کر دی ہے جس سے پاکستان کے بجائے برازیل اور آسٹریلیا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔جننگ فیکٹریوں میں اربوں روپے کی کپاس پڑی ہے جس کو استعمال یا برآمد کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں تاکہ جننگ فیکٹریاں بحران سے نکل آئیں اور کاشتکاروں کو بروقت ادائیگیاں ہوسکیں۔

(جاری ہے)

میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں جبکہ لوگوں کی آمدنی بھی متاثر ہوئی ہے جس سے کپاس، دھاگے اور ملبوسات کی کھپت میں زبردست کمی آئی ہے اور گزشتہ تین ماہ میں بین الاقوامی منڈی میں کپاس کی قیمت میں34 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ پاکستان بھی اس صورتحال سے متاثر ہوا ہے اوربہت سی ٹیکسٹائل ملز جنرز کو ادائیگیوں کے قابل نہیں رہی ہیں جس سے جننگ سیکٹر مالی بحران کا شکار ہو گیا ہے۔

اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے حکومت کی مداخلت بہت ضروری ہو گئی ہے۔ حکومت اور اسٹیٹ بینک کو چا ہئے کہ وہ جننگ سیکٹر کوبینکو ں کے ذریعے کریڈ ٹ لائن میں اضا فہ کریں۔انھوں نے کہا کہ کپاس کا شعبہ گزشتہ کئی سال سے زوال کا شکار ہے جسکی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلی، کیڑوں کی یلغار، غیر معیاری بیج، جعلی زرعی ادویات، کھاد کی زیادہ قیمت ، پانی اورقابل کا شت رقبے کی کمی اور قدیمی طور طریقے ہیں جبکہ کاشتکاروں کو بینکوں سے قرضے حاصل کرنے میں بھی مشکلات درپیش ہیں جس کا حل نکالا جائے۔

امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں قابل کا شت رقبے میں کمی کے ساتھ ساتھ کپاس کی فی ایکڑ پیداوار 1980 کے مقابلہ میں دگنی ہو گئی ہے مگر پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہے بلکہ کاشتکاروں کے مطابق محنت بڑھ گئی ہے اور آمدن کم ہو گئی ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس شعبے پر ناروا ٹیکسز اور ٹیکس نوٹسز کا سلسلہ بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کپاس کی فصل کو بہتر بنانے کے لئے دوست ممالک چین، ازبکستان، برازیل اور امریکہ کی مہارت اور تجربات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔