Live Updates

حکومت پر تنقیدپر تحریک انصاف کے حامی ہراساں کررہے ہیں، صحافی خواتین

ٹوئٹر اکاؤنٹس ہولڈرز اپنا تعلق تحریک انصاف سے ظاہرکرتے ہیں، خواتین صحافیوں کی ذاتی تفصیلات آن لائن شیئرکی جاتی ہیں، مشترکہ بیان خواتین صحافیوں کو نشانہ بنانا اور ہراساں کرنا انتہائی افسوس ناک ہے، وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے نوٹس لے لیا

بدھ 12 اگست 2020 23:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 اگست2020ء) حکومت پر تنقیدکرنے پر آن لائن ہراساں کیے جانے کے خلاف خواتین صحافیوں نے مشترکہ بیان میں حکومت سے کارروائی کامطالبہ کیا ہے۔خواتین اینکرز، تجزیہ کاروں اور صحافیوں نے آن لائن ہراساں کیے جانے پر مشترکہ بیان میں وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اورقومی اسمبلی وسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

مشترکہ بیان میں حکومت سے درخواست کی گئی کہ آن لائن حملہ کرنے والے تمام اکاؤنٹس کو روکاجائے اور حکومتی ارکان کے خلاف کارروائی کی جائے۔مشترکہ بیان کے مطابق خواتین صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو حکومت سے اختلافی نقطہ نظر رکھنے پر آن لائن ہراساں کیا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

خواتین صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ایسی رپورٹ پر ہراساں کیا جا رہاہے جن میں تحریک انصاف پر تنقید کی جاتی ہے، ایسی رپورٹس کے بعد خواتین صحافیوں پرحکومتی نمائندوں کی طرف سے آن لائن حملے شروع کیے جاتے ہیں۔

پاکستانی خواتین صحافیوں کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر اکاؤنٹس ہولڈرز اپنا تعلق تحریک انصاف سے ظاہرکرتے ہیں،خواتین صحافیوں کی ذاتی تفصیلات آن لائن شیئرکی جاتی ہیں اور انہیں ڈرانے اور ان کی تذلیل کرنے کیلئے لفافہ صحافی اور عوام دشمن قرار دیا جاتا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ خواتین صحافیوں کونہ صرف ان کے کام پر بلکہ بطورخاتون بھی ٹارگٹ کیاجاتا ہے اور انہیں جنسی اورجسمانی حملوں کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور یہ آن لائن دھمکیاں ہماری زندگیاں خطرے میں ڈالتی ہیں، بہت ساری خواتین صحافیوں نے تنگ آکر خود ساختہ سنسر شپ اختیارکرلی ہے۔

خواتین صحافیوں نے وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری سے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کو دیکھیں اورخواتین صحافیوں کو ہراساں کرنیکانوٹس لیں،ایسے ماحول میں ہمارے لیے کام کرنا مشکل ہو رہا ہے، آپ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے اور سنسر شپ کا معاملہ اٹھانے کا وعدہ کیا تھا۔مشترکہ خط پر دستخط کرنے والوں میں محمل سرفراز، بینظیرشاہ، امبرشمسی،زیب النساء برکی، عاصمہ شیرازی، رمشاجہانگیر، عائشہ بخش، غریدہ فاروقی،علینہ فاروق، عالیہ چغتائی، ریماعمر، نذرانہ یوسف زئی، تنزیلہ مظہر، منیزے جہانگیر، فرحت جاوید اور آئمہ کھوسہ شامل ہیں۔

شیریں مزاری نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے کہاکہ خواتین صحافیوں کو نشانہ بنانا اور ہراساں کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ صحافی اپنا کام کرتے ہیں،خواتین صحافیوں کو ان کی تنقید کی وجہ سے نشانہ بنانا اور انہیں ہراساں کرنا بالکل بھی قابل قبول نہیں ہے۔ شیری مزاری نے وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد ازجلد جرنلسٹس پروٹیکشن بل پر کام کروائیں جوکہ نا صرف ہمارے ملک کی فوری ضرورت ہے بلکہ یہ بین الاقوامی قانون کی رو سے بھی ضروری ہے۔دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات