لاہور ہائیکورٹ نے جماعت الدعوة کے 2 راہنماﺅں کی سزائیں معطل کرکے رہائی کے احکامات جاری کردیے

2 رکنی بینچ نے جماعت الدعوة کے رہنما حافظ عبدالرحمان مکی اور حافظ عبدالسلام کی سزاﺅں کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 13 اگست 2020 17:03

لاہور ہائیکورٹ نے جماعت الدعوة کے 2 راہنماﺅں کی سزائیں معطل کرکے رہائی ..
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13 اگست ۔2020ء) لاہور ہائیکورٹ نے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور زمینوں پر قبضے کے کیس میں جماعت الدعوة کے 2 راہنماﺅں کی سزائیں معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کے احکامات جاری کردیے ہیں.

(جاری ہے)

عدالت عالیہ کے جسٹس اسجد جاوید گورال اور جسٹس وحید خان پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے جماعت الدعوة کے رہنما حافظ عبدالرحمان مکی اور حافظ عبدالسلام کی سزاﺅں کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی سماعت کے دوران ملزمان کے وکلا کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نمبر 3 کے جج نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں فیصلہ سنایا جبکہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی طرف سے درج مقدمہ نمبر 20/19 میں تمام گواہوں کے بیانا ت ریکارڈ کیے گئے.

تاہم وکلا کے مطابق عدالت نے 18 جون کو حقائق کا جائزہ لیے بغیر فیصلہ سنایا، لہٰذا ان کے موکل کے خلاف اے ٹی سی کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے بعد ازاں عدالت نے جماعت الدعوةکے دونوں راہنماﺅں عبدالرحمان مکی اور حافط عبدالسلام کی سزائیں معطل کرتے ہوئے مچلکوں کے عوض رہا کرنے کے احکامات جاری کردیے. عدالت کی جانب سے مچلکوں کا تعین بعد میں کیا جائے گا خیال رہے کہ 18 جون کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے کیسز میں جماعت الدعوة کے 4 راہنماﺅں کو سزا سنائی تھی عدالت نے مذکورہ فیصلہ پنجاب کے مختلف شہروں میں پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے دائر کیس پر سنایا تھا.

یہ یاد رہے کہ سی ٹی ڈی نے 2015 میں مذکورہ مجرمان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشنز 11-ایف(2)(5)(6)، 11-ایچ(2)، ایچ-آئی، 11-این اور جے-2 کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی جس پر عدالت کے جج اعجاز احمد بٹر نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 11-ایف (6) کے تحت عبدالرحمان مکی اور عبدالسلام کو ایک، ایک برس قید کی سزا سنائی اور فی کس 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا تھا.

خیال رہے کہ اس کیس کا ابتدائی طور پر ٹرائل ساہیوال اے ٹی سی میں شروع ہوا تھا تاہم بعدازاں اسے ملزمان کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد لاہور منتقل کیا گیا تھا پروسیکیوشن نے الزام لگایا تھا کہ مجرمان کے پاس ممنوعہ الانفال ٹرسٹ کے عہدیداران کے طور پر دہشت گردانہ سرگرمیوں کی معاونت اور دہشت گردی کے لیے اوکاڑہ میں ایک کنال اور 3 مرلے کی جائیداد تھی.

مذکورہ اراضی پر ”مدرسہ جامعہ ستاریہ“تعمیر کیا گیا تھا جج نے فیصلے میں سیکشن 11-ایچ سے متعلق کہا تھا کہ اس شق کا تعلق فنڈ جمع کرنے سے متعلق ہے اور تحقیقات میں اس حوالے سے کوئی ثبوت جمع نہیں کیا گیا لہٰذا پروسیکیوشن یہ الزام ثابت کرنے میں ناکام ہوگئی. اے ٹی سی کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مجرمان نے اعتراف کیا کہ کالعدم قرار دینے کے باوجود وہ اس تنظیم سے وابستہ تھے تاہم خفیہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا خیال رہے کہ اس سے قبل 12 فروری 2020 کو اے ٹی سی نمبر ایک نے جماعت الدعوة کے سربراہ حا فظ محمد سعید اور ملک ظفر اقبال کو 5، 5 برس قید کی سزا سنائی تھی.